Main Menu

سرمایہ داری کے ٹائی ٹانک کو ڈبونا ھو گا۔ :ذوالفقار احمد ایڈووکیٹ

Spread the love


1886سے قبل دنیا بھر کے محنت کشوں کی حالت زار قابل رحم اور ناگفتہ بہہ تھی مزدوروں سے یومیہ 18گھنٹے مشقت کروائی جاتی تھی جبکہ انکی چھٹی۔ صحت۔ پنشن۔ رہائش کی مشکلات۔ انکے بچوں کی تعلیم و دیگر ضروریات زندگی کا تصور تک نہیں تھا ۔ 1886میں امریکہ کی ترقی یافتہ صنعتی ریاست شکاگو میں مزدور تنظیموں نے بالادست طبقہ کیخلاف اپنے بنیادی حقوق کیلئے درج ذیل مطالبات کیلئے پرامن احتجاج کیا۔
1۔ مزدوروں کے اوقات کا یومیہ 8 گھنٹے مقرر کیا جائے
2۔ ہفتہ میں ایک چھٹی دی جائے۔
3۔ مزدوروں علاج معالجہ کی ذمہ داری لی جائے۔ اور دوران مشقت و ڈیوٹی کوئ مزدور اگر زخمی ہوتا یا مر جاتا ہے تو اسکا معقول معاوضہ ادا کیئے جائے۔
4۔ مزدوروں کے بچوں کی تعلیم کا بھی مناسب بندوبست کیا جائے۔
یہ سارے مطالبات گو کہ بالکل جائز تھے۔ اسکے باوجود حکمران ٹولہ نے پرامن اور ہاتھوں میں سفید پرچم تھامے مزدوروں کے اجتماع پر مسلح فورس نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جسکے نتیجے میں درجنوں محنت کش شہید ہو گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے شکاگو کی سڑکوں کے کنارے نالیاں انسانی لہو سے بھر گئی۔ اور محنت کشوں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے امن کا نشان سفید جھنڈوں کو اس خون سے سرخ کیا اور کہا کہ ھمیں یقین ہو گیا ھیکہ اپنے حقوق بالادست طبقہ کبھی بھی پرامن مطالبات کے ذریعے سے نہیں دیتا ہے بلکہ جائز حقوق کے حصول کی خاطر بھی آپکو خون کے دریا عبور کرنا ہوتے ہیں۔
شہدا شکاگو کے المناک واقعہ سے تقریباً 21سال قبل 1865میں ریاست جموں کشمیر میں بھی محنت کشوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی تو اسوقت کے مطلق العنان و شخصی حکمران نے انتہائی سفاکی و وحشت سے 28 مزدور راہنماؤں کے ہاتھ و پاؤں باندھ کر انہیں دریا برد کر دیا ۔
مہاراجہ پرتاب سنگھ کی حکمرانی کے دوران کشمیر کے ایک بڑے ریشم کے کارخانہ میں جہاں 5000سے زائد مزدور ساڑھے چار آنے یومیہ پر اپنے ہاتھوں کی مشقت فروخت کر رہے تھے نے معمولی سہولیات اور یومیہ اجرت کے اضافہ کیلئے پرامن احتجاج کیا جسے حکمرانوں نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مزدوروں کے 21 سرکردہ راہنماؤں کو گرفتار کر لیا دوسرے روز گرفتار شدگان و دیگر مزدوروں کی بیویوں و بچوں نے ملکر احتجاج کیا تو کشمیر کے گورنر پنڈت اننت رام نے مسلح جتھوں کے ذریعے سے نہتے لوگوں پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی چھوٹے بچوں و عورتوں پر گھڑ سواروں نے گھوڑے چڑھا دیئے جس سے سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ چار سو خوف و ہراس تھا البتہ اس احتجاج کا بھی محنت کشوں کو یہ فائدہ پہنچا کہ انکی یومیہ اجرت 6 انہ کر دی گئ۔
پیرس میں منعقدہ دوسری انٹرنشنل کانگرس 1889 میں محنت کش عوام کے عظیم انقلابی استاد فریڈک اینگلز کی تجویز پر یکم مئ کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا عہد کیا گیا اور فیصلہ کیمطابق پوری دنیا میں یہ دن شہدا شکاگو کی یاد میں انتہائ عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے اور واحد دن ہے کہ دنیا بھر میں چھٹی ہوتی ہے۔ یکم مئ کے معرکہ حق و باطل میں جام شہادت نوش کرنیوالوں میں ایک محنت کش راہنما اینجل تھا۔ جس نے پھانسی کے پھندے پر کھڑے ہو کر کہا تھا ۔
” سرمایہ دارو تم ھمیں ختم کر سکتے ہو لیکن تم ھماری تحریک کو کبھی ختم نہیں کر سکو گے ھماری تحریک تمھارے استحصالی نظام کیلئے موت کا پیغام ہے یہ تحریک اسوقت تک جاری رہے گی جب تک جبر و استحصال کا یہ دور ختم نہیں ہو جاتا۔”
اسی جدوجہد کا ایک سرفروش ایڈی فشر نے پھانسی کے پھندا کو چومتے ہوا کہا ۔
” یہ ھمارے لیئے باعث فخر ھیکہ ھم عظیم و مقدس فرض کیلئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔”
رابر راسٹ نے کہا کہ حاکمو۔
” تم ھماری زبانیں خاموش کر سکتے ہو مگر ھماری آواز نہیں دبا سکتے ہو یہ نہ ہی کبھی تم سے ختم ہو گی اور مستقبل میں مزید بلند ہو کر ابھرے گی بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں میں پھیلتی چلی جائیگی جس میں دیس دیس کے مزدوروں کی بھی آوازیں شامل ہو جائیں گی۔”
شہید سپارٹیز نے بھی پھانسی گھاٹ پر کھڑے ہو کر کہا کہ۔
“غاصبو۔ سرمایہ دارو۔ بالادست طبقات کے نمائندہ حکمرانو۔ غریب انسانوں کی آوازیں بلند ہونے دو انکو روکو گے تو انکی تلواریں بلند ہونگی اور محنت کشوں کی اٹھی ہوئ تلواروں کو دنیا کی کوئ طاقت جھکا نہیں سکے گی۔”
انہی عظیم قربانیوں کی بدولت آج دنیا بھر میں محنت کشوں کو کسی نہ کسی حد تک جو حقوق میسر ہیں حتی کہ دنیا بھر کے محنت کشوں کے مسائل و مشکلات کے حل کی خاطر اقوام متحدہ کو بھی ILO کا ادارہ قائم کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں دو ہی طبقات ہیں جن کے مابین صدیوں سے طبقاتی کشمکش کا عمل جاری و ساری ہے۔
ایک بالا دست طبقہ ہے۔
دوسرا زیردست طبقہ ہے۔
ایک پروثوا جبکہ دوسرا پرولتاری۔ ایک استحصالی طبقہ جبکہ دوسرا استحصال زدہ۔
سرمایہ دار و مزدور۔
جاگیردار و کسان و ہاری۔
یہ طبقاتی تضاد و کشمکش تب تک جاری رھے گی۔ جب تک طبقات کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہے۔
اس طبقاتی کشمکش میں محنت کش طبقہ کی پارٹی کا وجود بھی لازم ہے کیونکہ دنیا بھر میں 98 فیصد افراد کا تعلق محنت کش طبقہ سے ہی ہے وہ چاہے دھاڑی دار مزدور ہے۔ رکشہ چلارہا ہے۔ بس۔ ٹرین۔ چلا رہا ہے۔ بجلی۔ گیس۔ پانی کی سپلائی کیلئے کام کر رہا ہے یا وکیل۔ ڈاکٹر۔ انجینئر۔ پروفیسر ہے جو بھی اپنی محنت بیچ رہا ہے وہ مزدور ہے۔
پاکستان و پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کا المیہ یہ ھیکہ یہاں کا محنت کش طبقہ اپنے طبقہ کی نمائندہ پارٹی کے بجائے اپنے ہی طبقہ کے مخالف نمائندہ پارٹیوں کیلئے جان فدا کرنے کو تیار ہے یاد رکھیں کسی بھی طبقاتی۔ غیر مساویانہ۔ عوام دشمن نظام کو یکسر تبدیل کرنے کیلئے تین اہم و بنیادی عناصر کی ضرورت از حد ضروری ہے۔
1۔ انقلابی پارٹی۔
2۔ انقلابی نظریہ۔
3۔ انقلابی تحریک۔
انکے بنا آپ اندھیرے میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے نہ ہی ملک اور نہ ہی عوام کے حالات زندگی بدلنے والے ہیں۔
دنیا بھر کے محنت کشو۔
آج بھی دنیا بھر میں آپکے حالات 1886سے بہتر نہیں ہو پائے ہیں آپ آج بھی مٹھی بھر بالادست طبقہ کی نسبت دن رات محنت و مشقت کرنے کے باوجود بامشکل زندگی کا سانس برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر طبقاتی تقسیم کا یہ عالم ھیکہ دنیا کے تین سرمایہ دار دنیا کے 8 غریب ممالک کو خرید سکتے ہیں اور دنیا کے سات ممالک کے رقبہ سے زیادہ رقبہ شیل ملٹی نیشنل کمپنی کی ملکیت ھے اور یہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی 60فیصد دولت کے مالک 126افراد ہیں۔ اسی بنا پر آج پوری دنیا میں ہر سو اتھل پتھل ہے اور سرمایہ داری کا ٹائ ٹانک ڈوب رہا ہے۔
ھمارا اس سچائ و حقیقت پر غیر متزلزل یقین ھیکہ جیسے بیسویں صدی دنیا کی قوموں کی آزادیوں کی صدی تھی ایسے ہی اکیسویں صدی عوامی انقلابات کی صدی ھے۔
یہ مسلمہ حقیقت ھیکہ باشعور۔ نظریہ سے لیس متحد و منظم عوام ہی دنیا کی طاقت ہیں اور عوام ہی جو مطالعہ۔ محنت کش کے نظریہ۔ جدید سوچ و فکر سے روشناس ہونگے وہی عام عوام کی تربیت و راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ مسلمہ حقیقت آپ نے ہی عوام کو سمجھانی ھیکہ جذباتی الفاظ کے پیچھے مت بھاگو بلکہ خیالات و نظریات تلاش کرو جب عظیم خیالات و نظریات کا ہجوم ہو گا تو الفاظ خود بخود گونج اٹھیں گے۔ لوگو۔ کوئ بھی سیاسی پارٹی یا ریاست کسی طبقہ کی نمائندہ ہوتی ہے پاکستانی ریاست جاگیردار ٹولہ۔ سرمایہ دار طبقہ۔ جرنیل شاہی حاکمیت کا مغلوبہ ہے۔ اس ریاست کا 98فیصد محنت کشوں کے مسائل۔ مصائب۔ مشکلات۔ درد و تکالیف اور ضروریات زندگی سے کوئ تعلق واسطہ نہیں ہے۔
ایسے ہی بھارتی ریاست سرمایہ دار طبقہ کی نمائندہ ریاست ہے اسکے طبقاتی تضاد کا بھی یہی عالم ہے کہ دونوں اطراف آج بھی 50 فیصد سے زائد انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں اسکی تین وجوہات ہیں۔
1۔ مسلئہ جموں کشمیر۔
2۔ جھوٹی و مصنوعی آزادیاں۔
3۔ طبقاتی سماجی و ریاستی نظام۔
دنیا بھر کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تیور پتہ دے رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہی سرمایہ دارانہ و ساہو کاری نظام کا ٹھکانہ تاریخ کا کباڑ خانہ و کوڑے دان ہی ہو گا۔
ذوالفقار احمد ایڈووکیٹ
سابق چیرمین پی این پی۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *