فلسفہ مقبول بٹ شہید؛ تحریر و ترتیب: قمر عزیز
آج دنیا بھر میں مقیم کشمیری اور مزاحمتی تحریکیں مقبول بٹ شہید کا 37 واں یوم شہادت بنا رہی ہیں مقبول بٹ شہید نے جموں کشمیر کی آزادی کے لیے آج ہی کے دن تختہ دار کو چوما تھا آج جہاں مقبول بٹ شہید کا 37واں یوم شہادت بنایا جا رہا ہے وہی مقبول بٹ کے نظریات افکار و جدوجہد کو درست انداز میں قوم تک پہنچانے اشد ضرورت ہے اسی ضمن میں مقبول بٹ شہید کے ارشادات قارئین کی نظر کرنا چاہوں گا تاکہ کشمیری قوم تحریک آزادی کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے منزل کے حصول کے لیے صف آرا ہو سکے۔
قارئین کی نظر شہید قائد مقبول بٹ شہید کے ارشادات
”زندگی ایک نعمت ہے مقصد کی خاطر کام کرنے والے لوگ اس کے انجام پر نظر نہیں رکھتے بلکہ اسے معنی و مفہوم عطا کرتے ہیں“
“میرا جرم فرسودگی قدامت پسندی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام غلامی اور ریاکاری کے خلاف جدوجہد ہے”۔
“میں فرسودگی دولت پسندی استحصال غلامی اور منافقت کے خلاف بغاوت کا مرتکب ہوا ہوں”۔
“محکومی کو پرامن طور پر برداشت کرنا اجتماعی زندگی کا عظیم ترین جرم ہے “۔
” ہم دوستوں کی اعانت کے متمنی ہیں لیکن ایسی جو باہمی عزت اور وقار کی بنیاد پر استوار ہو ہم دوستی چاہتے ہیں کسی کی بالادستی تسلیم نہیں کرنا چاہتے “۔
” آزادی سے ہمارا مطلب کشمیر کی مقدس دهرتی سے غیر ملکی تسلط کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بهوک افلاس جہالت بیماری معاشی اور سماجی نا ہمواریوں کو شکست دینا ہے اور ہم ایک دن آزادی حاصل کر کے رہیں گے “۔
” غلامی کے احساس کو ذہنوں سے نکال دو برادری ازم اور تعصب کی زنجیریں توڑ دو برادریوں کے جهوٹے فریب سے نکل آو اور مادر وطن جموں کشمیر کی آزادی عزت اور خود مختاری کیلے جدوجہد کیلے تیار ہو جاو “۔
” ہمیں تحریک آزادی کو ایسے خطوط پر استوار کرنا ہے کہ ہماری پکار امن کے ایوانوں میں گونجے بیابانوں میں گهن گرج سنائی دے اور دشت و سحرا هماری شجاعتوں کی گواہی دینے پر مجبور ہوں “۔
” جدوجہد کا میدان ایک کسوٹی ہے جو حق کے علمبردارں اور باطل پرستوں کو ہی نہیں بلکہ منافقین کو بهی اصل مقام پر لا کھڑا کرتی هے”۔
” حق پرستی اور حق شناسی کے دعوے رکهنے والوں کیلیے بہترین زندگی وه ہے جو سچائی کا شعور حاصل کر لے اور اس شعور کی روشنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تزئین و آرائش میں صرف ہو”۔
” ہمیں یقین ہے کہ ایک دن مادر وطن ضرور آزاد ہو گا اور ہم فتح سے ضرور ہمکنار ہوں گے”۔
” پھانسی گھاٹ کی دیوار میں ایک سوراخ چھوڑنا تاکہ میرے وطم کی ہوا میرے جسم کو چھوئے اور کل گواہی دے کے مقبول بٹ اپنے دیس کی آزادی کی خاطر قربان ہو گیا”۔
ہمارے چار دشمن ہیں
۔۱- بھارتی افواج اور بھارتی حکومتی مشنیری کے وہ کل پرزے جو ریاست پہ جارخانہ قبضے کو دوام دینے میں مدد کرتے ہیں ۔
۔۲- پاکستان میں خود ساختہ سیاستدانوں کے وہ حلقے جو امریکی اور روسی سامراج کے گماشتے ہیں جو عوامی تحریکوں کے زریعے قومی مقاصد کے حصول پہ یقین نہیں رکھتے۔
۔۳- کشمیری قوم میں پائے جانے والے وہ عناصر جو شکست خوردہ ذہنیت کے مالک ہیں یا جو اعتماد کے فقدان کے باعث مایوسی کا شکار ہیں اور اس کیفیت کے باعث شعری یا غیر شعوری طور پر عوامی سطح پہ تحریک منظم ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں یا بعض کمینے مفادات کے باعث ”کوزننگ“ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔
۔۴- بین الاقوامی سطح پر وہ قوتیں جو دنیا میں سامراج اور نوآبادیات کی علمبردار ہیں یا اس کی حمایت کرتی ہیں۔
”حق و باطل کی یہ کشمکش جس مں ہم نے خود کو شعور و تدبر سے صف آراء کر رکھا ہے میں جانوں کا نظرانہ پیش کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیلی آزادی کے لیے مجنوں کا جنوں اتنا ہی ضروری ہے جتنا خفظ صحت کے لیے گردش خوں انسان کو بھسم کرنے والے ظلم و جبر کے انگاروں کو سرد کرنے کے لیے آتش نمرود میں بے خطر کود پڑنے کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی“۔
”آزادی کی قومی تحریکوں کو عدالتی فیصلوں کی مدد سے اگر رو کا جا سکتا تو دنیا میں شاید ہی کوئی قوم آزاد ہوتی اگر انسانی تہذیب و تمدن، جمہوریت وآزادی کے ارتقاء کو مُروجہ عدالتی یا انتظامی کا روائیوں سے ختم کرنا ممکن ہوتا تو آفرینشں آدم سے لیکر اب تک دنیا میں جتنے انقلاب آئے ہیں تاریخ میں ان کا وجود تک نہ ہوتا۔ انسانی فلاح اور آزادی کی تحریکوں سے مطلق فیصلے مروجہ عدالتوں میں نہیں بلکہ خود تاریخ کے ارتقائی عمل کی عدالت میں کئے جائے ہیں اس لئے مروجہ عدالتیں بجائے خود اس نظام کی مرہون منت ہوتی ہے جس سے بدلنے کے لئے یہ تحریکیں جنم لیتی اور پروان چڑھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نوع کے عدالتی فیصلے تاریخی عمل کی روشنی میں بساوقات ناکارہ اور متروک قرار دئے جاتے ہیں۔
”دُشمن کے اعصاب پر سوار ہو جاؤ اور جنگلوں و بیابانوں میں اُسکا پیچھا کرو جب وہ تھک جائے تو آخری اور کاری ضرب لگاو فتح تمہاری ہو گی“۔
”میرے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام اور کیا ہو سکتا ہے کہ وقت کا جبر اور حالات کی نامساعدگی نہ صرف یہ کہ وفا کی ان شمعوں کو بجھانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں بلکہ ان چراغوں کی روشنی سے کئی اور چراغ روشن ہو رہے ہیں ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ان چراغوں کی روشنی سارے وطن کومنور کردے گی اور نتیجتاً وہ کیفیت برپا ہو گی جسے ہم بجا طور پر آزادی کا چراغاں کہ سکیں گے“۔
”میں اپنے بعد ہزاروں مقبول بٹ جنم لیتے ہوئے دیکھتا ہوں قومی آزادی کی اصل تحریک میرے بعد شروع ہو گی“۔
” اپنی زندگی کی آخری خواہش کے طور پر اپنے نظریاتی ساتھیوں سے کہوں گا کہ حالات خواه کتنے ہی بدترین کیوں نہ ہوں وه ثابت قدم رهیں اور مشترک مقاصد کے حصول کیلے جدوجہد کرتے رہیں”۔
گيارہ فروری 1984 کو مقبول بٹ شہید سے آخری الفاظ
”میرے وطن تو ضرور آزاد ہو گا“۔
فلسفہ مقبول بٹ کو سمجھتے ہوئے جدوجہد کو ازسرنو منظم کرنا اور فیصلہ کن جدوجہد وقت کا تقاضہ ہے مقبول بٹ شہید کے فلسفے پہ چلتے ہوئے جدوجہد کی راہوں کا تعین ہی جموں کشمیر کی قومی آزادی انسانیت پہ مبنی سیکولر سماج کے قیام کا ضامن ہے شہید قائد کی لہو رنگ لازوال تاریخ ساز و ناقابل مصلحت جدوجہد کو سلام عقیدت۔
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More