Main Menu

اُنيس سو سينتاليس کی غیر فطری توڑ پھوڑ ؛ تحرير: شفقت علی

Spread the love


دنیا بھر میں جہاں کہی بھی آزادی کی تحریکیں اٹھتی ہیں وہاں پر واضع لکیرے ابھرتی ہیں۔ بیسوی صدی میں معرض وجود میں آنے والی تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ غیر فطری توڈ پھوڈ برٹش انڈیا اور اور ریاست جموں کشمیر میں ہوئی۔۔۔۔۔ 3 جون کےپارٹیشن پلان کے بعد ہندوستان کے تقریبا تمام صوبے مکمل طور پر پاکستان اور ہندوستان کا حصہ بن گئے۔
صرف بنگال اور پنجاب کہ بڑی بدقسمتی ہوئی جن کے سینوں پر غیر فطری لکیریں ڈالی گئی۔ ہمسایہ اور دوست دشمن بن گئے ۔ 13 اگست کی رات کو ارپار ہوتے ہوئے ہزاروں انسانوں کء جسم خنجروں سے پیوست ہوئے دل چھلنی ہوئے اور یہ سلسلہ چھے ماہ جاری رہا جس میں دونوں اطراف لاکھوں لوگوں کا قتل عام ہوا۔ عمر بھر کی پونجی آگ کے شولوں میں اڈ گئے۔ لوگ اجداد کی قبریں اور اپنی یادیں چھوڈ کے لاکھوں کی تعداد میں آرپار ہوئے جس کے بعد اس ہجرت کو انسانی تاریخ کہ سب سے بڑی ہجرت قرار دیا گیا۔
اس تقسیم کے زخم ابھی ہرے ہی تھے کہ ریاست جموں کشمیر میں کہانی یہی کہانی دھرائی گئی۔یہاں بھی تمام وزارتیں اور صوبے غیر فطری تقسیم ہوئے۔
تقریبا 8 ہزار مربعہ میل صوبہ کشمیر کا 1500مربعہ میل پاکستان کے پاس جبکہ بقایا 6500مربعہ میل ہندوستان کی چھتر چھایہ میں گیا۔ جموں بشمول پونچھ تقریبا 12000مربعہ میل میں سے بھمبر سے راولاکوٹ اور باغ تک تقریبا 2500 پاکستان کی طرح سرک گیا جبکہ بقایا 9500 مربعہ میل ہندوستان کے رحم وکرم پر گیا۔۔۔
تیسرا شمالی صوبہ گلگت لداخ تب دو انتظامی وزارتوں گلگت اور لداخ پر مشتمل تھا جس کی وزارت گلگت تقریبا بغیر کسی خون خرابے کے پاکستان کی طرف سرک گیا۔ جس کے بعد وزارت لداخ پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین پہلی اعلانیہ جنگ شروع ہوئی جو کہ 13 اگست 1948 میں نہرو سرکار کی یواین سے مداخلت کہ درخواست کے سبب عبوری جنگ بندی تک جاری رپی۔ تب تیسرے شمالی صوبے یعنی ہمارے صوبے کا رقبہ تقریبا 64000 مربعہ میل کے لگ بھگ تھا۔ ہماری وزارت لداخ کا 34000 مربعہ میل ہندوستان کی جھولی میں گرا اور 3000 ہزار مربعہ میل پاکستان کی طرف رہا۔۔۔۔۔ بعدازہ ساٹھ کی دہائی میں کافی علاقہ انڈو چائنہ جنگ کے بعد چین کے قبضے میں آیا ۔ بقایا 32000 مربعہ میل آج بھی ہندوستان کے قبضے میں ہیں۔
پاکستان کے پاس آنے والے علاقے میں سے 2000 مربعہ میل میں سے بڑا حصہ ایوب خان اور ان کے وزیر خارجہ نے تحفے میں چین کو دیا اور تھوڈا علاقہ 1965, 1971 , معرکہ سیاچن اور معرکہ کرگل میں ہندوستان کے پاس چلا گیا۔
پچھے پاکستان کے پاس ہمارے لوگوں کی تقریروں اور تحریروں کے مطابق پاکستان کے پاس ہے۔ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ شندور, سازین اور لولوسر وغیرہ میں کے پی کے کی انکروچمنٹ کے بعد اب موجودہ گلگت بلتستان کا کل رقبہ 26000 مربعہ میل سے بھی کم رہتا ہے۔ آگے بات کہاں تک پہنچتی ہے کچھ کہہ نہیں سکتے۔۔۔
1947میں ہونے والے غیر فطری تقسیم کے وقت صرف ورارت گلگت بڑے سانحے سے بچی۔ باقی یار لوگ جنگ انقلاب اور قتل عام کے افسانے ویسے ہی لکھتے ہیں۔
اس تقسیم نے انسان دوست لکھاریوں کو ہلا کے رکھا اور اس موضوع پر منٹو, کرشن چندر, سجاد ظہیر, سحر, قرت العین حیدر, عصمت,امرتا اور درجنوں نے افسانے, ناول, شاعری کے شکل میں ہزاروں افسانے ناول اور اشعار لکھے۔ درجنوں فلمیں بنی۔
برصغیر سے جموں کشمیر تک کہ غیر فطری تقسیم ہی نے قرتلعین حیدر سے ” اگ کا دریا” جیسا ناول اور منٹو سے ٹوبہ ٹیک سنگھ, ٹٹوال کا کتا, اور آخری سلوٹ جیسے شہاکار افسانے لکھوائے۔
ہمارے خطے میں یہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ یہاں انگریز موجود تھا اور انگریز کا قانون لڑاو اور حکومت کرو سء سب ہی واقف ہیں۔
اب ایک بار پھر اس خطے میں نئے بادل منڈلارہے ہیں۔ اب کہ بار ہمیں ہوش نہیں آیا تو 1947 دوبارہ ہوسکتا ہے۔ اگر الیکشنز اور زاتہ مفادات سے تھوڈی فرصت ملے تو ایک نظر ادھر بھی۔ گلگت لداخ چین اور آمریکہ کہ ریڈار پر آچکا ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *