Main Menu

سسکتی، مرتی فلسطینی عوام اور سامراجی کردار تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ

Spread the love

فلسطین ایک بار پھر آگ اور خون سے لت پت ہے اور ہر طرف انسانی لاشیں نظر آ رہی ہیں۔ سات اکتوبر کو شروع ہونے والے جنگی جنون کے بعد فلسطینی سرزمین بالخصوص غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جانب سے مسلسل بمباری ہو رہی ہے اور شہری آبادیاں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ کل امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی جنگ بندی کی قرار داد کو ایک بار پھر ویٹو کر دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک اسرائیل کی پُشت پر کھڑے ہیں اور اُس کو جدید اسلحہ کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ اسرائیل کی بحریہ اور فضائیہ نہتے فلسطینی عوام پر تواتر سے بم برسا رہی ہیں۔ امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک سے اسلحہ بھرے جہاز اسرائیل پہنچ رہے ہیں اور جدید اسلحہ سے لیس امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی آبدوزیں و بحری بیڑے علاقے میں پہنچ چکے ہیں، تا کہ اسرائیل کو تحفظ بھی فراہم کیا جا سکے اور کسی دوسرے ملک کو فلسطینیوں کی مدد کو آنے سے روکا بھی جا سکے۔ دو روز قبل غزہ کے الاحلی بیپٹسٹ ہسپتال پر حملے کے بعد ایک ہی روز میں غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 687 سے تجاویز کر گئی ہے۔ دس روزہ اسرائیلی حملوں سے اب تک 3478 فلسطینی شہید اور 12000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ آج یہ بھی خبریں چل رہی ہیں کہ غزہ کے مزید ہسپتال اسرائیل کے نشانے پر ہیں اور اب القدس، الشفا ہسپتال اور ہلالِ احمر کے ہیڈ کوارٹر کے قریبی علاقوں پر اسرائیلی بنباری ہو رہی ہے۔
اسرائیلی افواج نے حالیہ مہینوں میں متعدد بار جنین میں پناہ گزین کیمپوں میں مقیم فلسطینیوں پر حملے کئے اور انہیں سرِعام ذبح کرتی آ رہی ہے۔ حملوں کی حالیہ لہر سے ایک ہفتہ قبل جنین پر ہونے والا حملہ دو دہائیوں میں مقبوضہ مغربی کنارے میں سب سے بڑا اسرائیلی حملہ تھا، جِس میں درجنوں ہلاک و زخمی اور ہزاروں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں فلسطینی جنگجوؤں کی جانب سے سات اکتوبر کی کاروائیوں نے نہ صرف اسرائیل بلکہ مغربی دُنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ مغربی حمایت یافتہ اسرائیلی بربریت کے خلاف فلسطینی عوام کی مزاہمت ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور ہمہ گیر جبر و دھشت کے ماحول میں مسلحہ گروپ پنپتے رہتے ہیں۔ فلسطینی جنگجوؤں کے اس حملے کے بعد اسرائیل کے سامراجی آقاؤں اور اتحادیوں نے فوری طور پر اسرائیل کی حمایت کا اعادہ کیا، چاہے اُس کی انسانی قیمت کچھ بھی ہو۔ پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن نے فوری وعدہ کیا کہ امریکہ اسرائیل کو ہر وہ ہتھیار فراہم کرے گا جو اُسے اپنے دفاع کے لیے درکار ہوں گے۔ ادھر برطانیہ میں ٹوری سیکرٹری خارجہ جیمز کلیورلی نے کہا ہے کہ برطانیہ ہمیشہ اسرائیل کے دفاع کے حق کی حمایت کرے گا اور اس کی مدد کوپہنچے گا۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ اب ظلم حد سے بڑھ گیا ہے اور اُن کے پاس مذاھمت کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا اور یہ ان کی سرزمین پر آخری قبضے کو ختم کرنے کی سب سے بڑی جنگ کا نقطہٗ آغاز ہے۔ اس گروپ نے مسلح ڈرون، موٹر سائیکلوں پر سوار جنگجو اور پیراگلائیڈرز کو پٹی کی سرحد کے پار روانہ کیا، جنہوں نے اسرائیلی فوجی اڈوں اور چوکیوں پر دھاوا بول دیا۔ گذشتہ ہفتے کی صبح تقریباً دس بجے حماس کے جنگجوؤں نے 21 فوجی اڈوں پر قبضہ کر لیا تھا، اور وہاں اسرائیلی فوجیوں کو جنگی جرائم کے جرم میں قیدی بنا لیا تھا۔ اس کے علاوہ سدروٹ شہر میں فلسطینی جنگجوؤں نے ایک پولیس اسٹیشن پر قبضہ کر کے اسے آگ لگا دی۔ ان فلسطینیوں نے غزہ کی پٹی کو اسرائیل سے الگ کرنے والی باڑ کو بھی بلڈوز کر دیا۔ دوپہر تک اسرائیلی نیوز چینلز کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ فلسطینی مزاحمتی جنگجوؤں نے غزہ کی سرحد پر تمام غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کو موٗثر طریقے سے کنٹرول کیا اور انہوں نے اسرائیلی قبضے کی جنوبی کمان کے ہیڈ کوارٹر پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس ابھرتی ہوئی صورتِ حال سے بکھلا کر اسرائیلی طیاروں اور بحریہ نے غرہ کی پٹی پر اندھادھند بمباری شروع کر دی، جِس سے ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہری، جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین شامل تھے شہید و زخمی ہو گئے۔ اسرائیل کے ہوائی اور بحری جہازوں کی بمباری کا سلسلہ سات اکتوبر سے مسلسل جاری ہے جسے امریکی سامراج، یورپی یونین اور دیگر سرمایہ دار دُنیا اور ان کے زیر اثر ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور وہ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ بمباری کو جائز قرار دے رہے ہیں۔
تاریخِ انسانی پر نظر ڈالیں تو فلسطین پر ہمیشہ سے ہی متعدد گروپوں نے حکومت کی ہے، جن میں آشوریوں، بابلیوں، فارسیوں، یونانیوں، رومیوں، عربوں، فاطمیوں، سلجوق ترکوں، صلیبیوں، مصریوں اور مملوکوں سمیت شامل ہیں۔یسوع کے زمانے میں فلسطین رومی سلطنت کا حصہ تھا، جِس نے اپنے مختلف علاقوں کو کئی طریقوں سے کنٹرول کیا۔ تقریباً 1517ء سے 1917ء تک سلطنت عثمانیہ نے اس خطے کے زیادہ تر حصے پر حکومت کی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بالفور ڈیکلریشن (اعلامیہ) پر دستخط کئے، جِس کے تحت عثمانیوں کے زیرِ کنٹرول فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری، یا پھر اُن کے قومی گھر کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔ یہ برطانوی سرکار کی جانب سے مفادات پر مبنی ایک ایسا عہد تھا جِس نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی راہ ہموار کی اور خطے کو ہمیشہ کے لیے جنگ کا میدان بنا ڈالا۔ اس سے قبل فلسطین ایک چھوٹی اقلیتی یہودی آبادی پر مشتمل عثمانی علاقہ تھا۔ جب 1918ء میں پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی تو برطانوی سامراج نے اپنے نوآبادیاتی تسلط کو وسعت دیتے ہوئے 18-1917ء کے دوران سلطنتِ عثمانیہ سے فلسطین کو چھین لیا۔ اسی جنگ کے بعد فلسطین میں لیگ آف نیشنز مینڈیٹ کے نام پر 1948ء تک برطانوی راج مسلط رہا۔ بظاہر تو دیگر کالونیوں کے برعکس اس مینڈیٹ کا مقصد مقامی آبادی کو خود مختار حکومت اور آزادی کے طرف لے جانا تھا، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی اور خطے کے وسائل کا استحصال کرنے کے علاوہ فلسطین پر یہودیوں کو مسلط کرنے اور خطے کو اس حال تک پہنچانے میں برطانیہ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
برطانوی نوآبادیاتی تسلط کے تحط فلسطین بحران کا پہلا مرحلہ 2 نومبر 1917ء سے 19 اپریل 1936ء تک رہا کیونکہ یہودی قوم پرستوں نے 2 نومبر 1917ء کو برطانوی حکومت کی طرف سے اعلان بالفور کے اجراء کے بعد فلسطین میں یہودی ریاست کے لیے جدوجہد شروع کر دی تھی۔ اگلی دو دہائیوں کے دوران ایک لاکھ (100000) سے زیادہ یہودی ملک میں داخل ہوئے۔ اس عرصے کے دوران فلسطین میں برطانوی فوج کی کاروائیاں بنیادی طور پر ان عسکریت پسند عرب گروپوں کے خلاف تھیں جو بڑے پیمانے پر یہودیوں کی نقل مکانی کے خلاف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے تباہ کاریوں اور متحارب یہودی اور عرب افواج کو الگ رکھنے پر آنے والے اخراجات سے تنگ آ کر انگریز سامراج نے 1948ء میں خطے کو چھوڑ کر واپس جانا ہی غنیمت سمجھا، اور اپنی سامراجی نوآبادیاتی روایت کے مطابق خطے کو ہمیشہ کے لیے متحارب گروپوں کی جنگ کا مرکز بنا کر چلتے ہوئے۔ اسرائیل کی اپنی ریاست 15 مئی 1948ء کو قائم ہو گئی اور اسے اقوام متحدہ میں شامل کر لیا گیا۔ لیکن سامراجی سازشوں کی بدولت فلسطینی ریاست قائم نہ ہو سکی۔ 1948ء سے پہلے کے فلسطین کے باقی ماندہ علاقے، مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی بالترتیب 1948ء سے 1967ء تک اردن اور مصر کے زیرِ انتظام تھے، جبکہ یروسلم، عبرانی یروشلم، عربی بیت المقدس یا القدس، مشرقِ وسطیٰ کا قدیم چہرہ ہے، وہ 1967ء سے مکمل طور پر اسرائیل کی ریاست کے زیرِ تسلط ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں برطانوی راج نہر سویز سے خلیج فارس تک پھیلا ہوا تھا۔ 1956ء کا سویز بحران برطانوی (اور فرانسیسی) خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑی تباہی تھا، اور اس نے برطانیہ کو مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے ایک معمولی کھلاڑی بنا کر رکھ دیا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم اقدام 1956ء کے اواخر میں پہلے اسرائیل، پھر برطانیہ اور فرانس کی طرف سے مصر پر حملہ تھا۔
فلسطین میں مسلسل کشیدگی کی بنیادی وجہ غاصب اسرائیلی حکومتوں کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر دہائیوں کا طویل قبضہ، اُن کی بستیوں کو مسمار کرنے کی پالیسیاں اور اُن کی سرزمیں پر ڈاکہ، مغربی کنارے میں علیحدگی کی دیوار اور روزانہ ذلت، ہراساں کرنا اور قتل و غارت شامل ہے۔ عالمی سامراج کی پست پناہی میں کام کرنے والی اسرائیلی حکومتوں نے فلسطینوں کی ناکہ بندی، ہزاروں فلسطینیوں کو قیدخانوں اور ٹارچر سیلز میں ڈالا، سڑکوں پر رکاوٹیں، امتیازی سلوک اور فلسطینی عوام کو اُن کی اپنی ریاست کے ناقابلِ تنسیخ حقوق سے محروم کیا بھی شامل ہے۔ اس لیے یہ توقع رکھنا دانشمندی نہیں ہو گی کہ اس ظلم، جبر، ناانصافی اور قبضے اس خطے میں فلسطینی عوام کے ردِ عمل کو جنم نہیں دیں گے۔ وہ بلا شبعہ ان وحشیانہ مظالم اور جبروتشدد کے خلاف مذاہمت کا جائز حق رکھتے ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے۔ موجودہ اسرائیلی حکومت نے اپنی پیش رو حکومتوں کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اشتعال انگیزی میں مزید اضافہ کیا ہے اور غزہ کی پٹی میں لاکھوں فلسطینوں کی زندگیاں بُچر خانے اور کھلی جیل کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
خطے میں موجودہ مخاصمت کے خاتمے کا دارومدار بنیادی طور پر اسرائیلی حکومت پر ہے، جو فلسطینی غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری کر رہا ہے اور ان کی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کی مکمل ناکہ بندی کر کے پانی ، خوراک، ادویات کی سپلائی کو بند کر چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایک ہفتے سے فضائی اور بحری حملوں کے ذریعے مسلسل بارود برسایا جا رہا ہے، جبکہ اس کی بھاری اور وسیع تر ذمہ داری اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور اُن کے اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے، جو نہ صرف جاری قبضے، حملوں اور دیگر اقدامات کی حمایت اور توثیق کرتے ہیں بلکہ آج بھی “اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق” کے نام پر جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے اور منافقانہ رویہ اپناتے ہیں، جبکہ فلسطینی عوام کے ایسے کسی بھی حق کو سراسر نظر انداز کرتے ہیں۔
فلسطینی عوام کا اپنے گھروں کو باعزت واپسی کا حق بین الاقوامی قانون میں درج ہے اور یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے، جِس کی کسی بھی مہذب قوم کو حمایت اور بلا خوف مطالبہ کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس چونکہ جنگ میں ہمیشہ پروپیگنڈہ کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے اس لیے فلسطینیوں کو بدنام کرنے اور دھشت گرد ثابت کرنے کی عالمی سامراجی کوششوں کا بہت عمل دخل ہے۔ جب تشدد اور جھوٹے پروپیگنڈے کی انتہا ہو جائے تو امتیازی سلوک اور بھی سنگین شکل اختیار کر جاتا ہے۔ فلسطینی عوام کے شہری اور انسانی حقوق کو ایک ایسی حکومت نے چھین رکھا ہے، جو اپنی تازہ ترین شکل میں اور بھی انتہا پسند اور متعصب بن چکی ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک تو درکنار، انہیں تو انسان ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ اس لیے اس ظلم اور جھوٹ کا صحیح جواب ظالموں کے لیے پابندیاں اور مظلوموں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے مسلسل دباؤ ہو گا۔
فلسطین ایک نوآبادیاتی سرزمین ہے اور فلسطینی عوام محکومی اور جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایک انقلابی کارکن ہونے کے ناطے ہم اُن کے حقِ خود ارادیت اور قومی آزادی کے حق اور نوآبادیاتی قبضے کے خلاف لڑنے کے حق کا دفاع کرتے ہیں۔ راقم جیسے ترقی پسند سیاسی کارکن اسرائیل کی طرف سے تمام فلسطینی اراضی پر قبضے کے خاتمے، 4 جون 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، جِس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، کے اپنے مطالبے کا اعادہ اور اُس پر زور دیتے ہیں۔ ہم اسرائیلی جیلوں سے تمام فلسطینی سیاسی قیدیوں کی رہائی اور اقوام متحدہ کی قرارداد 194 کے مطابق تمام فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ قبضہ اور ناانصافی ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی اوع آخری فتح عوام کی ہو گی۔








Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *