Main Menu

بڑے تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات: بیرسٹر حمید باشانی خان

Spread the love

یہ1884 کے موسم گرما کی بات ہے۔ امریکہ کی فیڈریشن اف ارگنائزد ٹریڈ اینڈ لیبر یونین نے ملک گیر تحریک کا اعلان کیا۔ اس تحریک کا مقصد کام کے اوقات کار کو گھٹا کر آٹھ گھنٹے کرانا تھا۔تحریک کے آغاز کے لیے یکم مٗی1886 کا دن مقرر کیا گیا۔ اس تحریک کے لیے دوسال تک تیاری کی گئی۔ مزدوروں میں بڑے پیمانے پر لٹریچر تقسیم کیا گیا۔گیت لکھے گئے۔آٹھ گھنٹے کا دن نامی گانا امریکہ میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ گیا۔ آٹھ گھنٹے کام، اٹھ گھنٹے ارام اور اٹھ گھنٹے ہم جو چاہیں کریں گے جیسے نعرے زبان زد عام ہو گئے۔ تلخ اوقات کار یا پھر بے روزگاری کے مارے ہوئے لوگوں کو اس نعرے میں نجات کا راستہ دیکھائی دیا۔ ان دنوں شکاگو میں مزدور تحریک بہت مضبوط تھی۔ چنانچہ یکم مئی 1886 کو (80,000 )اسی ہزار سے زائد مزدور شکاگو شہر کے مشی گن ایونیو میں جمع ہوئے۔ اس منظم جم غفیر پر مالکان حیرت زدہ رہ گئے۔ کچھ نے فی الفور مطالبہ تسلیم کیا۔کچھ مزدورا نقلاب کے خوف میں مبتلا ہو گئے۔ مزدوروں نے تحریک جاری رکھنے کا علان کیا۔ دو مئی کو جگہ جگہ پر امن اجتماع ہوئے۔مگر تین مئی کو شگاکو پولیس نے ویسٹرن اور بلیو ائیلینڈ کے پلانٹ پر حلمہ کر دیا جس میں بہت سارے مزدور شہید ہو گئے۔اس کے خلاف احتجاج کے لیے مزدوروں نے چار مئی کی شام کو ہیمارکیٹ سکوئیر پر مظاہرے کا علان کیا۔اس مظاہرے کی باقاعدہ اجازات شکاگو کے مئیر سے لی گئی۔شکاگو کا مئیر کارٹر ہریسن خود بھی مزدوروں کے مطالبات کا پرجوش حامی تھا۔اس مظاہرے میں تین ہزار کے لگ بگ لوگوں نے شرکت کی۔مظاہرے کے اختتام پر جب وہاں صرف کوئی دوسو کے قریب لوگ رہ گئے تو پولیس نے رات کے اندھیرے میں ان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں ایک سو چھتر مسلح پولیس والے شامل تھے۔ تاریکی اور بارش میں کسی نے ڈینامائیٹ بم پھینک دیا۔ گھبراہٹ کا شکار ہو کر پولیس والوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس طرح سات پولیس والے مارے گئے جن میں سے ایک بم کا شکار ہوا۔اس واقعے میں چار مزدور مارے گئے۔ اس واقعے سے فائدہ اٹھا کر دوسرے دن حکمرانوں نے پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مزدور دشمن حکومتوں نے شکاگو کے واقعے کو بنیاد بنا کر مزدور کش اقدامات شروع کر دئیے۔ شکاگو میں مزدور رہنماوں کو گرفتار کیا گیا۔بلا ورنٹ ان کے گھروں کی تلاشی لی گئی۔ٹریڈ یوننز کے اخبارات بند کر دئیے گئے۔آٹھ مزدور رہنماوں کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میں کچھ مزدور لیڈر ایسے بھی تھے جو سرے سے اس مظاہرے میں شریک ہی نہیں ہوئے تھے۔ امریکی تاریخ کا یہ بدنام ترین مقدمہ پورے دو ماں تک چلتا رہا۔ ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ شکاگو ٹریبون نے اعلان کیا کہ اگر جیوری نے مزدوروں کے خلاف فیصلہ دیا تو انہیں نقد انعام دیا جائے گا۔20 اگست 1886 کو جیوری نے فیصلہ سنا دیا۔ سات رہنماوں کو سزائے موت اور ایک کو پندرہ سال قید بامشقت سنائی گئی۔چار قیدیوں کو پھانسی دیدی گئی۔ایک کا جیل میں قتل ہوا، اور دوکی سزا کو گورنر نے عوامی دباو کے تحت عمر قید میں بدل دیا۔ یکم مئی کے اس دن کو1889 میں عالمی حثیت مل گئی۔اس سال جولائی میں پیرس میں ایک عالمی لیبر کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں امریکن فیڈریشن اف لیبر نے یکم جولائی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا مطالبہ کیا جسے متفقہ طور پر مان لیا گیا۔ سویٹ یونین کے انقلاب کے بعد یکم مئی کو کمیونزم کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جانے لگا۔حلانکہ یکم مئی کی تحریک کا بنیادی مطالبہ اٹھ گھنٹے کے اوقات کار مقرر کرانا تھا۔مگر اس تحریک کے دوران جو نمایاں مسائل ابھر کر سمانے ائے ان میں پہلا مئسلہ حق ازادی رائے تھا۔دوسرا مئسلہ پریس کی ازادی کا تھا۔تیسرا مئسلہ حق اجتماع کا تھا۔چوتھا مئسلہ یونین سازی اور حق احتجاج کا تھا۔اور پانچواں بڑا مئسلہ شفاف مقدمے کے حق کا تھا۔امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پورے نہ سہی مگرکسی حد تک مزدور طبقات کو اج یہ حقوق حاصل ہیں۔مگر تیسری دنیا کے بیشتر پسماندہ ممالک میں مزدوروں کی حالت زار 1886 کے حالات سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے۔یہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور طبقاتی تضادات اپنی انتہاوں پر ہیں۔مزدورں کے معاوضے اس حد تک کم ہیں کہ وہ بھوک ننگ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔جو لوگ صرف روح و جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے دن رات مشقت پر مجبور ہوں وہ حق آزادی رائے، پریس کی ازادی اور شفاف مقدمے جیسے حقوق کی بھلا کیا مانگ کریں گے۔مجموعی طور پر یہان بندہ مزدور کے اوقات کار اور زندگیاں بہت تلخ ہیں۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *