مفادات کے پُجاری اور قومی آزادی ، تحرير: ہاشم قريشی
وٹ : “میرا یہ مضمون بہت سارے “لوگوں ” کی طبعیت پر شاید
گراں گزرے مگر جو حقیقی معنوں میں سچے قوم پرست ہونگے وہ انتہائی حلوص کے ساتھ اس مضمون میں اٹھائے گئے نکات پر غور کرینگے یا پھر مفادات کے پجاری گالیاں دینگے؟”
قوم پرستوں کی نٰعرہ باذی کی حقیقت؟
کشمیر کی دھرتی کے سچے قوم پرستوں سے چندسوال ؟
آج کل پاکستان اور گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر کو اکھٹاکرکے صوبہ بنانےکی بات چل رہی ہے اس پر چند قوم پرستوں نے پنجابئ فلموں کے ہیرو کئطرح بھڑکيں مارنئ شروع کئ ہیں۔یہ جانتے ہویے کہ اگر پاکستان نے یہ کام کرناھوگا تو دنیا کئ کوئئ طاقت اُنکو روک نہیں سکتے؟
۱۔سوال یہ ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں نے گلگت بلتستان اور آذادکشمیرکوالگ کیا اور ہمارے درمیان نفرت پیدا کی اور ہمیں ایک دوسرے سے الگ کیااورہمارئ آذادئ کئ جدوجہد کو کھبی منظم نہ ھونے دیا۔تو ہم پاکستان کاکیابگاڈ سکے؟۔ آذادکشمیر کی ہائی کورٹ نے ۔1984میں ‘گلگت بلتستان اورآذادکشمیرکو ملانےاور ایک انتظامی اور ایک اسمبلئ اور ایک ہائی کورٹ کےتحت لانےکا فصلہ دیاکیابنا؟ حکومت نےآذادکشمیر کئ سپریم کورٹ میں اپیل دایرکرکے یہ فصلہ روک دیا گیا۔
۳۔اس وقت بھئ دونوں علاقے عملئ طور پر پاکستان کے ماتحت ہیں بلکہ پاکستان کے صوبوں سے کم ہی اختیارات ان کے پاس ہیں۔بلکہ یہ کہا جائے کہ ان دونوںعلاقوں کے خکمرانوں کو ‘باندیوں کئ طرح استمال کیا جاتا ہیں تو غلط نہ ھوگا؟
۴۔ یہ حقیقت سبکو ماننئ ھوگی کہ آذادکشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کےدرمیان صدیوں کےرشتے پاکستان نے 1948 سےہئ توڈ کے رکھے ہیں اور عملئ طورپر ہندوستان اور پاکستان کے جموں کشمیر پر قبضے نےہمارئ ریاست کو تین حصوں میں اور چین کے قبضےکے بعدچار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہیں
۵۔ ہم بےشک آسمان پھاڑنےوالے خودمختارئ کے نعرے لگا دیں ہمارے نعروں سےنہ تو ریاست آذاد وخودمختارھوئئ اور نہ ہی اگلے 500۔سالوں میں بھی ھوگی؟جب تک ہمارئ ریاست اکھٹی نہیں ھوتی اور ہم ریاست کے لوگ آپسمیں مل نہیںجاتےاور ایک دوسرے کوسمجھ نہیں جاتےاور پورئ ریاست کے بارے میں آپسمیںطےنہیں کرتے کہ تمام خطوں کے تعلقات کس طرح ھونگے۔یعنئ ریاست میں تمام خطوں،برادریوں،تمام قومیتوں،او ر تمام مذہبوں کو برابر کے تمام خقوق کسطرح تقسیم ھونگے؟ریاست کا نظام کونسا ھوگا؟یہ تمام مسایل ہم تب ہئ طےکرسکتے ہیں جب ہم بغیر کسئ پابندئ کے ایک دوسرے سے نہ صرف مل سکتے ہیںبلکہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ھونگے؟
۶۔ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ھوگئ کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کوکھبئ کشمیرکی جدوجہد سے کوئئ تعلق نہیں رہا۔ لےدے کر ایک آدمئ اِستور سے امان اللہ خان وہاں سے آیا مگر وہ بھئ گلگت بلتستان کئ آذادئ کے بجاے وادئ کئآذادئ کئ ہئ بات کرنے لگا؟انھوں نے بھول کر بھی کبھی گلگت بلتستان یاآذاد کشمیر کے لوگوں کے خقوق اور آذادی کی بات نہیں کی؟میں نے 1983۔میں گلگت سے کرنل حسن خان کے بیٹے مرحوم اقتدار حسن کو لبریشن فرنٹ میں لایا اور نایب صدر بنوادیا مگر میرے 1986۔ میں پاکستان سے نکلنے کے ساتھ ہی پہلے اُس کئ لبریشن فر نٹ سے چھٹئ کئ گی۔
۷۔اگر ریاست کے دو حصے آذادکشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے خکمرانوںکے ذریعے ہی ایک ھوجاتے ہیں تو اس میں ریاست کا کیا نقصان ھوتا ہیں؟؟بلکہ جس کا مطالبہ ہم قوم پرست 1948۔سے کررہے ہیں وہ تو اب پورا ہورہا ہیںہمیں تو welcome کرنا چاہے؟ کم ازکم ریاست کے دو حصے ایک تو ہو؟
ارسطو نے کہا تھا دلیل مجھے جہاں لے جائے گئ میں وہاں جاونگا میں نےسات Points کے تحت سنجیدا بحث کےلئے گلگت بلتستان کا مسلہ اُٹھایاتھالیکن مجھے بار بار یہ تجربہ ھورہا ہیں کہ ہم ریاست کے لوگ کسئ اُٹھائےگیے مسلے پر بحث کرنے کے بجا ئے یا تو الزام لگانےلگتے ہیں یا پھر “پاگل”نشنلسٹ بن کرجذبات میں مسلوں کو ہئ بہہ دیتے ہیں اور وطن کی بھلائئ کےلیےاُٹھایا گیامسلہ دم توڈ دیتا ہیں۔یعنئ ہم شترمرغ کی طرح سچائی سےمنہ موڈکر سچائی کو “ریت” یعنی جذبات اور غصے میں چھپادیتے ہیں؟
میرے لکھنے کا لب لباب یہ کہ: ۱
۱۔ہم ریاست کے لوگ چارحصوںمیں عملئ،انتظامئ اور قبضے کے حوالے سے تین ملکوں میں تقسم ہوچکے ہیں۔
۲۔ چین والے حضے سے باقئ تین حصوں کی انتظامئ یا عوامئ رابطے بلکل نہیں ہیں۔
۳۔ گلگت بلتستان اور آذادکشمیر ایک ہی قابض کے پاس ہونے کے باوجود دوحصوں میں اس طرح تقسیم کیاگیا ہیں کہ ہمارے عوام کے تمام رابطےیعنئ سڑک اور ھوائی راستےقایم ہئ نہیں ھونے دئے گئے۔نیلم بٹہ کنڈئ کا راستہ( اس راستے سے شیہد بٹ صاحب کےساتھ بالاکوٹ،بٹہ کنڈئ اور نیلم کے راستےمجھےکراس کرانے کئ کوشش کرائئ گئئ تھئ اور ساتھ ساتھ ٹرنیگ بھئ لیتا رہا۔)گلگت جانے کےلیےنزدیک ترین راستہ ہیں مگراس رابطے کی سڑک کو بند کرکے جراولپنڈئ،مرئ،کوہالہ،مطفرآباد،نیلم سے ھوتے ھوےببٹہ کنڈئ سے گزرکرگلگت جاتی ہیں۔یاد رہےپیدل اور گھوڈے کے ذریعے اس ہی راستے سے آج بھئ سفر ھوتاہیں۔ بھکروال آج بھئ اسئ راستے سے گلگت جاتے ہیں۔یہ صدیوں پرانہ راستہ ہیں۔ لیکن پاکستان نے ہم کو کالونی بناکر ایک دوسرے سے الگ رکھااور ایبٹآباد کے راستے چین کے ساتھ ملکر اس قدرمہنگئ اورمشکل سڑک بنادئ یعنئ شاہراریشم بناکر مرئ،کوہالہ،مظفرآباد،نیلم،بٹہ کنڈئ اور اس سارے علاقے کو ترقئ دینےکے بجاے اپنے علاقوں کو ترقئ دئ گئ ؟ہمارے چونکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے ساتھ رابطے ہی نہیں تھے۔
یہ سڑ ک بننے سے پہلےروالپنڈئ سے مہینے میں چندفوکر جہاز جاتے تھے۔مجھے یاد ہیںکہ 1970۔میں فیملئ سےملنےگلگت جانےکئ خوایش کی تومیں نے تحفے کے طورپر کیالےجانے کی بات کئ تومجھے کہا گیا تم اپنےساتھ نمک ہاں نمک لیے جانےکاکہاگیا کونکہ زمینئ راستےنہ ھونے کئ وجہ سے چیزیں مہنگئ تھئ۔ 1947۔سےپہلے گلگت کا بانڈئ پورا سے اوربلتستان کا کرگل اور لداخ کے ساتھ زمینی
راستے اور رشتے تھے۔وہ بھئ لداخ اور کرگل پر ہندوستان کے قبضے کے بعد ختم کردئے گئے۔
دوستو! ہم لوگوں کو قوم پرست کہلاتے ھوئے انتہائئ ایماندارئ اور انصاف کے ساتھ اپنے وطن میں تمام قومیتوں اور علاقوں کےبارے میں یکساں سلوک روا رکھنے کے عمل کو اپناناچائے۔ گلگت اور بلتستان کے لوگ پہلے ہیآذادکشمیراور اسطرف ہندوستانئ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں سے نفرت کراچئمعاہدےاوراِن لوگوں پر ھونے والے F C R کے تحت ظلم پر ہمارئ طرف سے آوازنہ اُٹھانے پرکررہے ہیں۔25-30 سالوں تک انگریزوں کی ہی طرح اسلام آباد سے ریذڈنٹ صاحب بہادر جاکر ان لوگوں پر راج کرتاتھا۔اسمبلئ،پولیس کا ہیڈ،عدالت،جج اور سپریم کورٹ بھئ ہیی ھوتاتھا میرے ساتھ ہرئ پور جیل میںکچھ لوگ گلگت کے قیدئ تھے ان پر D C کے آفس میں فساد کے دوران کلرک کومارنےکا الزام تھا اور ریذڈنٹ نے ان میں سے چند کو سزائے موت دئ تھئ اورچند کو عمرقید کی۔ ستم ظریفی دیکھیں یہ لوگ ایک ایک کرکےپاکستان کےچاروں صوبوں کی ہائئ کورٹوں میں اور آذادکشمیر کئ ہائئ کورٹ میں اپنے لیےانصا مانگنے نکلے۔لیکن اِن کو تمام کورٹوں نے اِن سبوں کئ اپیلیں یہ کہہ کرمسترد کرلئ یہ 1978/79 کی بات ہے کہ:
’گلگت بلتستان اِن ہائئکورٹوں کے دایرے مین نہیں آتا۔اس لئے ہم اس کیس کونہیں لے سکتے۔یہی فیصلہ آذاد کشمیر کئ ہاکورٹ نے بھی دیا تھا ” گلگت بلتستان آذاد کشمیر کا حصہ نہیں ہے”؟یہ غریب اور لاچار لوگ اپنئ زمینیںاور اپناسب کچھ فروخت کرکے پھر پاکستان کی سب سےبڑی عدالت سپریم کورٹ میںگئے۔مگر افسوس سپریم کورٹ نے بھئ اُن کئ اپیل مسترد کردئ کہ ًگلگت بلتستان سپریم کورٹ کے دایرےمیں نہیں آتا ہیں ً۔
سچے قوم پرستو! دومنٹ کے لیے اُن لوگوں کی جگہ اپنے آپ کو رکھو کہ آپ کی حالت کیا ہوتی؟ جبکہ آپ اپنی جان بچانے کےلیے اپنا سب کچھ فروخت بھئ کرچکے ھوں؟ وہ اکثر شکو ہ کرتےتھے کہ ” ً تم باقی جموں کشمیر کے لوگوں نےہمیں جانوروں کے حوالے کیا ان سے انگریز بہتر تھے کم از کم انصاف تو کرتے تھے ً ؟ لوگ کہتے ہے کہ ً سردار ابراہیم اور چوہدری عباس نے کراچی معاہدے کے تحت ‘ ہمیں اپنے مفادات کے لئے فروخت کیا ً؟
رہی بات وادئ والوں کی تو ٓاُن کےلیے کشمیر کا مطلب صرف وادئ ہی ہیں۔؟پاکستان کے حکمرانوں کا ظلم ستم ٓاُن کے نزریک پھولوں کی بارش کہلاتی ہیں ۔جاتے جاتے کسئ شاعرکا شعر لکھ رہا ھوں کیونکہ مجھے معلوم ہیں کہ دلیل کی وجہ سے زہر کا پیالہ اور سچ کی وجہ سے سنگسار بھی ھونا پڑتا ہیںاور پھر اُس وقت جب شہر کی حالت بقولہ شاعر کے یہ ھو۔
؎ میرا بسیرا اُس شہرِعداوت میںہیں جہاں۔۔لوگ سجدوں میں بھی لوگوںکا بُرا سوچتے ہیں
کیا ہم اِن حالات میں اسکوقومی آذادی کہہ سکتے ہیں؟
۱۔گلگت بلتستان کے لوگو ں کو بہت ظلم جبر اور انتہائئ جہالت کے دور سےگزرنے کے بعد موجودہ نظام میسر آیا ہیں اور وہاںکے عوام نے بہت قربانیوں کےبعد تھوڈا سکھ کا سانس لیا ہیں۔اب سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ان کی صوبیہ بننے کی آس بھی ٹوٹ گئی ہے اور وہ اب ریاست جموں کشمیر کے متناذیہ حثیت کے ساتھ جڑ گئے ہے؟
میں اپنے قوم پرست دوستوں،پارٹیوں،جزباتی نوجوانوں سے تینوں حصوں کےحالات، نظام بین الاقوامئ ردِعمل اور قومئ آذادئ کی جدوجہد کی پوزیشن کےبارے میں اصل اور سچےحالات بتاناچاہتا ہوں مجھے معلوم ہیں کہ تلخ حقایق کھبی کھبی انسانوں کو مایوس کردیتے ہیں اور ان حالات میں سچائئ کا رستہدکھانے والے کو ہئ بہت سے الزامات کا شکار ھونا ھوتا ہیں۔مگر مجھے نہ توکھبی انِ الزامات کی پروا ہوئی ہیں اور نہ کھبِی ھوگی۔ کیونکہ میں نےپچھلئ صدی کے سب سے بڑے قطب اور ریاست کے سب سے بڑے مخلص،ایماندار،محبِ وطن اور غریب مگر اپنی اولاد کےبارے میں پروا نہ کرنے والا،مگر پورئ قوم کے لیے جان تک قربان کرنے والے شہید مقبول بٹ کے بارے میں بڑے بھی غلیظ الزامات سنے ہیں۔اُ ن کو ‘ًہندوستانئ ایجنٹ ،کافر،اور کیمونسٹ ‘تک کہاگیا۔حالانکہ اُن کی اولاد کس طرح زندگئ گزارتی رہئ یہ وہ یا میں اور چند قریبی لوگ ہئ جانتے ہیں؟ اُن جیسی پاکیزہ روح کو نہیں بخشا گیا تو ہم جیسے صاف گو اور منہ پھٹ کو کیوں بخشا جاےگا؟
یہ سارا مفادات کا کھیل ہیں۔سردار قیوم اور سردارعتیق بٹ صاحب کے بارے میں بے شمار بکواس کرتےتھےپھر کیا ھوا؟بٹ صاحب نے جدوجہد تو نہیں چھوڈئ؟ میرے رقیبوں،میرےدشمنوںاور ذاتئ مفادات اور بہت ہئ معمولئ اور پیٹئ مفادات اور ذاتئ شہرت کےبھکاریوں کو یہ بات یاد رکھنئ ھوگئ کہ میں اُن ہئ عطیم انسان کا شاگرد ھوں اور جس طرح خو ن رگوں میں دوڈتا ہیں اُسئ طرح میرئرگوں میں اپنے وطن اور اپنے لوگوں سےدرد، محبت اور عشق کاجذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہیں۔ رہئ بات دکھوں کی وفا وجفا کی تو میں یہ سارئ منزلیں طے کرچکا ھوں؎ بقول اقبال
؎ جفاجوعشق میں ھوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ھوتو محبت میں مزہ ہئ نہیں
۱۔ زمینئ حالات اور اپنےعوام کی نفسیات کا جب تک ہم انتہائئ ایماندارئ اوسچائئ سے تجزیہ نہ کریں تب تک ہم قوم پرست اپنئ آذادئ اور خودمختارئ کی جدوجہد کا تعین ہئ نہیں کرسکتے؟
۱۔ ایماندارئ کا تقاضہ تو یہ ہیں کہ …..
۲۔ہندوستانی مقبوضہ کشمیر۔۔یہاں پر لوگ کچھ لوگ نظام اور ہندوستانی قبضےسے نالاں ہیں۔مگر یہاں کے لوگ الیکشنوں میں 50/60% تک ووٹ ڈالنےباہرآتے ہیں۔
۲۔ تحریک کہہ دو یاکچھ اور نام دو جو بھی ہیں یہ سب وادئ کشمیر تک محدودہیں
۳۔جموں، لداخ،کرگل وغیرہ علاقے کے لوگ اس میں شامل نہیں ہیں
۴۔صوبہ جموں میں جو مسلمان یعنئ پونچھ ، راجورئ، ڈوڈہ، بھد روا ا،کشتواڈ جیسےعلاقوں میں کسئ بھی حریت میں شامل نہیں ہیں؟
۵۔ہم قوم پرست آج تک اِس طرف کےاپنے ہندو،سِکھ،اور بودھہ لوگوں کو اپنی قومئ آذادئ کے لئے قایل ہئ نہ کرسکے۔اس لئے لداخ والے ہندوستان کے بجاےہم وادئ والوں کو غاضب سمجھ لئتے ہیں اور لداخ وکرگل ہل کونسل کے نام سےالگ اِدارہ مانگ کر حکومت کررہے ہیں۔
۶۔ جموں والے الگ صوبہ مانگ رہے ہیں اور یہ تحریک دہلی اور ایجینسیوںکاساتھ دینے اور انتہا پسند وں کی وجہ سے زور پکڑتی ہیں بہرحال ریاست کی کوئی اقلیت INDEPENDENT KASHMIR کے نہ تو قایل ہیں اور نہ ہئ واقف؟۔وہ سب
انڈیا کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں۔یاد رہے وادئ کشمیر کا کل رقبہ صرف 8600مربع میل ہیں اور اس کے آبادئ 8500000۔پچاسئ لاکھ سے زیادہ ہیں سب سے زیادہ علاقہ لداخ اور جموں اور گلگت کا ہیں۔
۷۔ وادئ کی حالت یہ ہیں کہ یہاں پر حریت کے جو دو دھڑے تھے اُن کا ایک اور دھڑا بن گیااور یہ سب بہتر وسایل سے لیس ہیں اِن کو پاکستان بھر پورمددکررہے ہیں ۔ یہ سب یعنئ گیلانئ اور میرواعظ دونوں گرپوں میں ۲۳۔تنظیموں کےایک ہی نام سے اصل میں گروپ موجود ہیں یعنئ مسلم لیگ کے دو گروپ ھوے ہیںاور ایک گیلانی اور ایک میرواعظ کے ساتھہ ہیں۔نیشنل پارٹئ[ نعیم خان]شبیرشاہ [فرئڈیم پارٹی] اعظم انقلابئ[محاذئ آزادئ] اور ایک ہیں یہ میرواعظ کئ حریت سےالگ ھوے ہیں اور ‘ اصلئ حریت کے نام سے گروپ کھڑا کرنے کا اعلان کردیا ہیں۔ مگر بعد میں گیلانی گروپ میں چلے گئے۔یہ سب الحاقِ پاکستان کے حامئ اور دعوا دار ہیں سواے اعظم انقلابی کے؟
۸۔ اب رہئ بات لبریشن فرنٹ اور ،لبریشن فرنٹ [R]، لبریشن فرنٹ H]یا ہمارئی ڈیموکریٹک لبریشن پارٹئ تو اِن میں سے ذیادہ Active لبریشن فرنٹ یسین گروپ ہیں۔ کیونکہ اُن کے پاس وسایل موجود ہیں اصل میں اُن کے اخراجات کےبارے میں
اُن کے ساتھوں میں ہئ کسی نے کہا کہ ً ہمیں بھئ پاکستان مدد کرتا ہیں مگرریگولر بیس پرنہیں ً۔ وہ اپنی سرگرمیاں کھبئ کھبار جلسوں،یا کسئ کئ برسئ پر سیمنار کرنااورمظاہرہ کرنا ،یا باقیوں کئ طرح بیانات تک محدود رکھتےہیں۔ اب ِیاسین گروپ کی لبریشن فرنٹ بھی حریت سے اتحاد کرکے تمام تنظیموںکو ایک طرف رکھ کر تین آدمیوں نے J.R.L بناکر قوم کو ہڑتالیں کراتے ہے اور بیانات دیتے ہے؟ ہم نے
لٹریچر چھاپنے پر زیادہ زور دیا۔ہم نے جلسےبھی کئے لیکن جلسوں پر چونکہ لاکھوں خرچ ھوتے ہیں اس لئے میرا ماننا ہیںکہ پمفلٹ اور کتاب جلسے سے زیادہ بہتر نتائج دیتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہیں کہ یہاں جو لوگ ایک دن کانگریس کےجلسےمیں شریک ھوتے ہیں تو وہ پی۔ ڈی۔پی، گیلانی،میرواعظ،نیشنل کانفرنس لبریشن فرنٹ اور دوسرے تمام جلسوں میں بھی شریک ھوتے ہیں؟
۹۔آزادکشمیر یا گلگت بلتستان میں وہاں کا برسر اقتدار طبقہ کتنا یا کو ئئ بھی ظلم وجبر یا انسانی حقوق کا ریپ کریں وادئ سے کوئئ بھئی تنظیم یا لیڈراس کی کوئئ مذمت نہیں کریں گے۔عارف شاہد کو جب شہید کیا گیا تو کسئ نےیہاں سے مذمت نہیں کی۔چاہیے وہ الحاق والے تھے یا خودمختار والے؟ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ سبوں کو پاکستان والے پیسے اور ہر قسم کا تعاون دیتے ہے؟
۱۰۔ کشمیر ہندوستان نے پوری طرح اپنا صوبہ بنایا ہیں۔ 370 دفعہ کا لفافہ تو موجود ہیں مگر اند رمضمون ہی نہیں ہے۔۔AFSA-PSA-Enemy Agent Ordnanceاور نہ جانےکتنے کالے پیلے قانون ہم پر لاگو ہیں۔دہلی والوں کے سب سےبڑےاتحادئ یہا ں کے حکمران ہیں۔شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار کے مقولے کےتحت یہاں کے حکمران انتظامیہ پولیس سب سے ذیادہ ظلم اور نا انصافی کرتےہیں۔
۱۱،فوج، سیکورٹی فورسز،اور لوکل پولیس اور کشمیر آرمڈ پولیس کی تعداد کم از کم 5/6 لاکھ سے کم نہیں ھوگی؟
۱۲۔ ہمارے ملازمین کی تعداد پانچ [5] لاکھ کے قریب ہیں اور اُن کی تنخوایں اور تمام اخراجات دہلی س مرکزئ حکومت ادا کرتی ہیں۔اور یہ ملازمین جونک کئ طرح ہر قسم کا استصال بھی کرتے ہیں۔انڈسٹری کے نام پرگالی ہی کشمیر اور کشمیرئ کو دئ گیی، یعنی مختصراَہم ہندوستان کی ایک کالونی کی حثیت سے زندگی بسر کررہے ہیں؟
میں ایک بار پھر سے استدعا کررہاہوں کہ یہ سنجیدا موضوع ہیں ڈاکٹروں کے مشورے کےباوجود کہ مکمل آرام کریں مجھ سے رہا نہیں جاتاقوم پرستوں کی حالت دیکھ کر جو حقایق جانے بغیرمنصوبے اور اتحاد کئے بغیر بس نعرہ بازی کو قومی آزادی کہہ رہے ہیں۔؟
نہ ہم میں اتحاد ہے ؟۔نہ ہم میں ڈسپلن ہے۔؟ نہ ہمارے پاس کوئی پالیسی ہے؟نہ ہم نعرہ باذی سے آگے سوچتے ہے کہ ہم کس ظرح اپنی ریاست کو تین ملکوںسے آذاد کراسکتے ہے؟ ہماری مدد کو کونسے ملک آسکتے ہے اور کیونکر وہآینگے؟ ہم اپنے عوام کو کس طرح سے اپنے ساتھ جوڈ سکتے ہے؟ ہم قوم پرست کسطرح متحد ہوکر ریاست کے تمام خظوں کو ان کی مرضی اور ان کے حقوق کا تحفظ کرکے کیسے اکھٹے ایک پلیٹ فارم پر لاسکتے ہے؟
۔ہاشم قریشی۔۔۔جموں کشمیر ڈیموکریٹک لبریشن پارٹی کے چیرمین ہيں
؎ ‘ ً خضورِ حق میں اسرافیٗل نےمیری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ د ے برپا ً
(يہ مضمون پرانی گيلری سے ليا گيا ہے، ادارہ)
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More