Main Menu

مہاراجہ ہری سنگھ کی خواہش اور دلچسپ حقائق ؛ تحریر:شاہ نواز علی شیر ایڈووکیٹ

Spread the love


سامراجی و غاصب طاقتیں اپنے غاصبانہ و سامراجی تسلط کے دوام اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے مطلوبہ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے حصول اس کے بنیادی محرکات و لوازمات کی تشکیل کے ساتھ مقبوضہ و محکوم استحصال زدہ طبقات وعوام کو گمراہ کرنے کے لیے،انھیں بہکانے بیوقوف بنانے اور سہولت کاری کی جڑیں اقتدار و انتظامی ذیلی ڈھانچوں میں پیوست کر نے کے لیے،عوامی ہمداری کے حصول کی خاظر بے بنیاد من گھڑت جھوٹے پروپیگنڈوں سے رائے عامہ کو ایسے خطوط پر استوار کرتے ہیں جن کے بل بوتے پر مطلوبہ مزموم مقاصد و اہداف ہر ممکنہ طور پر یقینی ہو سکیں جس کے لیے تمام سامراجی سوچوں وسائل اور ہتکھنڈوں عزائم سے اس قوم یا ملک کی تاریخ و تہذیب،علم و ادب ثقافت و روایات،معشیت و وسائل کو نیست و نابود کیا جاتا ہے تاریخی حقائق کو مسخ کر کے توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے حقائق کے برعکس مسلسل پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں،ان حقائق کو جھٹلایا جاتا ہے عوام کے سامنے نہیں آنے دیا جاتا۔اپنے عزائم کے مطابق نصاب لاگو کیے جاتے ہیں اور عوام کو اس طرح مسخ شدہ نصاب و درس ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ وہ، سچ کیا ہے؟جھوٹ کیا ہے؟حقائق کیے تھے اس بارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر منجمندسوچوں کے حامل حثیت روپ کر لیتے ہیں۔قومی علمی ادبی ورثے پر ایسی ضرب لگائی جاتیں ہیں کہ صدیوں تک قومیں غلامی محکومی استحصال جبر و استبداد کی لعنتوں کو مقدر و تقدیر قرار دے کر قومی آزادی و انقلاب،جداگانہ تشخص اور وحدت سے محروم ہوئے رہتے ہیں۔ریاست جموں کشمیر کی تاریخ و ثقافت تہذیب علم و ادب کے ساتھ اس ریاست پر موجود غاصبو نے ریاستی سہولت کاروں کی وفاداریوں کی قیمت پر مذہب،علاقہ برادری کے حامل تعصب تنگ نظری سہارے،جو کھلواڑ کیا،بدنیتی کی،انسانیت کا قتل کیا،وسائل کو لوٹا غلامی محکومی جبر و استحصال کا بازار گرم کیا وہ کردار انتہائی شرمناک و قابل مذمت رہاشاید ہی اس سے بدتر حشر دنیا میں ایسی کسی بھی ریاست یا عوام کے ساتھ کیا گیا ہو۔مذہبی انتہا پسندی کو بطور نظریاتی ہتھیار بنا بے بنیاد من گھڑت پروپیگنڈے سے ریاست جموں کشمیر کے آخری حکمران مہارجہ ہری سنگھ کی شخصیت و کردار،ذات و خیالات کو جس قدر متنازعہ بنایا گیا الزامات لگائے گے،عوام کے ذہنوں میں نفرت پروان چڑھائی گئی شاید ایسی کوئی اور مثال موجود نہ ہو۔

لیکن تاریخ کسی کی جاگیر نہیں ہوتی جو محبت و نفرت سے مبرا ہر کردار کا احاطہ کیے ہوتی ہے۔ایسے تمام اوچھے ہتکھنڈوں کے باجود آج بھی تاریخ میں مہاراجہ ہری سنگھ کو ریاست جموں کشمیر کے حکمران کی حثیت سے جو مقام حاصل ہے شاید ہی وہ کسی کو حاصل ہو۔اسی نوے سال بیت جانے کے بعد بھی مہاراجہ سے جڑے حقائق سے ریاستی عوام دلچسپی لے رہی ہے اور حقائق کو جاننا چاہتی ہے کیونکہ لمبے عرصے پر مبنی جبر و استحصال عوام کو جدوجہد و شعور سے بھی ضرور ہمکنار کرتا ہے۔ابراہم لنکن نے درست کہا تھا کہ تم تمام لوگوں کو تمام وقت کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے ہو اتنا وقت گذرنے کے بعد اسی وقت کاآغاز ہوا جا رہا ہے جس سے ریاستی عوام کے ذہنوں میں سوالات کا طوفان برپا ہے جن میں اولین ترجیحا یہی سوالات ہیں کہ 1947میں قانون آزادی ہند کے بعد برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کی آزاد و خودمختار برقرار ریاست کی وحدت کو کس نے پارہ پارہ کیا؟پہلا بیرونی حملہ کس نے کب اور کیوں کیا؟موجودہ ریاست کی تقسیم کا ذمہ دار کون ہے؟اگر مہاراجہ ہری سنگھ اپنی ریاست کو خود مختار رکھنا چاہتا تھا تو اس کو بھارت کے ساتھ مشروط الحاق پر کس نے مجبور کیا؟آخر کیا وجہ تھی کہ نہرو سے انتہا کی نفرت کرنے والا مہاراجہ انہی سے مدد مانگنے پر مجبور ہو گیا؟ایسے بنیادی سینکڑوں سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں جب کی بنیاد پر مقدمہ کب سے بن چکا۔عوام کے اسی اضطرابی و عجیب دلچسپی کے حامل کیفیت کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ان حقائق اور سوالات سے ریاست کی سیاسی و سماجی تاریخی حلقوں سمیت قوم پرستوں نے دوہری و مصلحت پسندانہ و مخالفانہ پالیسی اپنائے رکھی رہی جس کی وجہ سے زمینی حقائق کے برعکس تحریک کے علمبرداروں کی تحریک بہتر سالوں سے لاکھوں قربانیاں دینے کے باوجود آج بھی کسی فیصلہ کن موڑ تک نہیں پہنچ سکی کیونکہ تاریخی حقائق کو تسلیم کیے بغیراور جانچ پڑتال کے بعد نہ تو قومی بیانہ درست ہو سکتا ہے نہ ہی اور تحریک کی درست سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ تنازعہ جموں کشمیر اور مہاراجہ ہری سنگھ کے کردار و حثیت بارے حقائق کو سمجھے بغیر اصل رائے قائم ہی نہیں کی جا سکتی۔اسی لیے مہاراجہ کی حثیت و کردار کو بنیادی طور پر متنازعہ بنایا گیا۔اس حوالہ سے آج کی اس تحریر میں مہاراجہ ہری سنگھ سے جڑے چند اہم دلچسپ حقائق و معلومات پیش خدمت ہیں جن پر سوچ و بچار کے بعد حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔


ہری سنگھ پرتاب سنگھ کے بھائی امر سنگھ کے گھر 9اسوج،1952بکرمی،بمطابق30ستمبر 1895میں پیدا ہوئے۔مہاراجہ نے اعلی تعلیم انگریز اساتذہ سے حاصل کی۔1908میں میو کالج اجمیر میں داخلا لیا بعدازاں ڈیرہ دون کے امپیریل کیڈیٹ کالج میں فوجی تربیت حاصل کی۔مہاراجہ پی ایچ ڈی او ر بیرسٹر بھی تھا۔1915میں ہری سنگھ کو بیس سال کی عمر میں پرتاب سنگھ نے ریاست کی فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا جبکہ 1922میں ہری سنگھ کو ریاستی کونسل کا ممبر نامزد کیا گیا۔مہاراجہ پرتاب سنگھ اولاد کی نعمت سے محروم تھا مہاراجہ ہری سنگھ اپنے چاچا پرتاب سنگھ کی زندگی میں ہی آئندہ کا ولی عہد نامزد ہو گیا تھا۔پرتاب سنگھ کی وفات کے بعد تیس سال کی عمر میں مہاراجہ کو جانشین بنایا گیا مارچ1926کو جموں میں رسم تاج پوشی کے وقت ہری سنگھ نے کہا تھا کہ میں ڈوگرہ ہندو ہوں لیکن بحثیت حکمران میرا مذہب انصاف ہے۔قارئین! مہاراجہ کی مذہبی رواداری کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراجہ نے سری نگر میں مسلمانوں کے ساتھ نماز عید بھی ادا کی۔مہاراجہ نے قانون تحفظ زمیندار کا نفاذ کیا جس سے ساہو کاروں اور مہاجنوں کو بہت تکلیف ہوئی،قانون انتقال اراضی نافذ کیا،انجمن امداد باہمی کو فروغ دیا۔عدالت العالیہ قائم کی اور تمام عدالتی اختیارات اسی کے سپرد کیے،عورتوں کے اغواء،زناکاری،بردی فروشی،نابالغوں کی شادی،تمباکو نوشی،رشوت ستانی کے خلاف سخت انسدادی قوانین نافذ کیے۔خاص کر 1927میں باشندہ ریاست کا قانون نافذ کیا جس کی رو سے کوئی غیر ملکی یا غیر ریاستی باشندہ جائیداد و جاگیر نہیں خرید سکتا تھا نہ مالک بن سکتا تھا۔اس قانو ن کو بھارتی فاشسٹ سرکار نے گذشتہ 5اگست 2019کو غیر جمہوری طور پر طاقت و زور سے ختم کر دیا جبکہ پاکستان نے تو گلگت بلتستان میں 1974سے ہی ختم کیا ہوا ہے۔بھارتی شرمناک اس فعل سے ریاست جموں کشمیر میں ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے جسے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔پوری دنیا میں مہاراجہ کا یہ قانون باشندہ اتنا مضبوط تھا کہ دنیا کی سپر پاور سمیت مودی و عمران خان بھی ریاست کی ایک انچ زمین اپنے نام نہیں کرا سکتے۔اس قانون کے نفاذ سے مہاراجہ کی دور اندیشی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے حتی کے معائدہ امرتسر اور مہاراجہ کو نہ تسلیم کرنے والے بھی آج اسی قانون کے نفاذ اور ریاست کی بحالی وحدت و تقسیم نامنظور کا مطالبہ کر رہے ہیں۔مہاراجہ ہری سنگھ 26اپریل1961بروز بدھ بمبی میں فوت ہوئے۔مہاراجہ کی محب الوطنی کے لیے ایک مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاراجہ نے مرتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اس کی چتا کو جلا کر اس کی راکھ کو پانی میں بہانے کے بجائے ریاست جموں کشمیر کے پہاڑوں اور وادیوں میں بکھیر دی جائے چنانچہ بعد ازاں بمطابق وصیت ایسا ہی کیا گیا۔مہاراجہ ہری سنگھ بڑے معیار و سطح کا حکمران تھا جو ریاست جموں کشمیر کو اپنی جاگیر سمجھتا تھا اس میں کسی طرح کی داخلیت و مداخلت کے سخت خلاف اور اندروانی و بیرونی سازشوں و اثر اندازی کا کٹر مخالف تھا۔ہری سنگھ کے دور اقتدار میں انگریزریاستی امور و معاملات میں پوری طرح ملوث ہو چکے تھے وہ مہاراجہ کو اس کے جداگانہ حکمرانی تشخص بارے نیچا دیکھانے ار سبق سیکھانے کے لیے بغاوتیں،سرکشی اور انتشار کو پروان چڑھا رہے تھے اور ان کی سرپرستی کر رہے تھے انہوں نے ایسی چھوٹی موٹی تحریکوں کو منظم کیا اور مسلمانوں کو مشتعل۔کیونکہ اس ریاست میں مسلمان اکثریتی تھے اور مہاراجہ ہندو مذہب کا۔13 جولائی 1931کا سانحہ توہین قرآن کے واقعات اور سیاسی جماعتوں کے قیام دوام کے پیچھے انگریزوں کی سوچ تھی۔مہاراجہ ہندوستان کی ریاستوں کی یونین کا صدر تھا۔جموں کشمیر کی ریاست سب ریاستوں سے مضبوط معتبر و عنان حثیت کی حامل تھی۔انگریز مسلمان اور ہندو سب مہاراجہ کی اعلی سطح صلاحیتوں کے معترف تھے۔برصغیر کی تقسیم کے وقت مہاراجہ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی ریاست کو خود مختار رکھے اس بارے شیخ عبداللہ نے آتش چنار میں لکھا ہے کہ مہاراجہ کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنی ریاست دونوں نو زائیدہ ریاستوں سے الگ رکھے اور آزاد رہے۔چنانچہ اس نے بھارت سے الحق کے مسودہ پر دستخط کرنے سے قبل ماونٹ بیٹن کو خط لکھا جس میں اس بات کا اعتراف کیا کہ کشمیر کا جغرافیائی محل وقوع اور اس کی آبادی کی ہیت ترکیبی کے پیش نظر اس کی خواہش آزاد رہنے کی تھی۔جبکہ آزاد جموں کشمیر کے سابق صدر سردار محمد ابراہیم خان نے6فروری 1987میں روزنامہ پکار اسلام آباد کو ایک اخباری انٹرویو میں اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بات صاف نظر آتی ہے،جب مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کو آزاد خودمختار رکھنے کی سیاسی لڑائی لڑ رہا تھا کشمیری راہنماء ریاست کی تقسیم کی بنیاد رکھ رہے تھے مہاراجہ ایک تدریجی عمل کے ذریعے پارلیمانی جمہوریت کے مراحل طت کر رہا تھا اس نے کانگریس اور مسلم لیگ کی قیادت کے سامنے معائدہ جاریہ کی تجویز رکھی اور اس کے اصول طے کر رہا تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کا بیٹا ڈاکٹر کرن سنگھ اپنی کتاب میں کتاب میں لکھتے ہیں کہ میرے پیتا جی کی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ وہ انگریزوں کے تابع نہ رہیں بلکہ ایک خود مختار حکمران بن جائیں۔جولائی 1946میں مہاراجہ نے اپنے دربار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوسرا اصول جو ہماری پالیسی کا حصہ ہے یہ کہ ہم اپنے اس معاملے میں آزاد خود مختار ہیں کہ ہم کیا فیصلہ کرتے ہیں اس بیرونی ہدایت کے بغیرجس کا ہماری ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔لارڈ بروڈووڈ،ٹونیشن اینڈ کشمیر کے صحفہ نمبر 38میں لکھتے ہیں کہ جب دوسری ریاستوں کو الحاق کی ترغیب دی گئی اور بہت سی ریاستوں نے 15 اگست تک الحق کی دستاویزات پر دستخط کر دیئے،مہاراجہ کشمیر نے ایسا نہ کیا۔مہاراجہ ریاست کو آزاد خود مختار رکھنے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں تھا۔قارئین!بھارتی حکمرانوں،کانگریس نے تقسیم ہند سے قبل و بعد مہاراجہ کو بھارت سے الحق کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے انضمام کے لیے جو دباو ڈالا اس کو تمام تر حقائق کے ساتھ اس تحریر میں کالم کیطوالت کے باعث مرقوم نہیں کیا جس پر آئندہ تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔جس سے بھارت اور مہاراجہ کشیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکے گا۔مہاتما گاندھی نے سری نگر دورہ کے دوران مہارانی کو الحق بھارت پر آمادہ کرنے کی پوری ناکام کوشش کی۔جبکہ مہاتما گاندھی نے مہاراجہ کے محل میں الحق بارے ناکامی اور مہاراجہ کی ضد و ہٹ دھرمی پر بطور احتجاج ناراضگی مہارانی سے دودھ پینے سے انکار کر دیا جو خاص رویت تھی۔قارئین! آپ کے لیے یہ بات بھی دلچپ ہو گئی کہ 12اگست 1947کومہاراجہ نے پاکستان سے معائدہ جاریہ کے بعد جسے جوں کا توں معائدہ بھی کہا جاتا ہے کیا۔پاکستانی پرچم کو سلامی دیااس کے حکم پر ریاست کے طول و عرض میں پاکستانی پرچم لہرایا گیا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے معائدہ کیوں توڑا۔معائدہ شکنی کیوں کی؟کیا اسلام کی تاریخ میں صلح حدیبہ نہیں ہوئی؟کیا اسلام میں معائدہ شکنی کی ممانعت نہیں ہے؟اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔برصغیر کی تاریخ میں برطانوی راج میں ماونٹ بیٹن کی بال دستی،حکمرانی و اہمیت کا تقریبا بخوبی اندازہ ہو گا جو وائسرئے تھا ہندوستان اس کے ایک اشارے کا محتاج تھا۔کانگریس نے اس کے ذریعے بھارت سے الحق پر آمادہ و مجبور کر نے لیے مہاراجہ کو اثر انداز کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ماونٹ بیٹن جب ریاست کے دورے پر اسی غرض کے لیے آیا تو مہاراجہ نے اس کو اہمیت ہی نہ دی مشورے تجاویز نہیں سنیں۔لارڈ سے ملاقات سے کنی کترا رہا۔اس لیے لارڈ کو دعوتوں،شکار پارٹیوں میں الجھائے رکھا۔جس پر لارڈ مہاراجہ کی خواہش کو بھانپ گیا۔آخر کار ماونٹ بیٹن ناخوشگوار ہو کر گیا ار یہ طے ہوا کہ ریاست کی موجودہ آزاد حثیت کو برقرار رکھا جائے۔
قارئین! آپ کو یہ بھی جان کر حیرت ہو گی کہ ہندو کانگریس کی بجائے مہاراجہ ہری سنگھ محمد علی جناح کو ترجیح دیتا تھا جیسا کہ میں اس سے قبل بھی ذکر کر چکا ہوں کہ مہاراجہ ہندوستان کی ہندیونین کا صدر تھا۔مہاراجہ معیار و بلندی کے اس مقام پر فائز تھا کہ محمد علی جناح جیسا قد آور لیڈر قانون دان و شخصیت مہاراجہ ہری سنگھ کا قانونی مشیر تھا۔مہاراجہ نہرو کا سخت مخالف تھا نہرو ار شیخ عبداللہ گہرے دوست تھے نہرو عبداللہ کے ذریعے مہاراجہ کو پریشان کر کے اپنی انا کو تسکین پہنچا رہا تھا کشمیر چھوڑ دوں تحریک بھی نہرو کی سوچ کا نتیجہ تھی۔مہراجہ نے شیخ عبداللہ کو جیل میں ڈال دیا۔جب پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر میں داخل ہونے کا عزم ظاہر کیا تو مہاراجہ نے داخلہ پر پابندی لگا دی ار گرفتاری کاعندییہ دے دیا۔لیکن نہرو نے جب کوہالہ کے راستے مظفر آباد سے کشمیر میں داخل ہونے کی وکوشش کی تو مہاراجہ کے حکم پر ایک کشمیری سپاہی نے نہرو کے گال پر تھپڑ رسید کیا،گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور دلائی کیمپ میں گرفتار کر دیا۔جس پر نہرو نے کہا کہ مہاراجہ نے نہرو کو نہیں بلکہ اپنے مقدر کو تھپڑ مارا ہے۔قارئین! کیا اس وقت مہاراجہ کی خود مختارریاست کو توڑ کر نام نہاد آزادی حاصل کرنے والی لولی لنگڑی بے اختیار و بے وقار ریاست آزاد جموں کشمیر کیا موجودہ وقت کے پاکستانی حکمرانوں کی مغروری و توسیع پسندانہ عزائم پر ایسا رویہ اختیار کر سکتی ہے یا کسی ایک بھی لینٹ آفیسر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حق لے سکتے ہیں لیکن یہ بھی سوال ہے کہ نہرو جیسا قد کاٹھ کا محمد جناح کے حامل ایسا کوئی موجودہ پاکستانی لیڈر بھی تو نہیں۔اگر جواب نہیں تو پھر مہاراجہ مخالف ٹولہ نے بیس کیمپ کے نام پر کیسی آزادی لی؟اور آزادی کے بدلے غلامی ذلت رسوائی غداری کا سودا کیوں کیا؟جس نہرو سے مہاراجہ نفرت کرتا تھا اس سے مدد طلب کرنے پر مجبور کس نے کیا؟ قارئین!ہندوستان کے اس دور میں دیسی ریاستوں کے قیام دوام کے اپنے ہی اصول ہوتے تھے ریاستیں اسی طرح بنا کرتی تھیں۔نہ اپوزیشن ہوتی تھی اور نہ ہی احتساب۔بادشاہوں راجوں کا اپنا ہی نظام تھا جس میں دنیا کے موجودہ ریاستوں و سیاست کے نظام کی مانند خوبیاں بھی تھیں خامیاں بھی تھیں۔لیکن ان تمام ریاستوں میں مہاراجہ و بادشاہ حکمران ہونے کے باوجود بھی جمہوری و پارلیمانی خوبی کا بھی مالک تھا۔مہاراجہ نے 1934میں پہلی مرتبہ،1938میں دوسری مرتبہ اور 1942میں تیسری مرتبہ الیکشن کرائے اور سب اکائیوں سے نمائندگیاں دیں۔آٹھ سیٹیں مہاراجہ کی منشا سے مشروط تھیں جبکہ بقیہ پر چناو ہوتا تھا۔1942سے1947تک حالات ہی خراب رہے۔جس کی وجہ سے الیکشن کا انعقاد مشکل تھا البتہ مہاراجہ بتدریج برطانیہ کی بادشاہ کی طرح اپنا کردار محدود کرکے جمہوری پارلیمانی نظام رائج کرنا چاہتا تھا۔ ایک تدریجی عمل کے ذریعے پارلیمانی جمہوریت کے مراحل طت کر رہا تھا۔مہاراجہ کو جابر و آمر حکمران کا طعنہ دینے والوں نے 22 اکتوبر کو ریاست کے بٹوارے کے بعداور نام نہاد چار و چوبیس اکتوبر کو زآزادریاست جموں کشمیر کے قیام سے 1947سے 1961تک اس خطہ میں ایک بھی الیکشن نہیں کروایا۔بعدازاں کے ایچ خورشید کی کاوشوں جدوجہد سے اس خطہ میں انتخابات کا آغاز ہو ا۔آج تک بھی یہاں اسی کی حکومت برسر اقتدار آتی ہے جس کی اسلام آباد وفاق میں حکومت ہو۔یعنی یہاں کے حکومتیں اسلام باد اور وہاں دہلی کی آشیر باد سے بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔آزاد خطہ میں الیکشن کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے یہ یہاں کی سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو بخوبی علم ہے۔اور خود پاکستان میں تو جمہوریت سے زیادہ آمریت کا دورانیہ رہا ہے۔قارئین!ایک دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے کہ ایک مرتبہ مہاراجہ کی کابینہ کے مسلمان منسٹر جو بڑے مشہور و معروف تھے مہاراجہ کے بلائے اجلاس میں شرکت کے لیے سری نگر جا رہے تھے کہ راستے میں جنگل سے گزرتے ہوئے موصوف نے دیکھا وہاں ایک گجر بکروال قبیلے کی لڑکی تھوڑے بہت زیور پہنے بکریاں چرا رہی تھی موصوف نے لڑکی کو کہا کہ اگر اس ویران جگہ سے تمہارے کوئی زیور ہی چھین کر لے جائے تو مہاراجہ کے لیے مسلہ بنے گا اور ایک نیا طوفان کھڑا ہونے کا اندیشہ ہو گا۔لڑکی نے کہا کہ بھلا مہاراجہ کی موجودگی میں کیسے ممکن ہے۔موصوف جب اجلاس میں پہنچے اور اپنے خطاب میں مہاراجہ تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے سارے کا سارا واقعہ سنایا اور مہاراجہ کے انصاف او ر دبدبے کی خوب داد دی،جس پر مہاراجہ نے لب کشائی نہ کی۔تقریبا آ دھے گھنٹے بعد مہاراجہ نے موصوف کو اسمبلی کابینہ سے برطرف کرنے کا نوٹفیکیشن جاری کرتے ہوے کہا کہ ایک غیر نامحرم مرد کی اتنی جرت کیسے ہوئی کہ وہ میری ریاست کی بیٹی کے ساتھ اس طرح بات کرے۔قارئین! اس بیس کیمپ کے دارلحکومت کے ایک ہوٹل میں ممبران اسمبلی نے ایک طالبہ کو نوکری کا جھانسہ دے کر کس طرح عصمت کے پرخچے اڑائے تھے کیا وہ اس ریاست کی بیٹی نہ تھی؟کیا اس خطہ میں حواء کی بیٹیوں کے نگہبان موجود ہیں؟کیااقتدار کی اس مچھلی منڈی میں بیٹھے نمائندوں کو عوام جانتی نہیں ہے؟؟؟
مہاراجہ کے ہاں ڈاکٹر کرن سنگھ خاصی دیر بعد بڑی نیازوں چڑھاوں اور پجاریوں کی ریاضت دعاوں کے بعد پیدا ہوئے ایک گورو جس کی مہارانی عقیدت مند بن گئی مہاتما گاندھی نے اس کے ذریعے مہاراجہ کو بھارت سے الحق پر مجبور کر نے کے لیے کوشش کی جس پر مہارانی نے مہاراجہ کو کہا لیکن ہری سنگھ نہیں مانا۔اس واقعہ سے اندازہ لگای جا سکتا ہے بھارت کس حد تک کوشاں رہا۔
قارئین! ریاست جموں کشمیر ایک پرنسلی سٹیٹ تھی جو براہ راست برطانیہ کے دائرہ کار میں نہ آتی تھی۔جس معاملات پر مہاراجہ اور انگریز کا معائدہ تھا۔ریاست جموں کشمیر کا پاکستان یا بھارت یا دو قومی نظریہ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی اس معاملہ میں اس ریاست پر کوئی پابندی عائد تھی۔اور نہ ہی مسلہ جموں کشمیر کو برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا کہا جاسکتا ہے یا قرار دیا جا سکتا ہے۔اگر دو قومی نظریہ کے ساتھ اس ریاست کا کوئی تعلق تھا تو یہ ریاست بہتر دن تقسیم کے بعد آزاد کیوں رہی؟پاکستان نے معائدہ جاریہ کیوں کیا؟محمد علی جناح کو بے خبر رکھتے ہوئے لیاقت علی خان کی ہدایت پر خورشید انور کی قیادت میں 22 اکتوبر کو جبری طور پر قبائلی کیوں داخل کیے گے؟قارئین!ریاست جموں کشمیر کو مہاراجہ خود مختار اور آزاد رکھنا چاہتا تھا۔وہ اس کا وارث و عنان حکمران تھا انہی کے ڈوگرہ گلاب نے 16مارچ کو 1846کو معائدہ امرتسر سے ریاست کی جدید معائدہ کی بنیاد رکھی تھی جو اس وقت اقوام متحدہ میں متنازعہ حثیت کے ساتھ موجود ہے۔مہاراجہ کی محب الوطنی،وطن ریاست کے لیے خدمات کوششوں اور جدوجہد کو شک کی نظر سے دیکھنا تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف یہاں کے عوام کی اگر جدوجہد بنتی بھی تھی تو وہ شخصی راج کے خلاف تھی انھیں مہاراجہ کے ساتھ تعاون کر کے جس طرح پہلے کرتے چلے آ رہے تھے مہاراجہ کو آئینی سربراہ بنا کر اختیارت و حکمرانی خود رکھ لینی چاہیے تھے لیکن ریاست و گھر کے معاملات کو دوسروں کی نذر کر کے بیرونی آقا در آمد کر کے،سہولت کاری کا کردار نبھا کر ریاست توڑنے والے یہی ہیں جہنوں نے مذہب کے نام پر،جہاد کے نام پر فساد کیا انتشار پھیلایا اور اقتدار کو منزل بنایا۔ریاست کی تقسیم کا ذمہ داریا بھارت کے ساتھ الحق بارے مہاراجہ کو ذمہدار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔اگر عوام کی مہاراجہ کے شخصی راج کے خلاف جدوجہد تھی تو پھر پاکستان کو مذہب کے نام پر یا بھارت کو دوسری ریاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی اور نہ ہی ان کی مداخلت بنتی تھی۔یہ بات درست ہے کہ مہاراجہ کے دور میں ٹیکس ہی ٹیکس تھے ہوا کے سوا ہر چیز پر ٹیکس لگائے گے تھے۔ شاید استحصال بھی ہوا ہو گا،ناانصافی بھی ہو گئی؟لیکن موجودہ اس عذاب خطہ میں یا پاکستان میں ٹیکسوں کی بھرمار نہیں؟عوام کی جیبوں پر ڈاکے نہیں ڈالے جاتے،دن دہاڑے عوام کا قتل نہیں کیا جاتا،زبانوں پر تالے نہیں؟آزادی اظہار رائے نہیں؟سیاسی معاشی اور انسانی حقوق کی دھجیاں نہیں اڑائی جاتی؟لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ ریاستیں کیوں نہیں ٹوٹتیں،حکومتیں بدلتی؟ہندو مسلمان،ظالم مظلوم،ٹیکس کا شور کیوں نہیں کیا جاتا؟بغاوتیں کیوں نہیں کی جاتیں؟بیرونی مداخلت کا سہار کیوں نہیں لیا جاتا؟یہاں انصاف قانون،مساوت خوشحالی،رواداری و دیگر امور حقوق سے محروم عوام کی جو حالت زار ہے اس سے اچھااور بہتر مہاراجہ کا دور تھا جس میں انصاف تھا مساوات تھی تحفظ تھا تشخص تھا،آزادی تھی،وحدت تھی۔لیکن موجودہ ریاستیں جو فلاحی و جدید ریاستوں کے عہد میں داخل ہواپنے دعووں میں ناکام ہو چکیں۔اس ریاست کے بٹوارے اس کے تشخص کے سودے میں جس نے جتنا کردار ادا کیا اس کو تاریخ یوں ہی سامنے لاتی رہے گی۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *