Main Menu

پرانے کھسم اور نئے شوہر : محمد شبیر چوہان

Spread the love

پرانے وقتوں میں رن اور کھسم کا لفظ عام استعمال کیا جاتا تھا، ماشاءاللہ کھسم کی اپنی ٹوہر اور رن کی اپنی اکڑ ہوتی تھی، جب دونوں اکٹھے گھر سے نکلتے تو انداز ہی نرالا ہوتا تھا، کھسم کے ہاتھ میں بید، سر پر پگڑی، مونچھیں اوپر اٹھائی ہوئیں، چٹے کپڑے دھلے ہوئے، باسکٹ پہنی ہوئی اور دنداسہ مارتا ہوا نکلتا تھا، آنکھوں میں سرمہ لگانا بھی عام رواج تھا، رن بھی کیا ہی شان رکھتی تھی، تلے دار جوڑا، دو تین تولے کی سونے کی نلی، بائیس گز کی ستھن، سات رنگ کے دھاگوں سے بنی ٹوپی، جھنڈ نکالی بڑی چادر، دس گز کھسم سے پیچھے چلتی، رن کھسم دونوں راستے میں چلتے تو محسوس ہوتا شیر شیرنی جا رہے ہیں، لوگ دور سے دیکھ کر تبصرے کرتے، آج دونوں کدیر جا رہے ہیں، دونوں جہاں بھی جاتے، فوری چارپائی بچھ جاتی، چارپائی پر لوئی بچھائی جاتی، ککڑ ذبح کیا جاتا، چاول چھڑے ہوئے نہ ہوتے تو فوری دو عورتیں بیٹھ کر چٹو میں دھان ڈال کر بنگوں اور کڑوں کی جھنکار میں دھائیں چھڑتیں اور صرف آدھے گھنٹے میں کال منڈیا رانجا، سگا کمود، باسمتی، سٹھے کے چاول تیار ہو جائے، دیسی گھی کا تڑکا لگتا، دیسی تھوم پڑتا تو دور دور تک خوشبو جاتی، پورے محلے میں پتہ چل جاتا کوئی مہمان آیا ہے، لوگ مزے لے لے کر خوشبو سونگھنے اور تبصرے کرتے، رانجی کے چاول تو نصیب والوں کو ملتے تھے، جس نے ایک بار کھائے انگلیاں کاٹتا رہ گیا، خیر دن بھر ماسیاں پھپھیاں سب ملبے آتیں، جب رن کھسم واپس نکلنے لگتے تو کوئی پٹھ بکروٹا تحفے میں ملتا، گھر کی بڑی اماں مہمان خاتون کے سر پر چادر ڈالتی، دیسی گھی، شکر کی پوٹلی بھی ساتھ دے دیتے، دور تک ساتھ جاکر الوداع کیا جاتا، مگر جب یہی رن کھسم اپنے گھر میں ہوتے تو کام میں لگے رہتے، مجال ہے رن کھسم پر حکم چلا سکے، رن بیوی بن کر رہتی اور کھسم شوہر بن کر، اپنی اپنی حدودِ و قیود تھیں، بھوک پیاس بھی سانجھی تھی اور خوشی بھی ایک، پھر ہوا یوں کہ تعلیم آگئی، شعور آیا، رن کھسم بن گئی اور کھسم رن بن کر گزارہ کرنے لگا، یہاں تک کہ آر ایم اے بننے لگیں یعنی رن مزدور ایسوسی ایشنز، یہی نہیں بلکہ اگر بازار میں ایک مرد اور ایک عورت اس حال میں نظر آئیں کہ عورت آگے آگے اور مرد پیچھے پیچھے ہو، مرد نے ہاتھ میں پرس اٹھا رکھا ہو تو سمجھ لو کہ یہ شوہر اور بیوی جارہے ہیں، بلکہ مرد کے پاس بڑا بیگ بھی ہوتا ہے جس میں شاپنگ کا سامان مرد بہادر ڈال کر ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں جیسے بکری کے ساتھ اس کا بچہ ہو، بات وہ بن گئی پیچھے سے دیکھو پرویز لگتا ہے آگے سے دیکھو پروین لگتی ہے، یہ حال بن گیا بیگمات کا، حقوق انسانی والی عورتوں کے خاوند تو قابل ترس ہوتے ہیں، خیر اکثر بیوی خاوند جو سر مشین بن بیٹھے، ایک دفتر میں خاوند دوسرے میں بیوی اور بچوں کی پرورش آیا یا تایا کرتی ہے، افففف پیمپرز میں پیک بچوں کو پرانی مائیں دیکھ جائیں تو بیٹوں کو کہیں، ان ناپاکوں کو ست طلاقیں دے کر گھر سے نکالو، یہ گندی عورتیں ہیں انکے ہاتھ کا پکا کھانا ہی حرام ہے، ہر بچہ ایک لیٹرین بنا دیا گیا ہے، واہ رے واہ کیا ہی خوب یہ شوہر ہیں اور وہ کھسم تھے یعنی مالک، وہ الف کو قلا اور لام کو کھنڈا کہتے تھے اور یہ ماشاءاللہ پی ایج ڈی ڈاکٹر ہیں، صبح سویرے بیگم آواز دیتی ہے،،،، آصف او آصف، بچوں کے پیپمپرز پیک کر کے ساتھ گاڑی پر لے جائو، موچی کے گھر کے پاس کسی میں پھینک دینا “””لخ لعنت اوئے لخ لعنت تمہاری زندگی پر، گائے بھینس کے گوبر سے نفرت کی سزا کیسی ملی کہ بچوں کا گوں اٹھا کر کہاں سے کہاں لے جا رہے ہو، سردار معروف اختر عباسی رحمہ اللہ نے مجھے بوسہ دیا اور کہا *”””شبیر چوہان تم زندہ رہنے کے قابل نہیں ہو یہ قوم غیرت کا سبق دینے والے کو تڑپا تڑپا کر مار دیتی ہے، “‘””
مجھے پرانے اصلی الفاظ لکھتے ہوئے فخر محسوس ہورہا ہے کہ کیا خوب صورت انسان تھے کہ گھر سے سو گز دور پیشاب کرتے تھے اور یہ آئے پڑھے لکھے، جنہیں گندگی سے پیار اور محبت ہے، یقین جانیے پرانی میری عظیم مائوں کی نلی جتنی آج کی عورتوں کی ناک ہی نہیں اور آج کے مردوں کے سر ہیں کہاں کہ پگڑی باندھیں، ساہ کا بساہ نہیں، دل آزاریوں پہ معافی اور جو سچ لکھا اس پہ سوچنے کی گزارش، لکھنا چھوڑ دیا تھا مگر کل صدر معلم سید شفاعت گردیزی صاحب نے کہا “”” آپ بہت اچھا لکھتے ہیں “” میں نے کہا لکھنا ہی چھوڑ دیا، دنیا مجھ سے تنگ آچکی ہے، مگر ان کی کچھ باتیں اچھی لگیں تو نیم مردہ عزائم پھر زندہ ہو گئے، میری ریاست کو شعور دو، شوہر اور بیوی بن کر قوم کی تعمیر کرو، جوسر مشینیں بنانے سے بچو، بچوں کو نور چشم اور لخت جگر بنائو۔
مولانا شبیر چوہان کی تحریر ان کی اجازت کے بغیر کاپی کی ہے امید ہے وہ اپنا غصہ پی جائیں گے






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *