Main Menu

احمد شاہ ابدالی کے مظالم ،تحقيق و تحرير محسن آرائيں

Spread the love


عمادالملک سے ابدالی نے زر و جواہر پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ اُس نے اپنے افلاس کا رونا رویا تو ابدالی نے اُسے اور اُس کے ملازموں کو ایذائیں دیں، پھر انتظام الدولہ طلب کیا گیا جو نواب قمرالدین خاں کا لڑکا تھا اور اس سے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا اُس نے بھی لیت و لعل کی تو اُسے ” چونبہائے قینچی“ سے ایذا دینے کی دھمکی دی گئی جو ابدالی کے فرش پر لگی ہوئی تھیں۔ تب اُس نے کہا کہ شولا پوری بیگم کو خزانے کا علم ہوگا۔ یہ بیگم ایک وزیر (انتظام الدولہ) کی ماں اور دوسرے (قمرالدین خاں) کی بیوی اور تیسرے وزیر (محمد امین خاں) کی بہو، اُسی وقت بلائی گئی اور اُسے دھمکایا گیا کہ ناخنوں میں کیلیں ٹھونکی جائیں گی ورنہ قمرالدین کے دفینے کا پتہ بتاٶ! شولا پوری بیگم نے نشان بتایا تو سو آدمیوں نے چھ گھنٹے لگاتار محنت کر کے قمرالدین خاں کا مکان کھود پھینکا اور 16 لاکھ روپے نقد نیز بےشمار سونے چاندی کے ظروف نکال لیے.( 4/فروری 1757ء)
لاکھوں بےگناہ عورتوں کی عصمتیں اور ہزاروں امیروں کی دولت و عزت لوٹنے کے بعد احمد شاہ نے جنوب کی طرف کوچ کیا۔ 3/مارچ 1757ء کو بلبھ گڑھ کا قلعہ فتح کیا، یہاں قتل و غارت کا وہ بازار گرم ہوا کہ سپاہی مقتولوں کے سروں کو نوٹوں کی طرح جمع کرتے اور صبح ہی اُن سروں کی گٹھریاں لے کر وزیر کے خیمے پر آ جاتے تھے جہاں انہیں ایک سر پر پانچ روپے انعام ملتے تھے اور شرفا کی بہو بیٹیوں کی ایسی بےتوقیری ہوئی کہ جن مغو یہ عورتوں سے ابدالی کے سپاہی زنا کرتے تھے، اُن کی فریاد و فغاں سے راتوں کو کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اُدھر ابدالی کے نجیب خاں اور جہاں خاں کو فوجیں دے کر متھرا فتح کرنے بھیج دیا۔ وہاں بھی بےشمار ہندوٶں اور مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا، سارے بازار لوٹ لیے گئے تمام مکان جلا دیئے اور ہفتوں تک سڑکوں پر لاشیں سڑتی رہیں، اتنا خون بہایا گیا تھا کہ جمنا کا پانی سُرخ ہوگیا تھا۔
21 /مارچ کو جہاں خاں نے آگرے پر قبضہ کر کے بیس ہزار سے زائد انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ قتل و غارت کی زیادتی کا معمولی سا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ فضا میں اِس قدر متعفن اور پانی خراب ہوگیا کہ ابدالی کی فوج میں ہیضہ پھیل گیا اور اوسطاً ڈیڑھ سو سپاہی روز مرنے لگے۔ مجبوراً 28/مارچ کو ابدالی نے پڑاٶ اُٹھا دیئے اور ہندوستان سے چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے احمد شاہ ابدالی نے اپنے بیٹے تیمور شاہ کی شادی عالمگیر ثانی کی 16 سالہ لڑکی سے رچائی تھی اب واپسی میں اُس نے محمد شاہ کی لڑکی حضرت بیگم سے زبردستی اپنا نکاح پڑھوا لیا۔ ( اپريل 1757ء) یہاں سے ابدالی کا قافلہ قندھار کی طرف چلا تو مال غنیمت 28 ہزار اونٹوں، ہاتھیوں، خچروں اور بیل گاڑیوں پر لدا ہوا تھا۔ ساری فوج پیدل چل رہی تھی کیوں کہ اُن کی سواریوں پر مال و اسباب تھا۔ دلی میں جانور عنقا کا حکم رکھتے تھے کیوں کہ ابدالی نے چلتے وقت دلی میں مریل گدھا بھی نہیں چھوڑا تھا۔
بحوالہ کتاب: میؔر کی آپ بیتی صفحہ نمبر 109.
( نوٹ : ‏آج اسی ڈاکو ابدالی کو پنجابی اسٹبلشمنٹ نے ہمارا ہیرو بنارکھاہے اور ایک میزائل کانام بھی ابدالی کے نام پر ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *