محمد علی جناح پر پی ایچ ڈی پر کیوں پابندی ہے ؟ تحرير: ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہانپوری
اگر مندرجہ ذیل دُشمنوں اور جناح مخالف کا سب افواہیں اور جھوٹا پراپیگنڈا ہے تو اس پر تو اور تحقیقاتی کام ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ نہ کہ برصضیر کے ایک عظیم لیڈر پر آذادانہ تحقیق کرنے پر پابندی لگا دی جائے ۔
پاکستان میں مسٹر محمد علی جناح کو سرکاری طور پر قائد اعظم کہا جاتا ہے، آپ کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، آپ کی تصاویر دفاتر میں آویزاں نظر آتی اور نوٹ پر چھپتی ہیں۔
تحریک آزادی کے آغاز سے انجام تک جو بھی سیاسی و مذہبی شخصیات گزری ان پر تنقید ہوئی، الزامات لگے، تہمتیں لگائی گئیں، کچیڑ اُچھالے گئے لیکن محمد علی جناح کے خلاف کہی ان کہی کے جو ڈھیر لگا دیے گئے ہیں ان کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ روزنامہ نوائے وقت نہایت سنجیدگی اور استقامت سے جناح کے دفاع کو فرض سمجھ کر محاذ جنگ پر ڈٹا ہوا ہے لیکن ان پر ترجیح پاکستان کے مفاد اور تاریخ کو حاصل ہے، محمد علی جناح کی ذات پاکستان کے مفاد اور تاریخ کی اہمیت کے بعد آتی ہے۔
پاکستان میں تین کتابوں پر پاپندی لگائی گئی؛ دوارکا داس کی کتاب رتی جناح، ایم سی چھاگلا کی کتاب روزز ان دسمبر اور اسٹینلے وولپرٹ کی کتاب جناح آف پاکستان شامل ہے۔
محمد علی جناح کی اہم تاریخی تقریر جو اُنہوں نے سول میرج کے موضوع پر اور مسلمانوں پر بھی اس کے اطلاق کے باب میں لیجسلیٹو کونسل میں کی تھی اس تقریر پر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، ہندستان کے تینوں مکاتب فکر کے علماء کی رائے اس وقت سے آج تک ایک ہی رہی ہے۔ اُس وقت جناح کی تقریر پر شدید رد عمل ہوا تھا۔
اس میں قانون کی یہ دفعہ بھی تھی جس میں رشتہ ازدواج کے دونوں خواہش مندوں کو یہ اعلان و اعتراف کرنا پڑتا تھا کہ ان کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے اور کسی اور کا جو بھی عقیدہ ہو اس سے علمائے اسلام کوکوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی تھی لیکن مسلمانوں کے بارے میں یہ بات نہ تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ کوئی مسلمان بشمول شیعہ اثنا عشری بہ قائمی ہوش و حواس اسلام کی نفی اور اس سے بے تعلقی کا اظہار ہرگز نہیں کرسکتا تھا۔ کسی ڈیکلریشن پر خاموشی کے ساتھ دستخط کر دینے کے بعد بھی کوئی مسلمان مسلمان نہیں رہ سکتا تھا۔
محمد علی جناح اور رتن بائی نے عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے اپنے مذاہب سے انکار کیا تھا اور ڈیکلریشن پر دستخط کیے تھے۔
محمد علی جناح پر متعدد کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں لیکن ان کے مصنفین کے پیش نظر اپنا مفاد رہا ہے ان کے سامنے وقت کے تقاضوں، سوانح حیات کی قومی ضرورت و اہمیت، تاریخ و سوانح کے فن کی پاپندی کی اہمیت کا کوئی تصور نہ تھا۔ ماضی میں جو کتابیں لکھی گئیں مصنفیں اپنے شوق یا ضرورت سے ایک کتاب لکھ دیتے، محمد علی جناح پر لکھی کتاب کا سکہ چل رہا تھا گویا اسے ہی موضوع بنا لیا جاتا۔
در حقیقت محمد علی جناح کی شخصیت اور سیرت میں کوئی ایسی خوبی تھی ہی نہیں کہ ان پر کوئی سوانح نگار قلم اُٹھاتا۔
محمد علی جناح کی شخصیت کا پس منظر، ان کا خاندان، ان کے بزرگ، ان کا بچپن، ان کی تعلیم، اساتذہ، دوست، ان سے تعلقات، دلچسپی کے پہلو، ان کے کھیل، ان کے سماجی، تعلیمی، تہذیبی پہلو، ان کا مطالعہ، ان کی تفریحات، تجربات، مشاہدات، ان کی عادات، اطوار، ان کی ملن ساری، احباب نوازی، مذہبی، علمی، اخلاقی، مسلمانوں اور اسلام دُشمنی اور ان کے پس منظر کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو بچوں کو پڑھایا جائے اور ان میں موضوع علیہ شخصیت کی پیروی اور ان جیسا بننے کا شوق پیدا ہو۔
اس دُنیا میں ایک ہستی ایسی تھی جو ان سے متاثر ہوئی، ان کے عشق میں مبتلا ہوئی، اپنے ماں باپ کو چھوڑا، ان کی زوجیت کو قبول کیا لیکن جب شوہر کے حق ازدواج ادا کرنے کا وقت آیا تو اُس نے بیوی کو مایوس کر دیا۔ وہ ایک ہسپتال میں شوہر کو یاد کرتے ہوئے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔
محمد علی جناح برطانیہ سے لوٹے تو ممبئی سے قسمت آزمائی کے شوق میں بیمار باپ کی اس خواہش کو کہ وہ کراچی سے پریکٹس کا آغاز کریں، وہ ان کے پاس رہیں اور خاندان سے دور نہ ہوں، ٹھکرا کر اور ایک بہن کو ساتھ لے کر ممبئی چلے گئے، پھر کبھی پلٹ کر نہ باپ کو دیکھا اور نہ خبر لی کہ وہ کب تک جیئے اور کب مر گئے اور نہ ان کے پیچھے خاندان کی خبر لی۔
کئی اہل قلم اور مصفین نے محمد علی جناح اور ان کی سیاست کو مسلمانوں کی دوستی اور دُشمنی کے پلڑوں میں رکھ کر تولا ہے۔ مصنفین نے اپنی اپنی کتابوں میں ادھوری سچائی لکھی مکمل سچ لکھنے سے گریز کرنے کے باعث محمد علی جناح کی شخصیت مسخ ہوتی چلی گئی۔ پاکستان کی جنگ اس اُصول پر لڑی گئی کہ ہندستان میں ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں۔ دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ یہ دونوں مل کر ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں گویا پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ لگایا گیا۔
لیکن محمد علی جناح نے جو پاکستان کے بانی مبانی اور ترجمان تھے اور اسی خصوصیت کی بناء پر وہ پاکستان کے گورنر جنرل اور دستور ساز اسمبلی کے صدر بھی بنے تھے اپنی پہلی پالیسی تقریر میں ان دونوں باتوں کی نفی کر دی۔
پاکستان کے نظریے میں اگر کوئی فلسفہ اور مقصدیت تھی تو وہ ختم ہوگئی۔ یہ کہہ کر یہ کہ یہاں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی قومی اور مذہبی امتیاز نہیں ہوگا، اور ان کے مذہبی معاملات میں ریاست مداخلت نہیں کرے گی محمد علی جناح نے ایک تقریر سے ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنا دیا تھا۔اسمبلی کے اجلاس میں کئی نامور علماء بیٹھے تھے انہیں پتا بھی نہ چلا کہ پاکستان کے نظریے کی کایا پلٹ ہوگئی تھی۔
محمد علی جناح اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ اُنہوں نے لیاقت علی خاں کے ہاتھ سے ایجنڈا لے کر دیکھا تو فہرست میں ” تلاوت قرآن مجید تھی، جسے اُنہوں نے قلم زد کر دیا تھا اس لیے کہ یہ مسلم لیگ کا جلسہ نہیں تھا ایک سیکولر اسٹیٹ کی پیدائش کے اعلان کی رسم ادا کی جارہی تھی۔
اس بیان سے ہمارا مقصد کسی کے خلاف غلط اور انتہائی غلط، نہایت شرمناک برتاؤ کا شکوہ نہیں، بلکہ اس شخص کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار ہے جو سونے میں تولا گیا تھا جس کی گاڑی کھینچی گئی تھی، جسے کندھوں پر اُٹھایا گیا تھا، جسے مقدس بزرگوں اور پیغمبروں کا درجہ دیا گیا تھا اور جس کی فضیلت کے افسانے اور نظمیں لکھی گئی تھیں۔
محمد علی جناح کے ساتھ اس کے جیتے جی جو بے وفائی کی اس کی اطاعت سے گریزاں ہوئے اس کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کیا، جب وہ مرکزی شہر کی ایک سڑک پر گندگی کے ڈھیر کے پاس زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا تو اسے بابائے قوم بنانے والے اس کے عقیدت مند، شیدائی، اس کے احسان مند اس کی موت کی خبر کے انتظار میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کی مجلس میں شراب کے جام لنڈھا رہے تھے۔
مورخ، پاکستان کے تاریخ داں تاریخ کی کتابوں پر محمد علی جناح کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر لکھنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ محمد علی جناح پر جو لٹریچر اُردو میں میری نظر سے گزرا ہے۔ اس میں علمی و فنی لحاظ سے بہت غیر معیاری مواد ہے۔ ان کے سوانح میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ محمد علی جناح ایک سپاٹ شخصیت کے مالک تھے، گجراتی ان کی مادری زبان تھی، انگریزی اُنہوں نے سیکھی تھی، اُنہیں انگریزی بولنے پر عبور تھا، اُردو میں گفتگو اور تقریر سے گریزاں رہتے تھے، لکھنے کا اُنہیں کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔
عربی، فارسی سے وہ بالکل نابلد تھے، مطالعہ کا انہیں شوق نہ تھا، قانون کے سوا دیگر علوم یعنی تاریخ، فلسفے، شاعری، تحقیق، تنقید، مذہب وغیرہ سے ان کے شوق اور مطالعہ کے ذوق کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
اسلامی فقہ سے ان کے تعلق کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے، انگریزی میں چھٹی جماعت میں پڑھنے کا ذکر ملتا ہے، پاس ہونے کا نہیں، قانون میں نہ ان کے پاس اُونچے درجے کی ڈگری تھی اور نہ وہ خود صف اول کے ایڈوکیٹ تھے، ہندستان میں ان کے ہارے جانے والے مقدمات کی تعداد ان کے جیتے ہوئے مقدمات سے زیادہ ہے۔ان کا ایک مقدمہ بھی بطور نظیر قانونی بحث میں حوالے کے لیے موجود نہیں ہے۔
محمد علی جناح نے اپنی زندگی میں سیاسی جدوجہد کی مگر وہ جمہوری انداز فکر اور سیاسی طرز عمل نہ اپنا سکے، اُنہوں نے ایک خاص مسئلے میں اپنی رائے کے مطابق عمل نہ ہوتے دیککھ کر سندھ کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا اور دوسری حکومت قائم کر کے اپنی منشاء کے مطابق فیصلہ کروا لیا تھا ایک منتخب حکومت کا توڑ دینا اور ایک نامزد وزیر اعلیٰ سے اپنی منشاء کا فیصلہ کرا لینا ان کے شایان شان نہیں تھا۔
اس سے پہلے محمد علی جناح نے صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کے گورنر کو حکم دیا کہ وہ صوبے کی حکومت ڈس مس کر دے گورنر کو اختیار ہوتا ہے کہ گورنر جنرل کے حکم اور اشارے کے بغیر صوبائی حکومت کو توڑے لیکن اس کے لیے قانونی جواز کی ضرورت ہوتی ہے جو موجود نہیں تھا۔ سرحد کے گورنر نے حکومت توڑے جانے پر لکھا کہ گورنر جنرل پاکستان کے حکم سے سرحد کی حکومت کو توڑا جاتا ہے۔
صوبائی حکومتوں کو نہ تو گورنر جنرل نے اعتماد میں لیا تھا نہ وزیر اعظم نے اس کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا برتاؤ کیا تھا۔ سندھ کی انٹیلی جنشیا حیرت زدہ تھی کہ گورنر جنرل پاکستان سندھ میں کھوڑو حکومت سے، پنجاب میں افتخار ممدوٹ حکومت سے، سرحد میں ڈاکٹر خان کی حکومت توڑ کر، بلوچستان کو آزاد صوبائی حکومت کے قیام کے بجائے گورنری نظام کے حوالے کر کے، ریاست بہاولپور کو ڈرا کر، قلات ریاست کو فوجی ایکشن کر کے بلوچستان کی لسبیلا، خاران، مکران اور سرحد میں دیر، چترال اور سوات کی ریاستوں پر قبضہ کر کے وہ پاکستان کی تعمیر کر رہے ہیں؟
یا پھر کھوڑو اور سندھ کے قوم پروروں سے پنجاب کے یونینسٹوں سے یا سرحد کے خدائی خدمتگاروں سے یا بلوچستان کے حریت پسندوں اور خان عبد الصمد خاں اچکزائی، نامور نیشنلسٹ سے انگریزی دُشمن کا، سہرودری سے کسی خطرے کی بناء پر، نواب قلات احمد یار خان سے تعلقات نبھانے میں کسی غلطی یا عقیدت و اظہار نیاز مندی میں کسی غفلت کی وجہ سے، ان تمام حضرات سے انتقام لیا جارہا ہے۔؟
تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی کیوں نہیں بتایا جاتا کہ محمد علی جناح نے دہلی میں اپنی کوٹھی کی فروخت کے لیے جواہر لال نہرو سے رابط کیا اور اس کوٹھی کو مہنگے داموں فروخت کرانے کی درخواست کی جس پر نہرو نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اپنی باقی زندگی ممبئی میں جاکر گزارنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ محمد علی جناح کی شخصیت کا یہ پہلو اُس سے قطعی طور پر متضاد ہے جس جناح کے بارے میں پاکستان میں تبلیغ کی جاتی ہے۔
تین جون اُنیس سو سنتالیس کے تقسیم ہند پلان کے دستخط کے بعد محمد علی جناح نے کانگریس اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے کی مہلت مانگی تھی جسے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اب وہ وقت گزر گیا ہے۔
اس خطے میں قوم پرستی کو فرقہ پرستی میں مسلم لیگ کی سیاست نے بدلا جس کی لپیٹ میں آج کا پاکستان ہے۔ مسلم لیگ کی سیاست سے اس خطے کی سب سے بڑی اقلیت کو زبردست نقصان پہنچا، انہیں ایک ناقابل تصور تباہی سے گزرنا پڑا اور پاکستان کے قیام میں آجانے کے بعد یہاں تاحال مستحکم نظام قائم نہیں ہوسکا۔ آج سندھ، بلوچستان، سرحد اور پنجاب جن مسائل سے دوچار ہیں ان کا بڑا حصہ محمد علی جناح کا پیدا کردہ ہے اگر یہ سب افواہیں اور جھوٹا پراپیگنڈا ہے تو اسے ثابت کیا جائے اور اس کے بعد ہمیں توجہ کرنی چاہیے اور محمد علی جناح کی خدمات سے ہرگز انکار نہیں کرنا چاہیے۔
(ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہانپوری جناح سیاست اور شخصیت کی کتاب کے مصنف اور بطور محقق اپنی پہچان رکھتے ہیں)۔
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More