القائدہ اور افغان جہاد | افروز رند
یہ ایک اسٹرٹجیک وارتھی جسے آپریش سائیکلون کا نام دےکر شروع کیا گیا تھا’ اور اس مقصد کیلئے سعودی عرب نے دل کھول کر رقم خرچ کیا اور پاکستانی سرزمیں لانچنگ پیڈ کے طورپر استعمال ہوئی’ 1983 کو سعودی عرب کی سربرائی میں (سات ) 7 مجاہدیں گروپوں کے ایک اتحاد کی تشکیل ہوئی جن کے نام یہ ہیں’ حزب ال سلام’ محاذ ملی ‘ جمیعت اسلام ‘ اتحاد اسلام ‘ حزب اسلام خالص اور حرکت انقلابَ اسلام۔ یہ تمام گروپس سنی اسلام پسندوں کے تھے اور سوائے ایک کے باقی تمام پشتونون سے تعلق رکھتے تھے’ اس اتحاد کو اسلامک الائنس آف افغان مجاہدین یا افغان مجاہدین کہا جاتاتھا’ اس اتحاد کا سربراہ عبدالرسول سیاف کو بنایا گیا جو کہ طویل مدت سے سعودی عرب میں مقیم تھے اور یہ کہ عبدالرسول سیاف اتحاد اسلامی کے سربراہ بھی تھے ۔
اتحاد اسلامی کے بارے میں پہلے ہی یہ تاثر عام تھی کہ انہیں سعودی فنڈنگ کرتی ہے لیکن اس اتحاد کے بعد کوئی شبہات کی گنجائش نہ رہی اور سب گچھ واضع ہوگیا۔ عبدالرسول سیاف سعودی آلشیخ اور سعود خاندان کے زیادہ قریب تھے اور ان کا مذہب بھی سلفی ازم تھا جسے ہم وہاہی ازم کے نام سے جانتے ہیں یعنی مولانا عبدلوہاب کے نظریہ اسلام کا پرچار کرنے والا (سیاف) اسی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور سعودی عرب کے اثروسوخ کیلئے کام بھی کرتے رہے تھے۔
مولانا سیاف افغان جنگ کو لیڈ کرنے کیلئے پشاور منتقل ہوگئے’ جلد اس پراکسی وار کیلئے سعودی عرب اور مصر سے آنے والے نوجوانوں کی بھرمار ہوگئی اور پاکستان کے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے ہزاروں جوشیلا جوان بھرتی کروائے ان میں زیادہ ترکا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوم اور افغانستان سے تھا اکثریت پشتونوں کی تھی تاہم اس جنگ میں عرب ریڈیکل اسلام پسند بھی شامل تھے ان گروپوں کے خفیہ سیل تھے جوکہ کالج اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو جہاد اور جذبہ شہادت کے نام پر بھرتی کرتے تھے لیکن اس کام کے سب سے بڑے سرمایہ دیوبند اور سلفی ازم کے وہ مدارس تھے جنہوں نے ڈالروں کی خاطر ہزاروں نوجوانوں کو حوروں کا جانسہ دے کر سویت یونین کے خلاف لڑنے کیلئے تیار کرکے افغانستان بھیجتے رہیں۔ کہا جاتاہے کہ 1980 تک پاکستان میں مدارس کی تعداد 900 کے قریب تھا جب افغانستان میں جنگ شروع ہوا تو ان مدارس کی تعداد 3 ہزار سے بھی تجاوز کرگئی لیکن یہ تو شروعات تھی پاکستان کے نامور انگریزی اخبار ڈان کے مطابق یہ مدارس زیادہ دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور ان مدارس کی طلبہ نے افغان سویت وار میں نہایت کلیدی کردار ادا کیا اور کرتے بھی کیوں نہ جب وہ سالانہ صرف امریکہ سے 70 سے 80 ملیں ڈالر وصول کررہے تھے ‘ سعودی عرب کے مدارس والی فنڈنگ تو الگ تھی۔ ملاوں کے کاروبار کو پہلی مرتبہ چار چاند لگ گئے۔ باز تجریہ کار کہتے ہیں کہ جتنے فنڈ امریکہ نے فراہم کئے تھے اتنے سعودی نے بھی فراہم کئے۔
عراق کویت جنگ کے وقت جب امریکی فوج سعودی عرب آئی تو مذہبی طبقے نے اسے شدید ناپسند کیا ‘ ان میں شیخ اسامہ بن لادن بھی شامل تھے جو افغان جہاد کےوقت ایک عرب زیرک کمانڈر تھے اسامہ سعودی کے امیر ترین کاروباری شیخوں میں سے تھے کہا جاتاہے کہ اسامہ کے والد نے شروع میں مزدوری کرکے ایک ٹرک خریدی تھی اور پھر اس ٹرک سے کاروبار آگے بڑھاتے ہوئے سعودی عرب کی سب سے بڑی کنسٹرکشن کمپنی بنائی اور بلینر بن گیا۔ تاریخ عجیب داو پیج کھلینے والی ایک ایسی شئے ہے جسے کسی پر رحم نہیں آتا کامیاب وہ لوگ ہوتے ہیں جو محنت کرتے ہیں۔
مئی 1991 کو تمام اتحادی فوج سعودی عرب سے نکل گئے لیکن امریکی فوج عراق میں نو فلائی زون برقرا رکھنے کیلئے الخرج ایئربیس پر رک گئی لیکن اس سے مذہبی لوگ یہ سمجھے کہ امریکہ اب سعودی عرب میں مستقل قدم جمانے کے بہانے ڈونڈھ رہی ہے۔ اس لیے انہوں نے خفیہ خانوں میں امریکہ کے خلاف سرگرمیان شروع کیں اور سعودی عرب کے سیول سوسائٹی نے السعود خاندان کے خلاف بھی احتجاج شروع کیے جو کہ مولویوں کی سرپرستی میں جمہوری اور سیاسی حقوق کی بات کرنے لگے اس کا فائدہ مذہبی اسٹبلشمنٹ کو ہوا اور اس نے حکومت سے اپنی شرائط منوائے، اس میں مذاہب کی ترویج کا معاہدہ مذہبی آئین بنانا اور ایک 60 رکنی کونسل بادشاہ کی سربرائی میں قائم کروانا گوکہ کونسل برائے نام تھی تاہم مذہبی طبقے نے سعودی حکام کو جھکادیا کیونکہ سعودی حکام چاہتے تھے کہ مذہبی اسٹبلشمنٹ عوام کو اکسانے سے باز رہیں
لیکن ہوا وہی جو ہمیشہ جذبات کو دبانے سے ہوتا آیا ہے اور پھر ایک نئی تاریخ اور جنگ شروع ہوئی جس نے دنیا پر نہ مٹنے والے اثراث نقوش کرلیے سعودی عرب کی حکومت کے خلاف کچھ لوگوں نے مسلح تحریک شروع کی ان میں سر فہرست شیخ اسامہ تھے شیخ نے لوگوں کو بتایا کہ شاہ فہد نے یہود ونصارا کا ساتھ دیکر ایسا گناہ کیا ہے کہ اس کی کوئی معافی تلافی ممکن نہیں اسامہ کی سحر انگیز تقریروں اور کرشماتی شخصیت کی وجہ سے بہت جلد القائدہ سعودی عرب میں جڑ پکڑنے لگی اور یہ سعود خاندان کیلئے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔
ہوا یہ کہ 25 جوان 1996 کو سعودی عرب کے ساحلی شہر میں الخبر ٹاور کو ٹرک دھماکے سے اڑا دیا گیا یہ وہ بلڈنگ تھی جہان امریکن ایئرفورس اور سی آئی کے اہلکار عراق میں نو فلائی زون برقرار رکھنے کیلئے ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔ اس حملے میں 20 امریکی اہلکار ہلاک ہوئے جب کہ 500 سو دیگر لوگ زخمی ہوئے امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ حزب اللہ سعودی عرب نے کیا ہے جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے ان کا کہنا تھا یہ حملہ 1983 میں لبنا میں ہونے والے دھماکے سے ملتا جلتاہے جہاں حزب اللہ کے ٹرک حملے میں 242 امریکن سب میریں اہلکار ہلاک ہوئے تھے یہ امریکہ کو لبنان سے نکالنے کیلئے کیا گیا تھا اور امریکیوں کا کہنا تھا کہ وہی عمل سعودی عرب میں دہرائی گئی ہے۔
گوکہ سعودی عرب نے الخبر ٹاور کے الزام میں کچھ لوگون کو پھانسی دی تاہم انہوں نے مجرم امریکہ کے حوالے نہ کرکے معاملہ کو ٹھنڈا کردیا لیکن عبداللہ عزام کے ہونہار شاگرد اسامہ نے سوڈان منتقل ہونے کے بعد سعودی عرب حکومت کے خلاف شدید نفرت پر مبنی تقاریر اور بیانات دینا شروع کیے جو کہ ابن سعود کیلئے پریشانی کا باعث بن رہی تھی ‘ سعودی حکام نے صحافی جمال خشوقی کے ذریع اسامہ کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ سعودی حکام کو آڑے ہاتھوں لینا بند کرے تاہم شیخ اسامہ نے کسی کی نہ سنی جب کہ القائد نے عرب اور عجم دنیا میں جڑین خوب پکڑی تھیں کینیا اور تنزانیہ میں القائدہ نے امریکن سفارت خانوں کو ٹرک بمبوں سے اڑا دیا تب جاکر سی آئی اے کو اندازہ ہوا کہ اسامہ کتنا بڑا خطرہ بن چکا ہے۔’ امریکن اور سعودی پریشر پر سوڈانی حکام نے اسامہ کو ملک سے بیدخل کردیا جب کہ افغانستان میں ابھرتی ہوئی طاقت طالبان نے جون 1996میں اسامہ کو خوش آمدید کہا انہیں اور ان کے رفیقوں سمیت 60 ہزار عرب جنگجووں کو افغان طالبان نے پناہ دی گوکہ ملاعمر شیخ اسامہ کے جہادی پس منظر سے خوب واقف تھے لیکن انہیں ایسی توقع نہیں تھی کہ شیخ افغانستان سے امریکہ سمیت کہیں پہ بھی بڑے حملے کریں اور انہیں اعتماد میں بھی نہ لیں۔ ‘ ملا عمر کے ہاتھ بیعت کرنے کے بعد ملاعمر نے اسامہ کو جلال آباد ‘ قندھار ‘کابل سمیت کئی علاقوں میں ٹرینگ کیمپ کھولنے کی اجازت دی جب کہ شیخ صاحب عرب دنیا سے اربوں ڈالر جمع کرکے ملاعمر کی بھی خاطر و مدارت کرتے رہے’ (مسلم امہ تعمیر نو ) نامی تنظیم کے کچھ پاکستانی سائنسدانوں نے شیخ اسامہ اور ایمن الظوہری سے ملاقات کرکے ایٹم بمب بنانے کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا تھا جب کہ جامع دارالعلوم حقانیہ ‘ جامع کراچی اور لال مسجد سمیت پاکستان کے دینی مدارس میں شیخ اسامہ نے اچھا خاصا اثر و سوخ پیدا کیا تھا’ اس دوران امریکہ نے پاکستان یو اے ای’ اور سعودء حکام کے ذریعے بارہا طالبان سے استدعا کی کہ وہ القائدہ سے پیچھے ہٹ جائیں لیکن ملا عمر کی رجیم بلکل نہیں مانی اور اس نے اپنا اور افغانستان کا بڑا نقصان کردیا’ جب القائدہ کے 19 ہائی جیکروں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر ‘ کو نشانہ بنایا تب امریکہ آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے اتحادیوں کے ساتھ ملکر طالبان کی رجیم کو ملیا میٹ کردیا جب ‘طالبان حکمت عملی کے تحت پسپا ہوئے پاکستان اور افغانستان کے معاشرے میں ضم ہوگئے القائدہ کے موسی الزرقاوی عراق نکل گئے’ شیخ اسامہ اپنے اہم ساتھیوں کے ساتھ طورا بورا کے پہاڑوں کی طرف نکلے تو امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ایجنسیوں کے نشانہ پر آگئے ‘ ریڈیو فریکونسی پکڑی گئ کئی ھزار ٹن بارودی مواد پھینگا گیا گوکہ القائد کے 12 مرکزی لیڈران مارے گئے لیکن شیخ اسامہ طورا بورا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ کہا جاتاہے کہ پہلے کنڑ اور اس کے بعد وہ قبائل علاقوں میں گئے پھر پاکستانی ایجنسی کی مدد سے ایبٹ آباد چلے گئے غالبا یہ وقت 2006 بتایا جاتاہے۔ سی آئی اے کئی سالوں کی محنت کے بعد اسامہ کا کھوج لگانے میں کامیاب ہوا۔ 2011 کو شیخ اسامہ کو امریکن اسپیشل فورس نے ایبٹ آباد میں ہلاک کیا ‘امریکی صدر نے اسے تاریخی کامیابی قرار دیا اور 2014 کو نیٹو نے افغان مشن ختم کی اور افغان طالبان سے مذاکرات شروع کیے انہیں مزید قوی بناکر 2018 کو ایک ایگریمنٹ پر دستخط کرکے انہیں افٖغانستان کا غیر اعلانیہ طاقت تسلیم کیا۔ جب کہ طالبان نے بیس سال بعد وہی کام کیا جو پہلے دن بھی ہوسکتا تھا یعنی القائد کو افغانستان کی سرزمیں میں پمپنے نہ دینا۔ اگرچہ امریکن انخلا کے دوران طالبان نے ملک کی حکومت بزور شمشیر حاصل کی لیکن یہ سوال اپنی جگہ جوں کا توں موجود ہے۔ کیا القائدہ افغان سرزمیں کو استعمال نہیں کریگی کیا افغان طالبان اپنے نظریاتی بھائی ایمن الظواہری ‘ سیف العدل کیلئے دروازے بند کرینگے ان تمام سوالوں کا جواب فی الحال نہیں میں ہے جب کہ ان کا جواب آنے والا وقت ہی دیگا۔ اگر چہ القائد اب ُاس طرح ایک مرکزیت میں نہیں لوکلائز ہوگیا ہے لیکن القائدہ کا خطرہ یقینی طورپر ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ جب تک امریکہ مشرق وسطی میں موجود ہے اس وقت تک القائدہ اپنی پالیسی تبدیل نہیں کریگی اس کا ایجنڈا وہی ہے جو شیخ اسامہ کے وقت تھا تاہم اب القائدہ کے برانڈ کے کئی فرنچائز کھل چکے ہیں جیسے القائدہ برصغیر’ سومالیہ میں الشباب عراق اور شام میں خراس الدین مالی میں نصرت الاسلام شامل ہیں ۔ کیا القائدہ کی لیڈرشپ خاموشی کے ساتھ اپنے عالمی جہادی برانڈ کو جاری رکھے گی یا لوکل سطح پر پھیل کر جہاد کریگی اس کا جواب فی الحال ہمارے پاس نہیں ۔
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More