Main Menu

ہوچی منھ: وہ راستہ جو مجھے لینن ازم تک لے گیا؛ انتخاب؛ اسرار احمد

Spread the love

پہلی جنگ آزادی کے فوراً بعد میں پیرس میں چنیی قدیم اشیا (جو ایک فرانیسی فرم تیار کرتی تھی) کے ڈیزان بنا کے روزی کماتا تھا۔میں اکثر اشتہار تقسیم کیا کرتا تھا جن میں نوآبادیاتی نظام کی برائیوں کی مزمت ہوتی تھی۔ان دنوں میں محض ایک قسم کی بے ساختہ ہمدردی کی بنا پر اکتوبر کے انقلاب کی حمایت کرتا تھا۔ابھی مجھے اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔ میں لینن سے محض اس لیے کہ وہ ایک عظیم محب وطن تھےجنھوں نے اپنے ہم وطنوں کو آزادی دلائی تھی محبت کرتا تھا اور ان کی عزت کرتا تھا ابھی تک میں نے ان کی کوئی تصنیف بھی نہیں پڑھی تھی۔
میں فرانسیسی سوشلسٹ پارٹی میں محض اس لیے شامل ہو گیا تھا کہ یہ خواتین و حضرات مظلوم اقوام کی جدوجہد سے ہمدردی رکھتے تھے۔ مجھے ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ پارٹی یا یونین کیا ہوتی ہے اور سوشلزم یا کمیونزم کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
ان دنوں سوشلسٹ پارٹی کی مقامی شاخوں میں اس مسئلہ پہ بڑے پرجوش مباحثے ہوا کرتے تھے کہ دوسری انٹرنیشنل میں رہنا بہتر ہے یا تیسری انٹرنشینل میں شامل ہونا،میں ہفتے میں دو یا تین دفعہ ان تمام جلسوں میں باقاعدہ شریک ہوتا، میں وہاں پیش ہونے والے دلائل کو بہت غور سے سنا کرتا تھا پہلے پہل میں یہ بالکل نہیں سمجھ سکتا تھا کہ جھگڑا کیا ہے یہ لوگ دلائل اتنے پرجوش طریقے سے کیوں دیتے ہیں؟ انقلاب دوسری انٹرنیشنل یا انٹرنیشنل ٢_١/٢ یا تیسری انٹرنیشنل کے تحت بہت موثر طریقے سے جاری رکھا جا سکتا ہے،اس لیے یہ سب جگھڑے کیوں؟اور پھر پہلی انٹرنیشنل بھی تھی اسے کیا ہو گیا؟
مجھے جس سوال کا جواب سننے کی آرزو تھی اور ان جلسوں میں اسی سوال پر کبھی بحث نہیں ہوئی تھی وہ یہ تھا کہ مظلوم اقوام کی جدوجہد کی کون سی انٹرنیشنل حمایت کرتی ہے؟
ایک جلسے میں میں نے یہ سوال اٹھایا جو میرے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا چند کامریڈوں نے جواب دیا تیسری انٹرنیشنل دوسری انٹرنیشنل نہیں اور ایک کامریڈ نے مجھے قومتیوں اور نوآبادیاتی اقوام کے مسائل پر لینن کے مقالے پڑھنے کے لیے کہا جو لومانتیے میں چھپ چکے تھے۔
ان مقالوں میں ایسی اصطلاحات تھیں جو میرے لیے سمجھنا مشکل تھیں۔ تاہم کچھ دفعہ پڑھنے سے میں ان کا لب لباب سمجھنے میں کامیاب ہو گیا۔ لینن کے مقالوں نے مجھ میں بہت جوش ،ولولہ، بہت اعتماد پیدا کیا اور مسائل کو واضع طور پر جانچنے میں میری مدد کی میں اتنا خوش ہوا کہ کئی دفعہ میرے آنسو بہنے لگتے۔میں اپنے کمرے میں تنہا ایسے چلانے لگتا جیسے ایک بڑے ہجوم کے سامنے کھڑا ہوں۔
میرے پیارے مظلوم،بدنصیب ہموطنو اس چیز کی ہمیں ضرورت ہے، یہ راستہ ہمیں آزادی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔
اس کے بعد لینن اور تیسری انٹرنیشنل پہ میرا بھروسہ پختہ ہوگیا۔
پہلے میں صرف سنا کرتا تھا۔ہر آدمی کے خیالات درست معلوم ہوتے تھے۔میں ایک کے دلائل تسیلم یا دوسرے کے رد نہیں کر سکتا تھا۔ لینن کے مقالے پڑھنے کے بعد میں بھی بحث میں کود پڑا۔۔میں نے بہت جوش میں تقرر کی۔فرانیسی زبان کے ناکافی علم کے باوجود جس کی وجہ سے میں اپنے خیالات کا پوری طرح اظہار نہ کر سکتا تھا۔
میں نے لینن اور تیسری انٹرنیشنل کے مخالفین کی پوری شدومد سے مخالفت کی ۔میرے پاس صرف ایک دلیل تھی۔ میں نے کہا کامریڈو أگر تم نوآبادیاتی نظام کی مزمت نہیں کرتے، اگر تم مظلوم اقوام کی حمایت نہیں کرتے، تو تم کس قسم کا انقلاب لانے کا دعوی کر سکتے ہو۔
آپنی مقامی شاخ کے جلسوں میں شریک ہونے سے تسلی نہ ہوتی تو میں دوسری شاخوں کے اجلاس میں جایا کرتا تھا۔یہ کہنا باکل برحق ہو گا کہ بہت سی باتوں کی وضاحت کے سلسلے میں کامریڈ مارسل کاشیں، کامریڈ وایاں کوتویر، کامریڈ مونموسو، اور بہت سے دوسرے کامریڈوں نے میری مدد کی۔ آخر میں تور کانگریس کے موقع پر میں نے ان تمام کامریڈوں کے ساتھ تیسری انٹرنیشنل میں شریک ہونے کی حمایت میں ووٹ دیا۔”پہلے پہل کمیونزم نہیں بلکہ حب الوطنی تھی جو مجھے لینن کی جانب، تیسری انٹرنیشنل کی جانب لے گئی۔ قدم بہ قدم، جدوجہد کے دوران، لینن ازم کے مطالعے کے ساتھ ساتھ عملی سرگرمیوں میں شرکت سے، میں بتدریج اس حقیقت تک پہنچا کہ صرف سوشلزم، کمیونزم ہی مظلوم قوموں کو اور ساری دنیا کے محنت کش لوگوں کو غلامی سے آزاد کرا سکتا ہے۔

ہمارے ملک میں اور چین میں بھی “دانائوں کی کتاب” کی معجزاتی حیثیت کے بارے میں ایک کہاوت ہے۔ جب کسی کو کٹھن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اسے کھولتا ہے اور نجات کا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ لینن ازم بھی ہم ویتنامی انقلابیوں اور لوگوں کے لیے نہ صرف ایک ایسی ہی معجزاتی “داناؤں کی کتاب” ہے بلکہ یہ ایک ایسا درخشاں سورج بھی ہے جو حتمی فتح کی جانب، سوشلزم اور کمیونزم کی جانب، ہمارا راستہ جگمگا رہا ہے۔”






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *