Main Menu

حق ملکیت کا سوال تحریر: الیاس کشمیری

Spread the love

پسماندہ سماجوں بالخصوص نوآبادیاتی سماجوں میں عوامی تحریکوں اور مزاحمت کی ابتدائی شکلوں میں فکری اور نظریاتی سمتعیں زیادہ واضح نہیں ہوتیں اس کی بنیادی وجہ تحریک اور مزاحمت میں منظم ہونے والے عوام کے بکھر جانے کا خوف ہوتا ہے چونکہ بالادست،قابض اور ان کی سہولت کار قوتیں عوام کو ابہام کا شکار کر کہ تقسیم کرنے کی کاوشوں میں لگی رہتی ہیں۔ ایسے میں یہ قوتیں لمبے عرصے سے اپنے ساتھ چلنے والے ان کارکنوں کو جو عوامی تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں نظریے، فکر اور نعروں کی بنیاد پر ابہام کا شکار کر کہ تحریک سے علیحدہ کرنے کی

حکمت عملی پر عمل پہرا ہوتے ہیں۔
ایسا ہی گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں عوامی تحریک کیساتھ بھی ہو رہا ہے جس کا سامنا اس وقت تک جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اس موقف کے تحت کیا ہے کہ یہ عوامی حقوق کی تحریک ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ برابری کی بنیاد پر شامل ہیں جو کہ آج کی تاریخ تک درست اور بہتر موقف رہا ہے ۔
چونکہ عوام عمل میں سیکھتے ہیں اور بہت تیزی سے سیکھتے ہیں اس عوامی تحریک میں بھی لوگوں کا شعور تیزی سے بلند ہوا ہے اور بلند ہوتا ہوا عوامی شعور یہ تقاضا کرتا ہے کہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے

موقف اور چارٹر آف ڈیمانڈ کو ایڈوانس کرئے،
جس طرح مختلف نظریات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں اور عوام نے عوامی حقوق کی جدوجہد میں اس وقت تک اجتماعی مزاحمتی کردار ادا کیا ہے اور حاصلات چھین کر لی ہیں, اسی طرح فرزند زمین ہونے کے ناطے تمام مکاتب فکر اور نظریات کے سیاسی کارکنوں اور عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حق ملکیت کے لیے لڑیں چونکہ ریاستی وسائل پر عوام کا حق اور اختیار ہونا چاہیے چونکہ وسائل پر اختیارات کیساتھ تعلیم، علاج اور روزگار کے سوالات

اور مسائل جڑئے ہوئے ہیں،
جب ملکیتی حقوق کو ہم زیر بحث لاتے ہیں تو ان میں سیاسی حقوق بھی شامل ہیں اور معاشی حقوق بھی شامل ہیں، سیاسی حقوق کا حصول تب ہی ممکن ہے جب ہمارے پاس آئین ساز اسمبلی ہو جب تک آہین ساز اسمبلی نہیں ہو گی سیاسی حقوق بازیاب نہیں ہو سکتے ،چونکہ موجودہ عوامی تحریک اور آج کی تاریخ تک کی صورتحال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عوام موجودہ حکمرانوں ان کی اسمبلی اور عوام دشمن نظام پر عدم اعتماد کر چکے ہیں، ایسے میں سیاسی حقوق کے حصول کے لیے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں آہین ساز اسمبلی کے قیام کو شامل کرنا چاہیے اس پر عوامی مہم چلانی چاہیے اور موجودہ حکمرانوں، عوامی کمیٹیوں، طلبہ کمیٹیوں، تاجران،وکلا اور خواتین کی نمائندگی پر مبنی آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لانا چاہیے تا کہ عوام کے سیاسی حقوق بازیاب ہو سکیں اور عوامی مفاد میں آئین تشکیل دیا جا سکے۔ اور اس کے لیے ہر طرح کے نظریات کے حامل سیاسی کارکن اور مزاحمتی ع

وام اپنا اجتماعی رول دیں گے کیونکہ عوام اب آگے بڑھنے کے لیے لڑنا چاہتے ہیں، قبضے کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں ۔
معاشی حقوق کو لیکر سب سے بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ ریاستی وسائل پر مظفرآباد کی اسمبلی اور اسلام آباد کے درمیان جو بھی معاہدات ہیں انھیں پبلک کیا جانا چاہیے تا کہ عوام کو یہ آگہی ہو کہ کون سے وسائل ہیں جن پر پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کی ملکیت تسلیم کی گئی ہے اور کون سے ایسے وسائل ہیں جن کو مالک بن کر لوٹا جا رہا ہے، تمام ڈیمز، ہائیڈریل پاور پراجیکٹس ، جنگلات، پتھر، معدنیات وغیرہ جتنے بھی ریاست وسائل ہیں ان پر معاہدات کو پبلک کیا جائے اور جن وسائل پر معاہدات نہیں ہوئے ہیں ان پر فوری معاہدات کیے جائیں جن میں عوامی انٹریسٹ کا تعین جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی عوام کی مشاورت سے کرئے گی مزیدبرآں اس سے قبل ہونے والے معاہدات میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو حصہ بناتے ہوئے نئے سرے سے معاہدات کیے جائیں۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی چارٹر آف ڈیمانڈ میں ریاستی وسائل پر عوامی حق ملکیت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ شامل کرئے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ نوآبادیاتی سماج میں ذیادہ لمبے عرصے تک عوام لڑائی کا حصہ تب ہی راہ سکتے ہیں جب عوام کے بلند ہوتے شعور کیساتھ آپ اپنے موقف اور مطالبات کو ذیادہ ایڈوانس شکل دیں گے، جب آپ قبضہ گیریت کو چیلنج کریں گے ، لوگوں کے مسائل کی بنیاد کو ٹھوکر ماریں گے، اور موجودہ وقت میں ارد گرد کے حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جہاں عوام نے داخلی طور پر تحریک میں سیکھا ہے وہیں پر بلوچ اور پختون موومنٹ سے بھی عوام نے قومی جبر استحصال اور قبضہ گیریت کے طور طریقوں سے سبق حاصل کیا ہے۔ محکوم اقوام کی جدوجہد کتنی صبر آزما اور لمبی ہوتی ہے کتنی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے لمہہ بہ لمہہ عوام آگہی اور شعور حاصل کر رہے ہیں ۔ اگر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی بدلتے حالات اور بلند ہوتے عوامی شعور کا گہرا تجزیہ کر کہ جدوجہد کے سفر میں موقف میں اور مطالبات میں جدت نہیں لائے گی تو حکمران طبقہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرئے گا اور عوام کو پھر سے ٹبر قبیلوں میں تقسیم کرنے کی کوششیں کرئے گا، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو متبادل سیاست اور متبادل موقف لیکر عوام میں مسلسل کمپین کرنا ہو گی یہی عوامی تحریک کے لیے ایندھن ہے ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *