تم سازوں کو روکے گو تو دہنیں اور تیز بجیں گیں! محمد خان داؤد
( یہ بلوچستان کے تناظر میں لکھا گیا ہے لیکن پیغام بہت وسیع ہے.)
میرے دیس کے پہاڑوں سے پتھروں کا سرکنا بھی موسیقی ہے،ہواؤں میں رقص ہے۔پہاڑوں کے اونچے سر کسی مہان موسیقار کی طرح کھڑے ہیں،دیس کے جھرنے کیا کہتے ہیں؟آبشاروں،ندی نالوں میں کیا ساز بج رہے ہیں،کھلیان کیا کہتے ہیں؟دیش کے بارشیں،دیس کا ساون،مینا،کس رنگوں اور دہنوں کا پتا دیتے ہیں،دیس کی چھاؤں،درختوں کے ہلتے پتے،میٹھی کھجیاں،گرمی،گرمیوں میں سفید گلابی بدنوں سے بہتا نمکین پسینہ کن سازوں میں بجتے ہیں جنہیں سن کر دل کی دھڑکنیں اور تیز ہو جا تی ہیں،زمستانی ہوائیں،ان ہواؤں میں دو جسموں کا آپس میں پیوست ہو جانا،دل کا دل سے اور سرخ ہونٹوں کا ہونٹوں سے بوسہ پیچھے کن سازوں کو چھیڑ جا تے ہیں؟منتظر آنکھیں۔چمکیلے نین۔ہواؤں کی نظر ہو تے سیاہ بال،جواں ہو تے بدنوں کی عجیب خوشبوئیں ان میں کیا ساز بجتے ہیں؟جواں جسموں کا لمس،پہلا پہلا بوسہ،قریب آنے پر بند ہو تی آنکھیں۔آنکھیں کھلنے پر دید بھرا دیدار!
ان میں کیا ساز بجتے ہیں؟
اور قریب کرنا نماں شام میں سرخ سفید،گلابی نماں چہروں کو چوم لینا اور دوسری طرف شرم وحیا سے ایسے سکڑ جانا جیسے شرم بوٹی!یہ دل کس دہنوں میں بجتے ہیں؟
واعدے،وعید،ملنا،ملانا،آنا جانا،ناراض ہو جانا یہ سب کس سیمفینی میں بجتے ہیں؟
ان دہنوں کو تو کوئی شوپین بھی تخلیق ہیں کر پائے گا!
بُلا تی بولیاں،یہ سب کیا ہیں؟محبت کی زباں!!
من کے ساز کیا کہتے ہیں؟
دل کیا کہتے ہیں؟
وہ آئے گی؟کیا آج ہونٹ چومنے دے گی،شرٹ سے نکلتے پستان اور بند قبا میں قابو کیے کسی شرارتی بچے کی ماند!بند قبا میں قابو کیے بند پستانوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی شریر معصوم بچے کے پیر میں رسہ بندھا ہوا ہے اور ماں کسی دریا یا نہر کنارے کپڑے دھو رہی ہے اور پیچھے وہ بچہ رینگتے رینگتے دریا میں نہ گر جائے۔جب سفید دودھ کی ماند پستان بند قبا میں قابو کیے جا تے ہیں تو پیچھے دل کے سازوں سے کون سی دہنیں بجتی ہیں؟
شیکسپئیر نے کہیں لکھا ہے کہ
”جس چلتے ہوئے کسی دوشیزہ کے دل میں پہلی بار یہ احساس جاگے کہ
چلنے سے اسے پستانوں کا بار محسوس ہوتا ہے اور وہ رقص کرتے ہیں
تو اس کے من میں جو ساز بجتے ہیں
ان سازوں کو سوائے قدرت کے کوئی موسیقار تخلیق نہیں کرسکتا!“
کیا ایسے ساز کوئی بنا سکتا ہے،جو دل میں ایک زور برپا کر دیں اور زمانہ سن ہی نہ پائے!
جن سازوں کو سندھ کے فقیر شاعر حسن درس نے محسوس کرتے لکھا تھا کہ
”ہر مانھوں جے من میں گھوڑے جی ٹاپولی آھے!“
تو ان سازوں کو کون سن پائے گا اور کون بیان کر پائے گا اور رہا سوال کہ ان سازوں کو کون روک پائے گا؟
بارشیں برستی رہیں گی اور ردھم جاری رہی گا“ٹپ،ٹپ،ٹپ“
سرد اور گرم ہوائیں اپنی مخصوص چالوں سے چلتی رہیں گی
پہاڑوں کے بلند سروں سے پتھر سرکتے رہیں گے اور خاص ساز تخلیق ہو تے رہیں گے
پہاڑوں کے سر عطا شاد اور باغی شاعروں کے سروں کی ماند اور اونچے رہیں گے
زمیں اپنا دامن کنواری دوشیزہ کی ماند سفید برف کے گالوں سے ڈھکتی رہی گی
اور ساز بجتے رہیں گے!
ساز اوندھے منھ نہیں گرتے!
جو اوندھے میں گر جائے وہ تو ساز ہی نہیں وہ تو ڈر ہے خوف ہے تماشہ ہے
ہوائیں چلتی ہیں اور بہت دور نخلستانوں میں اکیلی کھڑی کھجیوں کے پنوں سے محبت بھری سیمفینی چڑھ جا تی ہے اور بہت دور پنکھ اُوڑ کر وہاں آتے ہیں اور خاموشی کا ماتم کرتی ہیں
تو تم جتنا سازوں کو روکے گے تو دہنیں اور تیز بجیں گی
پہاڑوں سے،پتھروں سے،ہواؤں سے،ندی نالوں سے،راہوں سے اور مسافر پیروں سے۔دھول آلود جوتیوں سے اُٹھتے ہاتھوں سے خلق کی زباں سے،نعروں سے ماؤں کے پرچموں جیسے دوپٹوں سے۔مسافر بہنوں کی مسافر جوتیوں سے،حق سچ کے بلند ہو تے نعروں سے
دیس کی صبحوں سے
دیس کی شاموں سے!
ماؤں کے رت جگی آنکھوں سے
بہنوں کے اداس نینو ں سے
دیس کے وشال آکاش پر اداس اکیلے پھرتے چاند سے
دل اور دیس کی گلیوں سے
ماؤں کے دل کی گلیوں سے
سرخ ہو تے آسماں سے
ان تمام سازوں کو کون رو ک پائے گا
تو تم جتنا سازوں کو روکو گے اور دہنیں اور تیز بجیں گیں!
حفیظ بلوچ بھی تو ایک ساز ہے تم اسے روک سکتے ہو،تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہو۔اس ڈرا دھمکا سکتے ہو،کتابوں اور محبوبہ سے دور کر سکتے ہو،بولی ماں اور دھرتی سے دور کر سکتے ہو
پر ان سازوں کا کیا کرو گے جو تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے
اکیلے صحیح
اداس صحیح
بہت پھیکے صحیح
پر بج رہے ہیں
تو تم سازوں کو توڑ سکتے ہیں
پر ان دہنوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے
حفیظ بلوچ بھی ایک ساز ہے اور اپنے پیچھے بہت سے دہنیں چھوڑ گیا ہے.
جو شال کی گلیوں سے لیکر نوشکی کے دامنوں تک
کراچی کی گلیوں سے لیکر شیر اقتدار تک
بج رہے ہیں
اور جدو جہد کے میدان میں ساتھی دہنوں پر ایسے گیت گا رہے ہیں
’’دور کیلاش سے چاند ہیمنت کا
مرے من کو ہمیشہ بلاتا رہا
میں کہ رن بِیر تھا، لُو میں لڑتا رہا
برچھیوں کے تلے جھپکیاں نیند کی مجھ کو راس آگئیں
رن پہ سورج کے نکھ جب چمکنے لگے
میں نہ چہرہ نہ ان سے چھپایا کبھی
ریت تانبا بنی، میرے تلوے جلے
برچ کی چھاؤں میں، میں نہ بیٹھا کبھی
گھاؤ بھرنے لگے میرے ہر انگ پر
کتنے کالے گلابوں کے پودے ملے
بیریوں نے کبھی یہ شکایت نہ کی
میں نے لڑتے ہوئے وار اوچھے کیے
مارنے میں کبھی ہچکچاہٹ نہ کی
اور نہ مرنے کا ڈر، ہاں مگر
دور کیلاش سے چاند ہیمنت کا
مرے من کو ہمیشہ بلاتا رہا‘‘
تو بتاؤ تم کن سازوں کو روک پاؤ گے؟!!!
سنو
تم سازوں کو روکے گو تو دہنیں اور تیز بجیں گیں!
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More