Main Menu

آئینی مغالطے اور انجام ریاست ، تحریر: شفقت راجہ

Spread the love


‏‎سال 1947 کا طوفانی و ہنگامہ خیز دور جس میں برصغیر کے دو بڑے مذاہب کے ماننے والے انسانوں کے درمیان دو قومی نظریہ (ہندو ، مسلم) کی بنیاد پر وہ تفریق پیدا ہو گئی تھی جو خود معبود بھی نہیں کرتا اور یوں 15 اگست 1947 کو قانون آزادی ہند کے اطلاق پر ایک طرف برصغیر کے برطانوی ہند کی تقسیم میں دو قومی (مذہبی) ممالک بھارت و پاکستان کا قیام ہوا تو دوسری طرف ہندوستانی شاہی ریاستیں کہیں الحاق اور کہیں خودمختاری کی الجھنوں میں الجھ کر رہ گئیں۔ ریاست جموں و کشمیر بھی برطانوی، بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کے مقابلے میں اپنی کمزور قوت کیساتھ اپنی سالمیت اور بقا کیلئے کوشاں تھی قانون کے مطابق تو ریاستوں کے مستقبل کے تعین کا اختیار ریاستی حکمرانوں کو حاصل تھا تاہم اس دوران ان نومولود ہمسایہ ممالک (بھارت و پاکستان) کی طرف سے جموں کشمیر سمیت کئی ریاستوں میں مذہبی، سیاسی اور عسکری مداخلت ہوئی۔ جموں کشمیر میں بھی اس دوطرفہ بیرونی مداخلت کیساتھ اندرونی سطح پر انہی دو ممالک کی حمائت یا مخالفت میں ہونے والے غدر یا تحریک آزادی اور الحاق کا انتشار پیدا ہو گیا۔ تقسیم ہند کے دوران ایک طرف مذہبی فسادات میں لاکھوں لوگ مارے گئے تو دوسری طرف لاکھوں لوگ اپنے پرکھوں کے آبائی علاقے، گھر جائیداد اور مال و املاک چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں نامعلوم منزل اور مستقبل کیلئے ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔ ریاست جموں کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کی نمائندہ سیاسی جماعتوں میں بھی ایک طرف بظاہرسیکولر نیشنل کانفرنس کا الحاق بھارت تو دوسری طرف مذہبی نظریہ کی حامل مسلم کانفرنس کا الحاق پاکستان کا نعرہ بلند ہوا البتہ دونوں کے متصادم خیالات میں کسی حد تک ایک قدر مشترک بھی تھی کہ ان کے مطابق قانون آزادی ہند کی روشنی میں معاہدہ امرتسرسمیت تمام معاہدات بھی ختم اور ڈوگرہ راج کا قانونی جواز بھی ختم ہوا ( جبکہ معاہدہ امرتسر صرف ڈوگرہ راج نہیں بلکہ جدید متحدہ ریاست جموں کشمیر ولداخ کی بھی بنیاد ہے یعنی وہ معاہدہ ختم تو ریاست بھی ختم)۔
ان دو طرفہ نعروں اور مغالطوں میں ہمارے ان ریاستی سیاسی اکابرین اور بیرونی قوتوں کے مستحکم مفاداتی امتزاج سے ریاست میں سیاسی و انتظامی عدم استحکام پیدا ہو گیا۔ اسی بیرونی سیاسی اور مسلح مداخلت اور اسکی اندرونی سہولتکاری کے نتیجے میں ریاستی حکومت کی انتظامی عملداری کمزور ہونے لگی تو ان شورش زدہ ریاست کے مسلم اکٹریتی سرحدی حصوں سے متصل صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی سے پہلے پہل تو 4 اکتوبر اور پھر ( 22 اکتوبر کی مسلح یلغارکے بعد) 24 اکتوبر کو ضلع راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر (آزاد) ریاست جموں کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ حکومت کے متوازی ایک عبوری حکومت کا اعلان ہوا جس کے پاکستان نواز مسلم کانفرنسی سربراہ (سردار ابراہیم خان) کا “نام صدر” رکھا گیا جس سے نظریہ الحاق پاکستان کیلئے انکی اپنی ریاست کے خلاف بغاوت پر انکی سیاسی خواہشات کی بھی تکمیل ہوگئی اور بعدازاں اپریل 1949 کے معاہدہ کراچی میں گلگت بلتستان پر مکمل اختیار بھی حکومت پاکستان کے سپرد ہو گیا، یہی معاہدہ کراچی پھر گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کے باشندگان ریاست کے درمیان غلط فہمیوں اور دوریوں کی بنیاد بن گیا۔ دوسری طرف سیاسی، انتظامی اور عسکری نوعیت کے ان انتہائی نامساعدہ اور مجبور حالات میں فوجی امداد کے حصول کیلئے بھارت کی ہٹ دھرمی پر ریاستی حکومت ( مہاراجہ ہری سنگھ) نے ریاست کا مشروط اور نامکمل الحاق بھارت کیساتھ کیا، بھارتی حکومت (پنڈت نہرو) ہی کی ضد پر بھارت نواز نیشنل کانفرنسی سیاسی رہنما(شیخ عبداللہ) کو ریاستی اقتدار میں شامل کئے جانے پر انکے خوابوں کو بھی تعبیر ملی اور انکی قسمت کا ستارہ پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ ریاستی حکومت میں ان کا نام پہلے “ ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر” (ناظم) اور پھر انکے بہت اصرار پر “وزیراعظم” رکھا گیا، تب کہیں جا کر وہ معاہدہ امرتسر توڑ دو،کشمیر چھوڑ دو جیسی ریاستی سالمیت کے خلاف سرگرمیوں سے کچھ باز آئے۔ انہی حالات میں دونوں ممالک (بھارت و پاکستان) حالت جنگ میں پہنچے اور ریاست انہی دونوں کے درمیان انکےملکیت کے دعووں کیساتھ تقسیم ہو گئی۔ پاک بھارت دو طرفہ مسلسل مذاکرات اور پھر باہمی سمجھوتے کے بعد یکم جنوری 1948 کو یہ تنازعہ جموں کشمیر اقوام متحدہ تک پہنچا اور معاہدہ الحاق اور دوطرفہ سمجھوتے کے مطابق رائے شماری سے مشروط قراردادوں پر اتفاق رائے تو ہوا لیکن ان قراردادوں پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

1952 میں بھارتی زیر انتظام (جموں کشمیر) کی ریاستی حکومت (شیخ عبداللہ) اور بھارتی حکومت (پنڈت نہرو) کے درمیان ہوئے معاہدہ دہلی میں الحاق میں شامل چند امور (دفاع، خارجہ، مواصلات) سے تجاوز کیا گیا اور دہلی حکومت کو کافی حد تک انتظامی اور آئینی اختیارات منتقل کرنے کے بدلے میں کھوکھلی خصوصی حیثیت کی خیرات لیکر ریاستی انتظام چلایا جاتا رہا اور آخرکار وہ انتظام بھی 5اگست 2019 کو انجام تک پہنچا جب بھارت کی موجودہ متعصب مرکزی حکومت (نریندرا مودی)نے 1954 کی مرکزی حکومت (پنڈت نہرو) کی طرف سے بخشی گئی خیرات (آرٹیکل 35A) کی اس خصوصی حیثیت اور باشندہ ریاست قانون کو ختم کرتے ہوئے جموں کشمیر پر آئینی اور انتظامی قبضہ مکمل کر لیا اور اسے ریاست سے ضلع بناتے ہوئے دو تحصیلوں میں تقسیم کر دیا ہے البتہ ردعمل میں وہی دہلی کے منظور نظر بھارت نواز ریاستی سیاستدان ہی بظاہر ناراض بھی ہیں، بھارت کے اس جبری قبضے کو بے نقاب تو ہونا تھا تو اس خصوصی حیثیت کے پردے میں اسکی قیمت اس قدر گراں کیوں رکھی گئی کہ جس میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے والے لاکھوں مظلوم لوگوں کو ابدی نیند سلایا گیا، غیرقانونی قید و بند میں رکھا گیا، عورتوں کی آبروریزی اور بچوں کو معذور بنایا گیا۔ اگرچہ بھارت کے اس حالیہ فیصلے نے انکے ملکی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں مگر ریاستی انتظام اور اختیار کی اصلیت بھی سامنے آ گئی ( یاد رہے 1962 کی جنگ سے بھارت سے چھینا گیا ایک بڑا ریاستی حصہ سیاچن تاحال چین کے کنٹرول میں ہے اور چین بھی اس ریاستی تنازعہ کا فریق بن چکا ہے)۔
پاکستانی زیرانتظام ہمارے پاس بھی بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے ابتدائی ماڈل کی طرح ایک مکمل ریاست کی مشاہبت رکھنے والا آزاد جموں و کشمیر موجود ہے، جس کے نظام کیلئے اتنی سی بات سمجھنے میں بھی ہمیں بہت دیر لگ گئی کہ غلطی ہماری ہے نہ ہی ہمارے سیاسی رہبران کی ہے کیونکہ 1947 میں اصل غلطی تو ایک طرف بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو تو دوسری طرف ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سے ہوئی تھی جنہوں نے دونوں طرف ( معاہدہ امرتسر میں سے برآمد ہونے والی) ریاست اور ریاستی حکومت کے خاتمے پر جانشین حکومتوں کے ایک جیسے ماڈل کھڑے کئے تھے جس کا ایک طرف معمار بھارتی وزیراعظم اور دوسرے حصے کا تخلیق کار ڈپٹی کمشنر راولپنڈی ہی تھے جنہوں نے اکتوبر 1947 کے انقلاب کے بعد ایک ضلع نما حصے کے ناظم کا نام چیف ایڈمنسٹریٹر پھر وزیراعظم (شیخ عبداللہ) اور دوسرے تحصیل نما حصے کے تحصیلدار یا تحصیل ناظم کا نام صدر (سردار ابراہیم خان) رکھا تھا۔ دہلی کی مرضی و منشا کے مطابق سرینگر میں بھی جب چاہے وزیراعظم نام کی کرسی پر چہرے بدلتے رہے اور راولپنڈی میں ہی آمریت اور جمہوریت کے تجربات میں ہمارے لئے اسمبلی اور وزیراعظم جیسے بظاہر کیمیائی نام بھی ایجاد ہوئے جن سے منسوب افراد آتے جاتے رہے البتہ لکیر کے دونوں طرف ہمارے رہبران کا وہ نائب تحصیلدارانہ رویہ کبھی نہیں بدلا اسلئے حکومت میں ایڈمنسٹریٹر، صدر اور وزیراعظم کے محض ناموں کے علاوہ جو کچھ اکتوبر 1947 کی لکیر سے پہلے انکے پاس تھا اب یہ اس سے بھی محروم ہو چکے تھے مگر اپنی ہی ریاست سے اپنی اپنی اس تحریک آزادی میں کارکردگی کے مطابق ملی ہوئی حیثیت سے مطمئن بھی ہو گئے۔
1947 سے اب تک کی سات دہائیوں کے تجربات سے یہ تو عیاں ہے کہ بھارتی اور پاکستانی زیر انتظام ریاستی حصوں جموں وکشمیر اور آزاد جموں و کشمیر (اور گلگت بلتستان) کی اسمبلیوں اور حکومتوں کے پاس انکے عوام، حقوق اور وسائل پر فیصلہ سازی کا مکمل اختیار کبھی بھی نہیں رہا ہے اور جنگ بندی لکیر کے دونوں جانب ہمارے اکثر “سیاہ ست دان” اور بظاہر “حکم ران” چھوٹے مفادات کیلئے قومی ذمہ داری، ایمانداری اور خودداری بھی بیچنے کو تیار رہے ہیں۔
ان تمام حالات کو دیکھتے اور جانتے ہوئےسوچنا تو یہ ہے کہ جب الحاق پسند یا عقیدہ پرست اور ترقی پسند یا قوم پرست سیاسی فرقوں کی عمومی فہم کے مطابق قانون آزادی ہند کے نفاذ اور 1947 کے انقلاب پر وہ غیرقانونی، غیرفطری اور غیرجمہوری متحدہ ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت (لداخ) ہی تقسیم اور ختم ہو گئی تو ہمیں اسی کے نام سے ان ریاست نما انتظامی ڈھانچوں کی ضرورت ہی کیونکر تھی یا ابھی تک ہے ؟
اب سوال تو یہ بنتا ہے کہ جس طرح 1947 کے بھارتی وزیراعظم کے ہاتھوں سے بنے ریت کے گھروندے اس ضلع نما ریاستی ڈھانچے کو موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ٹھوکر سے اڑا دیا ہے اور دھول تک نہ اڑی تو بالکل اسی طرح 1947 کے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی کچی مٹی سےتعمیر کردہ تحصیل نما آزاد ریاست جموں و کشمیر کی عمارت کو اگر موجودہ کمشنر راولپنڈی اپنی تحویل میں واپس لے لیں تو یہاں کونسی قیامت متوقع ہے ؟ ہم منتشر خیال ریاستی عوام تو اس ریاست ہی سے بیگانہ ہو چکے اور ریاستی تقسیم کے بعد ہمارے نام نہاد حکمران یا ناظمین تو ویسے بھی آج تک کسی (مرکزی) کمشنر کی ہدائت کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ لوگوں نے اکثر یہ توسنا ہوگا کہ جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرتا ہے مگر یہ کسی نے کبھی سنا اور نہ دیکھا ہو گا کہ ہمارے ریاستی رہببران و ناظمین یہ (آئینی و انتظامی) گڑھے کھودتے ہی خود ان میں گرنے کیلئے ہیں، ایسے اطاعت گزار اور فرمانبردار ناظمین تو پرانے نوآبادتی نظام میں بھی نایاب تھے جو اپنی قوم اور تمام قومی وسائل (انسان، جنگل، زمین و دریا) کو بھی دوسروں کیلئے قربان کر دینے کا اس قدر انمول جذبہ ایثار رکھتے ہوں۔
ریاست جموں کشمیر کے ہم بکھرے ہوئے انسانی ریوڑ اور ہمارے رہبران و ناظمین اگر اب تک کے اپنے رویوں سے قوم، قومی حقوق اور قومی آزادی جیسی اصطلاحات کے معنی اور شعور سے نا آشنا رہے ہیں تو پھر اپنی مٹی اور شناخت سے جڑی دنیا کی باقی قوموں کی طرح قومی آزادی کے ہم حقدار بھی نہیں ہیں۔

موجودہ حالات مجموعی رویوں میں تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کے عوام کو اپنی قومی شناخت (باشندہ ریاست) اور قانونی حیثیت کے ادراک کیلئے اپنی سرزمین یعنی ریاست سے رشتہ جوڑنا چاہئے۔ جس کیلئے انھیں خود کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ قانون آزادی ہند سمیت دنیا کے کسی بھی قانون نے تاحال انکی مضبوط ریاستی بنیادوں کو مسمار نہیں کیا بلکہ متنازعہ ہو جانے کے بعد ریاست کا قانونی وجود مزید مستحکم اور محفوظ ہوا ہے کیونکہ ریاستی تقسیم سے آج تک اسکے تمام خطے متنازعہ تو ہیں مگر کسی اور ملک کا آئینی اور قانونی حصہ ہرگز نہیں ہیں جن کی اس بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ خصوصی آئینی حیثیت کو یکطرفہ مہم جوئی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، چاہے وہ مہم جوئی بھارتی آئین میں کسی آرٹیکل کی شمولیت یا خاتمے پر ضلع یا یونین ٹیرٹری بنانے یا آزاد جموں و کشمیر کے ایکٹ میں ترمیم یا انتظامی اختیارات کے تبادلہ یا تحصیل کی حیثیت دینے کی صورت میں بھی کیوں نہ ہو ۔ ریاست کا نظام 1947 کی ریشہ دوانیوں میں جہاں سے معطل یا بے عمل ہوا تھا اسے واپس وہیں سے باعمل بنانے کیلئے ریاستی عوام کو مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔
ریاست کے کسی بھی متنازعہ حصے کے ادھورے بے اختیار سیاسی نظام میں عوامی نمائندگی کے حامل سیاستکاروں کو ذاتی مفادات کی محدود سوچ کی قید سے نکل کر ریاست اور ریاستی عوام کے مفادات کیلئے اپنے ضمیر کو جگانا چاہئے جبکہ درآمدہ نظریات کے تضادات میں الجھے بظاہر آزادی پسندی اور ترقی پسندی کے دعویداروں کو اپنے نظریاتی مسلکی دائروں سے نکل کر قومی ریاست کیلئے قومی شعور کو پروان چڑھانا چاہئے۔
جموں کشمیر کا تنازعہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں ہے کہ سلجھایا نہ جا سکے، بھارت اور پاکستان کے سیاسی، معاشی اور تزویراتی ماہرین کیلئے دہائیوں سے موجود کشمیرپالیسی پر نظرثانی درکار ہے۔ پاکستان، بھارت اور جموں کشمیر کو رہنا یہیں ایک دوسرے کیساتھ ہےتو یہ ضروری بھی نہیں کہ عداوت ہی شرط ہے بلکہ ایک ساتھ جینے کا بہتر سلیقہ بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ یوں تو ان دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کے زیرانتظام متنازعہ ریاستی خطے بااختیار انتظام کے متقاضی ہیں تاہم دوطرفہ ارباب اختیار اگر طاقت کا ارتکاز صرف مرکز یا وفاق تک رکھنا چاہتے ہیں تو پھر منقسم متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے سب خطوں میں مرکز کے جنبش ابرو پر انحصار کرنے والی بے بس و بےاختیار مقامی حکومتوں کے نمائشی ڈھانچوں کی بجائے سیدھے وفاق کے ہی کسی مخصوص کنٹرول میں رکھتے ہوئے اس غیر واضع مصنوعی صورتحال کو کیا اب ختم کر دینا چاہئے یا نہیں کیونکہ یہ ریاستی خطے تو پھر بھی جموں کشمیر تنازعہ کے تصفیہ تک متنازعہ ہی کہلائیں گے مگر اصل رویے تو عیاں ہونگے۔ دونوں ممالک کے فیصلہ ساز ادارے اگر موجودہ عہد کے تقاضوں سمجھتے ہوئے سنجیدگی سے اس تنازعہ کے پرامن اور دیرپا حل کی طرف پیش قدمی کریں گے تو یہی ان کیلئے اور اس پورے خطے کیلئے بہتر ثابت ہو سکتا ہے ورنہ دونوں ممالک کو جدید اور جوہری اسلحہ کے انبار سے اپنی ہی سلکائی ہوئی آگ میں کسی بھی وقت جلنے کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ دونوں ممالک کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ انکی سالمیت، بقا، امن اور خوشحالی کا راستہ ریاست جموں کشمیر کی بقا و سلامتی سے گزرتا ہے اور اس راستے سے بار بار بھٹک جانا سب کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔ ذرا سوچئے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *