Main Menu

بلوچ راچی مچی* تحریر۔ الیاس کشمیری

Spread the love

بلوچ قومی تحریک حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے، بلوچ قومی تحریک میں اسلام آباد کے لانگ مارچ کے بعد کوئٹہ کے مقام پر جلسہ عام اور گوادر کے مقام پر راچی مچی میں لاکھوں لوگوں کی شرکت ریاست کے لیے کھلا اعلان ہے کہ اب بلوچ اپنے قومی، معاشی سیاسی و سماجی حقوق پر کسی صورت سمجھوتا نہیں کریں گے۔ قومی سوال پر سمجھوتا نہ کرنے کا فیصلہ تو گزشتہ کئی دھائیوں سے بلوچوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے، اور اس کی انھوں نے بہت بڑی قیمت چکائی ہے ، بلوچوں نے جبری گمشدگیوں سے لیکر مسخ شدہ لاشوں تک اور کارپٹ بمباری سے اجتماعی نسل کشی تک سب کچھ برداشت کیا ہے ۔ بلوچ قومی تحریک کا عہد با عہد جائزہ لیا جائے تو ہر عہد میں بلوچوں پر ریاست نے جو ظلم ، جبر اور سفاکیت کے پہاڑ گرائے اس غرض سے کے بلوچوں کو خوفزدہ کیا جائے، لیکن ہر عہد میں بلوچ ریاست کی اس جنونیت پر زیادہ منظم ہوئے زیادہ متحد ہوئے اور جنگی حالات میں اپنی قومی جدوجہد کو آگے بڑھاتے رہے، جن ریاستی مظالم کو بلوچوں نے سہا ہے کسی اور غلام قوم نے نہیں سہا کیونکہ یہ ایسا قابض ہے یہ ایسا دشمن ہے جس کے نہ کوئی جنگی اصول ہیں اور نہ کوئی دشمنی کے اصول ہیں ۔ بلوچوں نے جنگی حالات میں بھی جنگ کے بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کی ہے باوجود اس کے کہ دشمن سفاک ہونے کیساتھ ساتھ بے اصول تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ اپنی قومی تحریک کی خارجی سطح پر بین الاقوامی پہچان بنانے، قومی تحریک کی حمایت حاصل کرنے اور دنیا بھر میں اسے آرگنائز کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اس ریجن کی محکوم اقوام کو بلوچ قومی تحریک سے سیکھنے کا موقع ملا ہے اور اسی سمت ہر کہیں قومی تحریکیں منظم ہوتے نظر آ رہی ہیں ۔ اور بلوچ قومی تحریک نے ہر مرحلے پر قابض کی سفاکیت ، بزدلی اور شکست خوردہ حالتوں اور شکلوں کو پوری دنیا کے عوام اور محکوم اقوام کے سامنے بے

نقاب کیا ہے ۔
دنیا نے دیکھا کہ بلوچی راچی مچی کو ثبوتاژ کرنے کے لیے گوادر کے تمام راستے بند کیے گئے ، انٹر نیٹ سروس بند کی گئی ، میڈیا کی رسائی ہر مکمل پابندی لگائی گئی ، لوگوں پر سیدھے فائر کیے گئے ، ڈاکٹر مہارنگ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو قتل کرنے کی دھمکیاں اور حکم نامے جاری کیے گئے لیکن بلوچ عوام نے کسی بھی حربے اور جبر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں گوادر پہنچ کر ریاست کو اور دنیا کو اپنا پیغام دیا کہ ظلم جبر، سفاکیت ، دہشت و وہشت تلے بلوچ عوام اپنی نجات کے لیے اس قدر منظم ہیں کہ ان کی تحریک لاکھوں قربانیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے آخری اور حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جہاں سے آگے کے سارے راستے فتح اور قومی نجات کی طرف جاتے ہیں۔ مزید برآں بلوچوں کی قومی تحریک کو ریاستی جبر اور سفاکیت سے روکا نہیں جا سکتا چونکہ اب جبر و تشدد کے جتنے بھی بھیانک حربے ہیں بلوچ عوام دیکھ چکے ہیں۔ اور اب بلوچ عوام خوف کو ریاست کے اوپر طاری کر چکے ہیں۔ خوفزدہ اور شکست خوردہ ریاست بربریت کی انتہا کر کہ دیکھ چکی ہے اور اب خوف میں مبتلا ہو کر یہ نتیجہ اخذ کر چکی ہے کہ بلوچ قومی آزادی کے مسلہ پر ریاست کی شکست ایک تاریخی سچ ہے جس میں اب دیر کی مزید گنجائش اس لیے موجود نہیں ہے کیونکہ بلوچ قومی تحریک ریاستی تشدد کے مقابلے میں بہت زیادہ بلند، طاقتور اور منظم ہے ۔ جسے شکست دینا ممکن نہیں ہے ۔
اس آخری اور حتمی مرحلے کو آگے بڑھانے میں بلوچ خواتین کے صبر، ہمت حوصلے اور بلند کردار کو سلام پیش






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *