Main Menu

تنویر احمد کیس : ایک موقع جوضائع ہوگیا؛ تحرير: یونس تریابی

Spread the love


تنویر احمد کی غیر مشروط رہائی کی تحریک یا اُن کے ریاستی شکنجے میں پھنس جانے کے راستے کا سوال بہت اہم ہے اور ضروری بھی مگراُن کی قانونی لڑائی میں ہمیں اپنی رائے دینے کا ایک موقع مل رہا تھا جو ہمارے آزادی پسندوں کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ضائع ہو گیا ہے لیکن اسے آخری موقع نہیں سمجھنا چاہیے۔ہمارے اپنے ذاتی تجربے اور رائے کے مطابق “تنویر احمد کی غیرمشروط رہائی اور ان پر تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی” کے مطالبے کو منوانے کے لئےعوامی تحریک کو ٹھوس بنیادوں پر منظم کرنے کا کام تنویر احمد کی گرفتاری کے فوراّ بعد پہلے دن سے ہی اور کم از کم تین نکات کی بنیاد پرشروع ہو جانا چاہیے تھا۔ ایک تنویر احمد کی رہائی کے لئے ایک ایسی کمیٹی کا قیام جس کی قیادت پر تنویر احمد کا اعتماد حاصل کرنا یقینی ہو۔دوسرا تنویر احمد کی قانونی لڑائی اور عوامی تحریک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا۔ اور تیسرا تنویر احمد کے اعتماد کا ایک ایساوکیل جو تنویر احمد اور اُن کی رہائی کی کمیٹی کے درمیان لیژاں یا رابطے کا کردار ادا کرسکے۔اس تکونی عوامی تحریک کی فوری ضرورت اور پہلےکام کی طرف کسی نے کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ یہ کام تنویر احمد کے قریبی اور بااعتماد سیاسی ساتھیوں یا اُن آزادی پسندوں کے کرنے کا تھا جو اُن کی بھوک ہڑتال کے دوران اُن کا حوصلہ بڑھا رہے تھے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر اُن کا ساتھ دینے کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ان میں سے کافی مخلص مگر ناتجربہ کار لوگ تنویر کی گرفتاری کے بعد بھی اپنی نعرے بازی کی سیاست اور تربیت کے مطابق صرف نعرے ہی بلند کرتے رہے۔جبکہ کحچھ لوگوں نے مہم جوئی و انفرادیت پسندی کے خطرات اور عوامی و انقلابی جدوجہد کے تقاضوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر ایک طریقے سے تنویر اور اس کی فیملی کے خلاف ریاستی جبر کی شدت کو کم کرنے کی نفسیاتی کوشش بھی کی ہے۔راقم نے ڈڈیال کے ایک محب وطن سیاسی کارکن اور معروف لوک فنکار اخمد ڈار اور کشمیری ورکرز ایسوسی ایشن (برطایہ) کے سابق چیئرمین اور ایسوسی ایشن آف برٹش کشمیریز کے رہنما شفق حسین کی خواہش پر تنویر کی رہائی کے لئے عوامی تحریک کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ایک کوشش کی مگر یہ گیارہویں گھنٹے کی کوشش تھی اور وقت بڑی تیزی سے ہمارے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔راقم کی معلومات کےمطابق عبدالقیوم راجہ وہ واحد شخص تھا جن کا اسیر تنویر احمد اور ان کے وکیل اور انتظامیہ کے ساتھ رابطہ تھا اور سب سے بڑی اور بنیادی بات یہ کہ قیوم راجہ کو تنویر احمد کا پورا اعتماد بھی حاصل تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے پاس کسی کمیٹی کے لئے تنویر احمد کا اعتماد حاصل کرنے اور قانونی اور عوامی تحریک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے تنویر کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ یا چابی صرف عبدالقیوم راجہ ہی تھے۔ان حالات میں عبدالقیوم راجہ کا تنویر احمد کی رہائی کے لئے کمیٹی کے قیام کی تجویز پر پہلے خود راضی ہونا ضروری تھا اور وہ راقم کی تجویز پر تنویر احمد کے گھر ہمارے ساتھ ایک میٹنگ کرنے اور اس میٹنگ میں تنویر احمد کی رہائی کے لئے ایک کمیٹی کے قیام کے لئے نا صرف راضی ہوگئے بلکہ قیوم راجہ نے برطانیہ میں اپنی رہائی کی فراق مہم کے ایک واقع کا ذکر کرتے ہوے یہ شرط بھی رکھی کہ آخری فیصلہ کرنے کا اختیار تنویر احمد کو ہی حاصل ہوگا۔ ہم نے قیوم راجہ کی یہ اصولی شرط منظور کرلی مگر کمیٹی بن جانے کے بعد غیر ضروری بحث کے باعث فوری طور پرختم بھی ہوگئی۔اس پر فعل حال بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ تنویر کیس میں مختلف خیالات اور تجربات رکھنے والے لوگوں کے درمیان اتحاد یا اس کے لئے دروازہ کھُلا رکھنے کی ضرورت موجود ہے۔البتہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مذکورہ تین نکات کی بنیاد پر تنویر احمد کی رہائی کے لئےکمیٹی کے قیام میں ہماری ناکامی سے انتظامیہ کے سامنے تنویر احمد کی حمایت میں ٹھوس قسم کی عوامی حمایت کا دروازہ بند ہو گیا اور یہ تنویر احمد کے سامنے اُن کی قانونی لڑائی میں اپنا نقطہ نظر رکھنے کا ہمیں ایک اچھا موقع مل رہا تھا جو ہمارے آزادی پسندوں کی ناتجربے کاری کی وجہ سے ضائع ہو گیا اور اس سے انتظامیہ ہی کو فائدہ پہنچا ہے۔اس کا کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی کو کسی کا آلہ کار کہا جائے بلکہ تنویر احمد کی رہائی کے لئے کمیٹی کے قیام کے لئے ہماری اس کوشش کی ناکامی کے لئے کسی ایک شخص کو ذمہ دار ٹھہرانا بھی شاید درست نہ ہو بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ڈڈیال میں ایک تربیت یافتہ اور تجربہ کار آزادی پسند قیادت کے فقدان کے باعث ہمیں اپنی اس کوشش میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اگر ڈڈیال میں ہماری کوئی تربیت یافتہ اور تجربے کار آزادی پسند قیادت ہوتی تو یہ کام پہلے دن سے ہی شروع ہو جاتا اور قیوم راجہ جیسے تنویر احمد کے بااعتماد شخص کے ذریعے تنویر تک پہنچنے اور قیوم راجہ کے کردار کے مثبت پہلووّں سے استعفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔

تنوير احمد پاکستانی پرچم اتارنے کے جُرم ميں گرفتار ہے

اگر تنویراحمد کے گھر یہ ابتدائی سطح کی کمیٹی بن کر نہ ٹوٹتی تو عبدالقیوم راجہ اس کمیٹی کو اپنے اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے اور کمیٹی کے سامنے وہ صورت حال رکھنے کے پابند ہو جاتے جو قانونی لڑائی کے حوالے سے اُن کے اپنے اور تنویر احمد کے مابین تھی۔پھراس معلوم صورت احوال کی بنیاد پر کمیٹی اپنا نقطہ نظر پیش کرتی جس سے تنویر احمد کو عدالت میں پیش ہونے سے پہلے آگاہ کرنے کی کوشش کی جاتی اور اس سے کسی بہتر نتیجے کی توقع کی جاسکتی تھی۔ یہاں ایک اور بات کا ذکرضروری ہے وہ یہ کہ ریاستی جبر اور تشدد کے خلاف مظلوم لوگوں کی قانونی لڑائیوں کی نوعیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی اور ان لڑائیوں میں ٹھوس قسم کی عوامی مداخلت اور حمایت کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ہم نے قیوم راجہ کی ٹیم کو مقبول بٹ شہید کا قاتل ثابت کرنے کی کوشش کرنے والوں کو قیوم راجہ سے جیل میں بطور ہمدردی ملاقاتیں کرتے دیکھا ہے۔اس مقصد کے لئے مخصوص حالات میں قانونی لڑائیوں کی بدلتی ہوئی نوعیت اور ان کے مثبت پہلووّں پر نظر رکھنا پڑتی ہے اور درست وقت پر درست فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *