زندگی پیاری سہی ۔۔۔۔مگر؟؟ تحریر: ملک عبدالحکیم کشمیری
اٹھالیں گے ……دیکھ لیں گے ……نشان عبرت بنا دیں گے۔جوتوں کے سائز میں رہو ……
یہ کیسا مائنڈ سیٹ ہے؟؟؟
ٹھیک ہے،طاقت اور وسائل سے بھرپور طاقت ایک محدود مدت تک جو چاہے کر سکتی ہے۔میں نہتا ہوں۔میرے پاس واحد ہتھیار میرا قلم ہے۔اس سے قبل ہزاروں اٹھا لئے گئے اس فہرست میں اگر میں شامل ہو جاؤں گا تو کیا ہوگا۔مرنا آج بھی ہے اورکل بھی…… تو آج ہی سہی ……
لیکن یہ یاد رہے میں زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا۔
میرا مقدمہ،میرا نظریہ بالکل سیدھا اور صاف ہے۔میں انسانوں کی بات کرتا ہوں ان کے حقوق کی بات کرتا ہوں ان کے اختیارکی بات کرتا ہوں اور ان کی حقیقی آزادی کی بات کرتا ہوں ……
میں کبھی بھی عوامی پاکستان کا مخالف نہیں رہا۔میں نے کبھی عوامی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی۔ہاں میں اپنے حقوق کی بات کرتا ہوں اپنے لوگوں کی مکمل آزادی کا نظریہ رکھتا ہوں اور اپنے اس نظریے پر اس قدر کامل یقین رکھتا ہوں جس طرح ہر روز سورج نکلنے پر ہم سب کو یقین ہے۔
یہ خطہ جسے آزادکشمیر کہا جاتا ہے ایک کُھلی چراگاہ میں بدل چکا ہے جبر کا ماحول ہے ہر شخص ایک دائرے کا قیدی ہے اس سے باہر قدم رکھنا غداری ہے۔لوگوں کا حق حکمرانی برائے نام رہ گیا ہے۔عوامی مینڈیٹ کے برعکس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔اختیارات سے تجاوز روایت بن چکی ہے۔
اور اب ہماری خواتین کی ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ کر کے ہماری عزت نفس سے کھیلاجا رہا ہے۔کیا اس طرح کا کوئی بھی عمل قابل قبول ہو سکتا ہے؟
آزادکشمیر میں بددیانت اور کرپٹ سیاستدانوں کو اپنے مقاصد کیلئے اقتدار میں لانا اور کبھی فرمانبرداری سے انحراف پر نشان عبرت بنانا۔حکومتیں بنانا،گرانا،وزرائے اعظم بدلنا،من پسند معاہدے اور ترمیم کروانا،ان سب امور کا سلامتی سے کیا تعلق؟؟؟
یہ سوال اُٹھیں گے …………اور میں یہ سوال اٹھاتا رہوں گا۔
نظریاتی محاذ ایک الگ موضوع ہے لیکن ہم اپنا ”سماجی ماحول“تباہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتے۔وزیر اعظم فاروق حیدر ہو،کوئی اور سیاستدان یا کوئی طاقت ور محکمہ، سیاست سیاست،حکومت حکومت،اختیارات اختیارات ضرور کھیلیں،کرپشن کریں ……لوٹ مار کریں ……میرا جتنا قد کاٹھ ہے میں اس کے خلاف لکھوں گا بطور صحافی نشاندہی کروں گا۔لیکن جب بات ہماری دہلیز تک پہنچے گی تو پھر زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی……ایسا کوئی بھی فعل انفرادی ہے یا اجتماعی اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
رہی بات مجھے دھمکانے کی…. میں لڑائی کرنا ہی نہیں چاہتااور نہ ہی مجھے ایسی کسی مہم جوئی کا شوق ہے۔میں زیادہ سے زیادہ اپنے دوستوں سمیت کسی بینر کے نیچے احتجاج کا آپشن استعمال کرسکتا یا یورپ میں بیٹھے ہوئے میرے دوست سفارتخانوں کے باہر احتجاجی دھرنا دے سکتے ہیں۔ڈرانا دھمکانا یہ جن کا مینڈنٹ ہے وہ جانے اور ان کا کام۔فیصلہ وقت کرے گا؟میں ان تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے امریکا،یورپ،پاکستان،آزادکشمیر اور بالخصوص میرے صحافی دوستوں نے جس طرح مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا ……یورپ کے دوستوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو خط لکھے اور اس جبر کے خلاف ممکن حد تک ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
Related News
.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے
Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More
پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت
Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More