گلگت بلتستان ،ہمارا کردار اور مستقبل ؛ تحریر: اسدنواز
کیا آج تک کبھی کسی نے سوچا ،سوال کیا،سمجھنے اور سچ بولنے کی زحمت گوارہ کی ، اپنے ماضی کے کردار پر غور کیا، غلطیوں کو تسلیم کیا یا غلطیوں کا اعتراف کیا، اپنے بیانیے پر کبھی غور کیا کہ یہ ہمارا اپنا ہے یا قابض کا دیا ہوا ؟؟؟؟ نہیں ۔۔بالکل نہیں
ہم نے صرف نعرے مارے ” جزباتی بنیادوں پر جیوے کاشر میری جان جموں گلگت بلتستان۔ کبھی سوچا کہ گلگت بلتستان اور جموں کو جوڑنے کی بنیاد کیا ہے ؟ گلگت کیونکر جموں کشمیر ہے ؟؟ ہم نے کہا گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔ گلگت بلتستان والے بھی کشمیری ہیں گلگتیوں نے کہا ہم کشمیر کا حصہ نہیں ہماری اپنی تاریخ ہے البتہ ہم مسلہ جموں کشمیر کا حصہ ہیں ۔کسی نہ ہمیں بتایا اور نہ ہم نے کسی کو بتایا کہ کشمیر تو ریاست کا ایک صوبہ ہے اسکے علاوہ جموں اور گلگت لداخ الگ الگ صوبے ہیں ۔ جیسے پنجاب سندھ اور بلوچستان ۔گلگتی کو کشمیری کہنا ایسے ہی ہے جیسے بلوچی کو پنجابی کہا جائے۔ لیکن یہ کسی نے سوچا ہی نہیں اور نہ سوچنے دیا گیا اسلیے کہ بیانیہ ہی اپنا نہیں تھا ، ریاست کی تاریخ سے ہی نفرت سکھائی گئی اور اسکو گالیاں دینا سکھایا گیا ، سنتالیس کے غدر کے نتیجے میں ہونے والی پچاسی ہزار مربع میل ریاست کی تقسیم کو آذادی کا نام دیا اور اس تقسیم کے مجرموں کو ہیرو ،مجاہد اور غازی بنا کر پیش کیا۔پہلی بار غدر کے ذریعے اور دوسری بار معاہدے کے ذریعے اٹھائیس ہزار مربع میل اس علاقے کو زبردستی ریاست سے الگ کیا۔ چلو یہ کام بھی ہو گیا تھا اس کے بعد بھی ہم نے کبھی انکے ساتھ جڑنے یا انکو جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ساٹھ سالوں سے وہاں کے لوگ ایف سی آر جیسے کالے قانون کے تحت بے نام اور بے آئین زندگی گزار رہے ۔انہیں آذاد کشمیر کے نام سے قائم فراڈ کشمیر ، لوٹ مار اور عیاشی کے اڈے کو ایک آذاد ریاست کے طور پر دکھایا گیا۔انہوں نے یہ فرض کر لیا کہ چار ہزار مربع میل یہ فراڈ کشمیر تو حقیقت میں ایک آذاد ریاست ہے اور وہاں کے لوگ آذادی اور خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ہم معاہدہ کراچی کے ذریعے بیچ دیئے گئے ۔اس صورتحال نے قابض کے منصوبے کے عین مطابق مایوسی اور نفرت کو جنم. دیا۔ جو آج کھل کر سامنے آ رہی یے اور اسکے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں آج جب انکو صوبہ بنانے کی بات ہو رہی ہے تو ہم پھر سے جزباتی ہونا شروع ہو گئے ہیں ” بچہ بچہ کٹ مرے گا ۔گلگت صوبہ نہیں بنے گا” یہ نعرہ بھی لاشعوری طور پر مزید نفرت کا سبب بن رہا ہے ” وہ کہتے ہیں تم خود بہتر سالوں سے سٹیٹس انجوائے کر رہے ہو ۔تمہارے پاس صدر بھی ہے وزیراعظم بھی ہے۔عدالت عالیہ بھی ہے اور ہمارے صوبہ بننے کی مخالفت کر رہے ہو لہذا تم ہی ہمارے سب سے بڑے دشمن ہو ۔اور یہی دراصل ہماری ریاست کے ازلی دشمن کا منصوبہ بھی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں اس پر خاموش رہنا چاہیے؟ حمایت کرنی چاہیے یا مخالفت کرنی چاہیے؟؟؟
نہ ہمیں خاموش رہنا چاہیے ۔نہ اس عمل کی حمائیت یا مخالفت کرنی چاہیے بلکہ ایک واضع دو ٹوک اجتماعی موقف لیکر انکے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔وہ موقف یہ ہے کہ مسلہ جموں کشمیر کے حتمی حل تک گلگت بلتستان کو مکمل داخلی خود مختاری ( دفاع ،کرنسی اور خارجہ امور کے علاوہ) کے ساتھ آذاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے ، وہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال کیا جائے ، دونوں خطوں پر مشتمل ایک مشترکہ پارلیمنٹ تشکیل دی جائے اور ریاست کی اکائیوں کو ملانے والے تمام قدرتی راستے کھولے جائیں۔ یاد رکھیں پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنا بھی لے پھر بھی یہ اسکو ہضم نہیں کر پائے گا اسکی وجہ کوئی ہماری طاقت یا انقلابی کردار نہیں ہو گا بلکہ صوبہ بنا کر بھیانکو حقوق نہیں دیے جائیں گے بلکہ انکے وسائل کی مزید لوٹ مار کی جائے گی جس سے وہاں احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا نفرتیں جنم لینگی لیکن اب کی بار ان نفرتوں کا رخ کشمیر یا آزاد کشمیر کے بجائے برائے راست ریاست پاکستان کی طرف ہو گا۔تب انکے پاس ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ راستہ ماضی کی طرف پلٹنے کا راستہ ہو گا۔ وہی جدوجہد ریاست کی بحالی حقیقی جدوجہد ہو گی ۔ تب تک وادی کشمیر والوں کو بھی پیار کا بخار مکمل طور پر اتر چکا ہو گا، جموں اور لداخ والے ویسے بھی کسی جرم میں شریک نہیں اور ہم پہاڑیوں نے (آزاد کشمیر) اگر ان سے معافی مانگ کر اپنا بیانیہ درست کر لیا تو دنیا کی کوئی طاقت بھی ایک بار پھر ریاست کو متحد ہو کر بحال ہونے سے نہیں روک سکتی اور اگر ایسا نہ ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے وجود کو تحلیل ہونے سے نہیں روک سکتی۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More