Main Menu

نظم “منشور” اسلم گورداسپوری

Spread the love

ملوں کے مالکوں،محلوں کے وارثوں سن لو
زمین پاک کے خونی سوداگرو سن لو
وزیرو،شاہو،رئیسو،ستمگروں سن لو
سیاسی لیڈرو ملت کے تاجرو سن لو
تمھارے عہد سیاست کے زخم خوردہ عوام
تمھاری سطوت و ہیبت کا سر اتارینگے
تمھارا نشہء دولت اڑا کے دم لینگے
تمھارا قوم کے تقدیر کو سنوارینگے
تمھارے محل بھی غربت سے آشنا ہونگے
تمھارے پاوں بھی کھیتوں میں چلنا سیکھینگے
تمھارے ہاتھ بھی محنت کے بیج بوئینگے
تمام لوگ برابر حقوق رکھینگے
وہ کوہ نور ہو بیکو ہو یا گندہاراہو
یہ دس کروڑ کا حصہ ہے ایک دو کا نہیں
ٹرانسپورٹ ہو،ریلیں ہوں یا ہوائ جہاز
یہ ساری قوم کا حصہ ہے ،چار سو کا نہیں
یہ سینما ہال،یہ بنگلے،یہ خوشنما ہوٹل
بتاو کن کی بدولت یہ جگمگاتے ہیں
زمین کن کی بدولت اناج دیتی ہے
یہ کھیت کن کی تمنا پہ لہلہاتے ہیں
تم انکے خوں کو ارزاں خیال کرتے ہو
کہ جنکے خون سے تمھاری حیات روشن ہے
کہ جنکے ہاتھ سے دن بھر مشینیں چلتی ہیں
کہ جنکے دم سے سیاہ فام رات روشن ہے
زمیندارو،وڈیرو،تمھاری جاگیریں
غریب و محنتی دھقاں کو بانٹی جائنگی
بلند و پست کے جھگڑے کو ختم کر دینگے
خدا نے چاہا تو وہ ساعتیں بھی آئینگی
بہار سارے چمن کو گلوں سے بھر دیگی
ہر ایک گھر میں چراغوں کی روشنی ہوگی
ہر ایک شخص کو روٹی ملیگی عزت کی
ہر ایک فرد کی خوشحال زندگی ہوگی
ابھی تو بحر ستم ہم کو پار کرنا ہے
ابھی خزاں کو بدل کر بہار کرنا ہے
ابھی تو ہم پہ ستم کے ہزار پہرے ہیں
ابھی تو دامن شب تار تار کرنا ہے
ہمارے عہد مساوات کے تصور میں
جلال افسر شاہی کا کچھ وقار نہیں
ہمارے دور اخوت میں سب برابر ہیں
کوئ غلام نہیں ،کوئ تاجدار نہیں






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *