Main Menu

اکتوبر 47 ، تاریخ اور موجودہ تحریک تحریر : اسدنواز

Spread the love

تاریخ کی کتابوں اور اس عمل میں شامل کرداروں کے بیان کردہ حقائق کے بعد تاریخ پر پڑی جھوٹ کی گرد اب مکمل طور پر چھٹ چکی ہے۔ اب سوال اٹھتے ہیں اور لوگ ان سوالوں کے صحیح جواب مانگتے ہیں ۔ رام لیلا کی کہانیوں کا وقت گزر چکا ہے ۔ جب آپ 4 یا 24 اکتوبر1947 کو بننے والی حکومت کی بات کرتے ہیں تو آپکو یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ اس سے پہلے 19 جولائی کو ایک قراداد بھی منظور کی گئی تھی جسکو قرارداد الحاق پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کو ایک سیاسی جماعت لیڈ کر رہی تھی جسکا نام آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تھا اور یہ مسلمانوں کی نمائیندگی کی دعویدار تھی نہ کہ ریاست جموں کشمیر کی قومی تحریک کی ۔آپ جب اسکو انقلابی حکومت کا نام دیتے ہیں تو پھر اس حکومت کو بنانے والی جماعت کو انقلابی پارٹی اور اسکی قیادت کو انقلابی قیادت بھی ماننا پڑے گا۔لیکن یہاں عجیب منطق ہے جو سمجھ سے باہر ہے کہ جماعت غدار تھی، فرقہ وارانہ تھی، قیادت کھٹپتلی اور بیرونی ایجنٹ تھے ، 22 اکتوبر ریاست پر حملہ تھا لیکن جو حکومت بنائی وہ انقلابی تھی۔
تاریخی حقائق سے یہ بات کھل کر واضع ہو چکی ہے کہ برطانوی فوج کی ہائی کمان ،نومولود پاکستان کے جرنیل اور مسلم لیگ نے لاہور میں یہ پلان تیار کیا اور اس خفیہ منصوبے کو ” آپریشن گلمرگ ” کا نام دیا گیا ۔ جسکے مطابق ریاست کو تقسیم کرنا، مغربی جموں پر قبضہ کرنا ، یہاں سے غیر مسلموں کو نکالنا اور یہاں ایک ڈمی حکومت بنا کر اسکا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا۔اسی منصوبے پر عمل کرتے ہوئے پہلے چار اکتوبر کو ایک جعلی اور فرضی ناموں پر مشتمل حکومت بنائی گئی اور پھر 22 اکتوبر کو باضابطہ حملہ کروانے کے بعد 24 اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر آفس راولپنڈی میں ہی اسکی تشکیل نو کی گئی۔اس حکومت کے پہلے صدر محمد ابراہیم خان صاحب نے اس حکومت کے قیام کے اغراض و مقاصد بڑی خوبصورتی اور تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ” اس میں قیام پاکستان ، دو قومی نظریے ،جہاد کا جذبہ ، محمد علی جناح کی قیادت اور علامہ اقبال کی شاعری کا کردار تھا۔
اس سارے عمل میں بنفس نفیس شامل پاکستانی فوج کے اس وقت کے ایک برگیڈئیر جنرل اکبر خان اپنی کتاب ” کشمیر کے حملہ آور اور پنڈی سازش کیس” میں پوری وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ریاست جموں کشمیر پر حملے کا منصوبہ لاہور میں تیار ہوا، کون کون لوگ اس میں شامل تھے، مری میں ہیڈ کوارٹر بنا کر لوگوں کو کس طرح ٹریننگ دی گئی، رائفلیں کہاں سے خریدی گئیں، حکومت کا ڈھانچہ راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر آفس میں کب اور کیسے تیار کیا گیا ۔ اسکے علاؤہ پاکستان کے ایک اور جرنیل ائیر مارشل اصغر خان سمیت مختلف صحافیوں اور لکھاریوں نے بھی اس پر اتنا کچھ لکھ اور بول دیا ہے کہ اب حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو ان کتابوں اور حوالوں سے بے خبر ہیں یا وہ لوگ جو جان بوجھ کر 76 سالوں سے پھیلائے جانے والے جھوٹے بیانیے کو کسی محبت ، نفرت ، بغض یا تعصب کی بنیاد پر پرموٹ کرنا چاہتے ہیں۔
اس نام نہاد خطہ آزاد کشمیر کے اندر قریب سبھی الحاق نوازاور دو قومی نظریہ کی حامل جماعتیں تو اسی بیانیے پر قائم ہیں اور انکا نظریہ بالکل واضع بھی ہے کہ یہ خطہ جہاد کے ذریعے آزاد کروا لیا گیا تھا اور باقی جو حصہ ہندوستان کے قبضے میں رہ گیا اسکو بھی آزاد کروا کر پاکستان کا حصہ بنایا جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف ان کا یہ موقف بھی ہے کہ اسکے بعد اقوام متحدہ کے ذریعے رائے شماری کروائی جائے گی اور عوام سے پوچھا جائے گا کہ وہ انڈیا کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ یہی اس 24 اکتوبر والی حکومت کے اعلامیے میں بھی لکھا گیا ہے کہ انڈیا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کیلیے عوام سے پوچھا جائے گا۔یہی اس “آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر” کی بنیاد ہے ۔دوسری طرف اسکے متبادل بیانیہ ہے جسکے مطابق ریاست جموں کشمیر ایک وحدت ہے جس پر دو ممالک کا جبری قبضہ ہے اور اسکو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ۔تینوں حصوں میں نام نہاد حکومتیں بھی قائم ہیں جنکی حیثیت لوکل اتھارٹیز کی ہے۔اس جبری تقسیم کا خاتمہ کرکے اسکی وحدت کی بحالی اس بیانیے کا اہم اور بنیادی نکتہ ہے۔ آج کی جنریشن جب اس بیانیے پر متحد ہوتے ہوئے اپنے 76 سالوں سے غصب شدہ بنیادی حقوق کیلیے منظم ہوکر نکل رہی ہے تو ایسے میں ایک بار پھر دانستہ یا نادانستہ ، کسی کی ایما پر یا لاعلمی کی بنیاد پر اس مردہ بیانیے میں روح پھونکنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں ۔ مسلم کانفرنس کی تاریخ کے ہاتھوں شکست کے بعد اسکو کسی اور نام کے ساتھ زندہ کرنے کے منصوبے بنتے نظر آرہے ہیں ۔
76 سالوں کے بعد عوام اپنے حقوق کیلیے منظم ہوئے اور بلا تفریق پارٹی اور نظریات بنیادی حقوق کے حصول کی ایک تحریک بنی جو دیہاتوں اور شہروں کی عوامی کمیٹیوں سے ہوتی ہوئی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی شکل اختیار کر گئی ۔ اب جب جوائنٹ ایکشن کمیٹی جو خالص عوام کی کمیٹی ہے ایک جزوی کامیابی کے بعد اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہی ہے ایسے میں کچھ قوتیں اسکو ماضی کے کسی اعلامیے کی بنیاد پر روائیتی سیاسی سسٹم کا حصہ بنانے کیلیے سرگرم ہیں ۔ بلاشبہ اس تحریک میں عام آدمی کا بہت بڑا کردار تھا اور ہے لیکن اس تحریک کے دوران جو نعرے اختیار کیے گئے ان نعروں کی گونج سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ کہاں سے آتی ہے اور کس نے عوام کو یہ نعرے اور فکر دی ہے۔ ماضی میں جب بھی یہ نعرے زبان زد عام ہوئے حاکموں نے انکا توڑ نکالنے کی کوشش کی۔ میں کھل کر بتانا چاہتا ہوں کہ جب یہاں ن لیگ کو لانچ کیا گیا تو بہت سے ایسے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ن لیگ کا حصہ بنایا گیا جو مزاحمتی سیاست میں ایک نام پیدا کرچکے تھے اور عوام کے اندر انکا اثرورسوخ واضع نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوئے اور لوگوں نے دیکھا کہ پھر انکے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال دی گئی اور نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ موجودہ ایکشن کمیٹی کے اندر شامل ایک شخص کا اخباری بیان آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جو اس وقت فرماتے تھے کہ ن لیگ اور فاروق حیدر کی موجودگی میں آزاد کشمیر کے اندر کسی قوم پرست یا آزادی پسند پارٹی کی ضرورت ہی نہیں ۔ پھر وقت کی دھتکار نے بہت سوؤں کو اپنے اصل مقام پر لاکھڑا کیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بڑی محنت کے بعد اگر آج بھی کچھ لوگوں کو کوئی سبز باغ دکھایا جا رہا ہے تووہ تاریخ کو ضرور سامنے رکھیں۔ 4 یا 24 اکتوبر کے کسی متروک و مسترد شدہ بیانیے کو ژندہ کرنے اور عوامی جدوجہد و قربانیوں کی بنیاد پر اگر کوئی بلنڈر کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک بات طے ہے کہ عوام کا شعور اس قدر بلند ہوچکا ہے کہ انکی جدوجہد خود اپنا راستہ بنا لیگی لیکن شاید کچھ کردار اپنے ہاتھوں عبرت کا نشان بن جائیں۔
جو جدوجہد جس سمت آگے بڑھ رہی ہے اسکو اپنی سمت میں جاری رکھنے میں ہی سب کی بھلائی ہے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *