Main Menu

اپنی شناخت بنائیں ؛ انتخاب: سردار با بر خان

Spread the love

بڑا کام کرنے کیلئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے یا تو آپ سب چیزوں سے آزاد ہو جائیں یا پھر اتنا کچھ حاصل لیں کہ پروا ہی ختم ہوجائے۔ امیر تیمور دنیا کا وہ بادشاہ تھا جس نے کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا آغاز کیا۔ یہ اس کی فتح کا نشان تھا۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتا، اس علاقے کے جتنے بھی قابل لوگ ہوتے تھے، وہ اُن کے سر اتروا دیتا تھا۔ پھر وہ سر سارے اکٹھے کرکے مینار بناتا۔ پھر اس پر جسموں کی چربی ڈال دیتا تھا۔ اس کے بعد آگ لگا دیتا اور وہ آگ کئی کئی مہینے جلتی رہتی۔ جب وہ شیراز پہنچا تو اس نے اعلان کیا کہ پورے شہر کو امان دے دو۔ اس کے جرنیل نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ تو کسی کو نہیں چھوڑتے، یہ کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا، یہاں میرا استاد دفن ہے۔ جرنیل نے کہا، آپ تو یہاں کبھی آئے ہی نہیں ہیں، آپ کو کیسے پتا کہ یہاں پر آپ کا استاد دفن ہے؟ تیمور نے جواب دیا، یہاں حضرت شیخ سعدیؒ دفن ہیں۔ جرنیل نے کہا، آپ تو کبھی ان سے ملے ہی نہیں ہیں۔ انھیں تو دنیا سے گئے عرصہ ہوچلا ہے۔ امیر تیمور نے جواب دیا، میں نے ان کی کتابیں ’’بوستان‘‘ اور ’’گلستان‘‘ پڑھی ہیں۔ میں نے ان کتابوں میں ایک جملہ پڑھا تھا اور اس ایک جملے نے مجھے ایک سپاہی سے اتنا بڑا بادشاہ بنایا ہے۔ اور وہ جملہ یہ تھا کہ ’’زندگی میں علم اور پیسہ خوب حاصل کرو، کیونکہ میں نے بڑے پیسے والوں کو بھی رلتے دیکھا ہے اور بڑے علم والوں کو بھی پیسے والوں کا محتاج دیکھا ہے۔‘‘
جب یہ دو محتاجیاں ختم ہو جاتی ہیں تو پھر دماغ سوچنا شروع کر تا ہے۔ جب تک زندگی کی تلخیاں آپ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، تب تک آپ بڑا سوچ نہیں سکتے۔ اس کیلئے صرف ایک چیز ضروری ہے کہ سوچ کے تالوں کو کھولا جائے۔ پرانے زمانے میں تعلیم اور تربیت کبھی ایک کام ہوا کر تی تھی۔ استاد پڑھاتا بھی تھا اور ساتھ ہی تربیت بھی دیتا تھا۔ جب سے ڈگری کلچر آیا ہے، اس نے ایک نئی فوج تیارکر دی ہے جو صرف سلائیڈوں کا سہارالیتی ہے۔ اس نے تربیت ختم کر دی ہے۔ جو کردار قوم کو چاہیے، وہ کردار اگر استاد کا نہیں ہے تو پھر وہ کردار طالب علم کا نہیں بن سکتا۔ یہاں خوف ختم کرنے والے استاد، سوچ کو بڑا کرنے والے استاد نہیں ملتے۔ فزکس، کیمسٹری اور میتھ کے ماہر بہت زیادہ ملیں گے۔ امتحان ٹاپ کرنے کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ پیپروں میں تو نمبر خوب ہوں، مگر زندگی میں نمبر ہی نہ ہوں۔
آج سائنس ای کیو ليول پر چلی گئی ہے اور ہم ’’آئی کیو‘‘ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمار ا سارا سسٹم رٹے پر ہے۔ ہمار ے بچے میں پڑھنے کے بعد بھی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ نوے فیصد اسٹیج پر آکر با ت نہیں کرسکتے۔ وہ کلا س میں تو بڑے شرارتی ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی انٹرویو دینے آتے ہیں تو ان کے ہاتھ پیر کانپ رہے ہوتے ہیں۔ کیوںکہ ہم نے ڈگری ہی کو زندگی کی سب سے اہم شے سمجھ لیا ہے۔
زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے خود کو نکالیے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔‘‘جب تک زندگی میں چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر سے توجہ ختم نہیں ہوگی، تب تک کوئی بڑاکام نہیں کیا جاسکتا۔ بڑے کام کیلئے ضروری ہے کہ آپ کی سوچ بڑی ہو۔ آپ کو سمجھ آ جائے کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ آپ کو شعور ہو کہ ایک چھوٹی سی زندگی میں مجھے کوئی بڑا کام کرنا ہے، کچھ دے کر جانا ہے۔
ایک آدمی کے بارے میں یہ غلط خبر چھپ گئی کہ وہ مرگیا ہے۔ خبر کی سرخی تھی، ’’موت کا سوداگر مر گیا ہے۔‘‘ اس نے جب یہ پڑھا تو سوچا کہ میرے نام کے ساتھ تو موت کا سوداگر لکھا جائے گا۔ وہ اس لیے لکھا گیا کہ اس نے بم بنایا تھا۔ اس نے سوچا اور اپنے کاروبار کا تمام پیسہ ’’نوبل پرائز‘‘ پر لگا دیا۔ آج اس کا نام ’’نوبل پرائز‘‘ کی وجہ سے زیادہ ہے۔ آپ سوچئے کہ آپ کی بھی تو کوئی شناخت ہو، جو آپ کو زمین سے اٹھائے۔ تب تک طیارہ ایئرپورٹ پر پھرتا رہے گا۔ جب تک وہ اڑنے کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ تعلیم مکمل ہوگئی، ڈگر ی مل گئی اور اب بھی پلان یہی ہے کہ غلام ابن غلام! ۔۔۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *