محبوبہ خیال؛ تحریر: جواد احمد پارس
تم چاہتی ہو کہ میں تم سے باتیں کروں، محبت اور جذبات کی لذت سے سرشار باتیں، وہ تمام باتیں جن پر ہم حقیقت میں عمل نہیں کر سکتے، واہیات باتیں جس سے تمہارے جذبات میں ہیجان برپا ہو جائے، تمہارے انگ انگ میں خون آگ کی مانند کردش کرنے لگے، اور تم بے قرار ہو کر میری جانب ایسے کھچی چلی آؤ جیسے صحرائے عظیم میں کوئی پیاسا اپنی آخری سانسوں کو سمیٹ رہا ہوتا ہے کہ اسے نخلستان نظر آ جاتا ہے۔
میں کوشش کرتا ہوں کہ تم سے وہ سب واہیات باتیں کروں جو اس عمر اور اس حالت میں کرنی چاہیے، میں چاہتا ہوں کہ تم تڑپ کر میرے سینے سے لگ جاؤ اور اپنا آپ مجھے سپرد کر دو، لیکن مجھ سے یہ نہیں ہو پاتا، میں تم سے ارشمیدس کی باتیں کرنے لگتا، قبل از تاریخ کے قصے کھنگالنا شروع کر دیتا ہوں، مذہب کے ارتقاء کے اوپر گفتگو کرنے لگتا ہوں، کانٹ، دیکارت اور جان لاک کے فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھ جاتا ہوں، تم خاموشی سے سنتی ہو بس سنتی جاتی ہو، تمہارے چہرے کے بدلتے تاثرات مجھے نظر آنے لگتے ہیں تو میں زرعی پیداوار سے قبل کے معاشرے کی داستان سنانا شروع کر دیتا ہوں، تمہیں یاد ہے نا ہمارے تعلق کی بنیاد کیوں پڑی تھی؟ اور تمہیں یہ سب جاننے کا کتنا تجسس تھا؟
مجھے افسوس ہے کہ میں تم میں وہ طلاطم نہیں بپا کر سکتا جو مجھے کرنا چاہیے، عزیر کہتا ہے جانی محبوب سے یہ باتیں کرو گے تو وہ چھوڑ جائے گا، کیونکہ محبت کی تثلیث کچھ اور ہے اس کی ضروریات اور جزئیات کچھ اور ہیں تم سمجھو. وہ چاہتا ہے کہ میں تمہیں کہیں لنچ پر لے جاؤں، کیفے ٹیریا نہیں، یونیورسٹی سے کہیں دور جہاں فقط میں اور تم ہوں اور ارد گرد مکھیوں کے طرح منڈلاتے ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کا شور نہ ہو، جہاں میں تم سے اور تم مجھ سے دل کی باتیں کرو مگر تم جانتی ہو، میں وہاں جا کر بھی یہی باتیں کروں گا، مجھے وہاں بھی کالونیلزم کی باتیں یاد آئیں گی یا پھر سرمایہ داری کا عفریت جو میری تمہاری اور ہم سب کی زندگیوں کو نگل رہا ہے۔
اور تم یکدم کے لیے اگر اپنی کسی سہیلی کا ذکر چھیڑتی ہو تو میں سننے کی کوشش کرتا ہوں یقین مانو! میں ہمہ تن گوش ہوتا ہوں مگر میرے لہجے میں اکتاہٹ کہاں سے آتی ہے معلوم نہیں، تم مجھے اپنی بلی کی باتیں سناتی ہو یا پھر تمہارا ٹومی کیسے تمہارے بھائی کے ساتھ فٹ بال کھیلنے جاتا ہے، دونوں پنجے اٹھا کر ناچنے کی کوشش کرتا اور یہ کہ بقرہ عید پر تمہارے ہمسائے نے دس مانی کا بیل قربانی کے لیے لایا تھا۔
تم میری اکتاہٹ کو بھانپ کر چپ ہو جاتی ہو. اس سب میں میں فقط ان لمحوں کو محسوس کرتا ہوں جب تم کوئی بات کرتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہو یا پھر میرے ہاتھوں کو ہاتھوں میں لے کر سہلاتی رہتی ہو. لیکن میرے پاس تمہیں خوش کرنے کے لیے اور کوئی راستہ نہیں ہے، شروع میں تم نرودا کی کوئی نظم سن کر خوش ہو جاتی تھی، فراز و فیض کا کلام تمہیں خوشی دیتا تھا، غالب کی شاعری سے مشکل مشکل لفظ نکالتی تھی جنہیں ہم لغت میں تلاش کر کے انہیں معانی پہناتے تھے لیکن رفتہ رفتہ یہ سب بے کار ہو چکا ہے. محبت کی کہانی میں اداسی کی یہ خزاں کب تک رہے معلوم نہیں ہے، لیکن میں بور نہیں ہو جیسا کہ تم ماننے لگی ہو. میں کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے رویے میں تبدیلی لاؤں. اور ویسا بن جاؤں جیسے تم چاہتی ہو تمہاری زلفوں کی باتیں کرنے والا، تمہارے گیسوؤں میں الجھے رہنے والا، تمہاری آنکھوں میں تکتے رہنے والا اور تمہارے رخساروں پر بوسہ دینے والا۔
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More