Main Menu

ھندوستان کا تاریخی کسان مورچہ اور جدوجہد کی نئی راہیں! (کسان راہنما ڈاکٹر اشوک دھاولے سے مقالمہ) تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز

Spread the love

برِصغیر میں کسانوں کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے، جو بیرونی حملہ آوروں، نوآبادیاتی تسلط، قومی آزادی اور سماجی انصاف کی تحریکوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ لیکن 21-2020ء میں منعقد ہونے والے 380 روزہ کسان مورچہ نے دُنیا بھر میں جاری تحریکوں میں ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے، اور سماجی تبدیلی برپا کرنے کے لیے جاری تحریکوں کو ایک نیا ولولہ دیا ہے۔ گذشتہ دنوں اُسی کسان مورچے کے بہت ہی اہم راہنما اور آل انڈیا کسان سبھا کے صدر ڈاکٹر اشوک دھاولے انڈین ورکرز ایسوسی ایشن برطانیہ اور ایسوسی ایشن آف انڈین کیمونسٹس کی دعوت پر برطانیہ تشریف لائے تو اُن کے اعزاز میں برطانیہ کے مغتلف شہروں میں استقبالیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ کامریڈ اشوک دھاولے آل انڈیا کسان سبھا کے مرکزی صدر اور کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہیں۔ کامریڈ دھاولے کے اعزاز میں منعقد کی گئی ان تقریبات میں راقم کو بھی اپنی انقلابی یکجہتی کے اظہار کے لیے مدعو کیا گیا۔ ھندوستانی کسانوں کی اس تاریخ ساز تحریک کا شمار دُنیا کی سب سے بڑی انقلابی تحریکوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے راقم نے سوچا کہ کامریڈ اشوک دھاولے جی سے ہونے والی گفتگو کو تحریری شکل دے کر برِصغیر کے ترقی پسند انقلابی کارکنوں تک پہنچایا جائے، تاکہ وہ اُس کے سبق اموز پہلوں سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔

متحدہ کسان مورچہ بارے بات کرتے ہوئے کامریڈ اشوک دھاولے جی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ھندوستانی کسانوں کی یہ تحریک کوئی آسمان سے نہیں اُتری تھی، بلکہ 2014ء میں نریندر مودی نے اپنی سرکار بننے سے لے کر کسانوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے، مزدوروں کو نشانہ بنایا ہوا ہے، اور نوجوانوں، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ اُنہوں نے جو اشرافیہ نواز سرمایہ دارانہ پالیسیاں بنائیں، اُن کی وجہ سے محنت کشوں کے اُوپر متواتر حملے ہو رہے ہیں۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ کو بھی جھوٹ بولا، اور کوویڈ کی دھشت کے دوران سارے قانون بھی توڑے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں جو کچھ ہوا، اُس کی وجہ سے بالخصوص کسانوں کی میں بات کرتا ہوں کہ 9 سال کی مودی سرکار کے دور میں ایک لاکھ سے زیادہ کسانوں کو خود کشیاں کرنا پڑیں، کیوںکہ وہ قرضوں میں ڈوب گئے تھے، اور اُن کے پاس قرضوں کی واپسی کے لیے نہ وسائل بچے تھے اور نہ ہی اتنی آمدن تھی۔ اس کے خلاف ملک بھر میں لگا تار مظاہرے ہوئے، 2018ء میں ہم نے مہاراشٹر سے بڑا کسان مارچ کیا، جِس میں50 ہزار کسان مہاراشتر کے کھیت کھلیانوں سے چل پڑے، جو سات روز تک چلتے رہے اور 200 میل تک کا سفر طے کیا، جن میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین بھی تھیں اور اُن کے بچے بھی، جو سات روز تک پیدل سفر کرنے کے بعد بمبئی پہنچے تھے۔ یہ پورا کسان لانگ مارچ جو ہوا، وہ پوری دُنیا میں میڈیا کا مرکز بن گیا، اُس پر بنے ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دُنیا بھر میں پھیل گئے اور اس کے چرچے بھی ہوئے۔ اس طرح کے بہت سے مظاہرے ملک بھر میں ہوئے۔ اس کے بعد ستمبر 2020ء میں مودی سرکار تین کسان دشمن بل قانون کا حصہ بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں لائی اور دھونس و ھٹ دھرمی کے ساتھ پاس کروا لیے، اور پارلیمنٹ سے پاس بھی ایسے کروائے کہ ان تک میڈیا کو رسائی نہ دی گئی۔ جن عوام دوست ممبرانِ پارلیمنٹ نے ان کسان دشمن بلز کی مخالفت کی اُن کی پارلیمنٹ کی رکنیت کو ہی دو ہفتوں کے لیے معطل کر دیا گیا۔

مودی سرکار نے پارلیمانی اقدار اور مروجہ اصولوں کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے زرعی بلز کی مخالفت کرنے والے ممبران سے کہا کہ اُنہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑیں گے کہ وہ مخالفت کر سکیں۔ سرکار کی مکاری کا اندازہ کریں کہ وہ یہ قانوں ایک ایسے وقت لائے جب کرونا کے وبائی مرض نے ہر طرف دھشت پھیلا رکھی تھی۔ مارچ 2020ء میں ھندوستان میں کرونا کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا تھا اور یہ قانوں ستمبر 2020ء میں پارلیمنٹ میں لائے جب ہر طرف لوگ کرونا سے جان کی بازی ہار رہے تھے۔ سرکار کا خیال تھا کہ کوویڈ کی دھشت کے وقت جب یہ قانون لائیں گے تو لوگ ڈریں گے اور اپنی آواز اُٹھانے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔ اِس طرح یہ کسان دشمن بلز پاس ہو کر قانون کا حصہ بن جائیں گے، اور سرکار کو اس پر عمل درآمد کروانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
ان قوانین کا بنیادی مقصد پورے بھارت کی زرعی زمینیں کسانوں سے چھین کر، یا پھر ان سے اونے پونے خرید کر بڑتے بڑے کارپوریٹ اداروں کے حوالے کرنا تھا۔ مکیش امبانی، گوتم اڈانی، رادھا کشن دامانی، لکشمی متل، یہ نام تو آپ نے سنے ہوں گے، جو سرکار کی مدد سے غریب کسانوں کی زمینیں ہڑپ کر کے بڑے بڑے فارم بنانا چاہتے تھے۔ مودی جب وزیر اعظم بنے تو گوتم اڈانی پوری دُنیا میں 609 ویں نمبر پر تھے۔ پھر 2022ء میں کمال معجزہ ہوا کہ وہ 8 برس کی قلیل مدت میں 609 ویں نمبر سے اُٹھ کر دوسرے بڑے امیر ترین آدمی بن گئے۔ یہ سب نریندر مودی اور امیت شاہ کے دھونس اور اشیرباد سے ہی ممکن ہوا۔ یہ سب کیسے ہوا، جب تحقیقات ہوئیں تو حقیقت سامنے آئی اور ایک پِن مارنے سے ہی اتنے بڑے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ ایسے ہی ارب پتی لوگوں کی مدد کرنے کے لیے یہ قانون لایا گیا تھا۔
کسانوں کی زمینیں جاتی تھیں، انہیں اپنی اجناس کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ سب سے بڑھ کے جو دیش کے اندر عوامی تقسیم کا نظام ہے، جِسے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کہتے ہیں، اُسے وہ ختم کرنا چاھتے تھے۔ یعنی یہ قوانین پورے دیش کے عوام کے خلاف تھے، اور عوام کو ان ارب پتیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا پورا پورا بندوبست کیا گیا تھا۔ اُنہیں لگا کہ اب کوویڈ کی تباہ کاریوں نے دھشت پھلا رکھی ہے، اور کوئی نہیں اُٹھے گا اور آرام سے ہمارا کام بن جائے گا۔ بات یہیں کسانوں کے استحصال کو دوام بخشنے پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس بِل کے پاس کروانے کے 15 روز بعد، ستمبر ہی کے مہینے میں اُسی پارلیمان میں مزدوروں کو نشانہ بناتے ہوئے چار مزدور دشمن قوانیں بنا ڈالے۔ ہندوستانی مزدوروں نے ایک سو سال تک برطانوی سامراج کے خلاف لڑ کے، اور بعد ازاں آزادی کے بعد کانگریس حکومت کے ساتھ لڑ کے مزدور طبقے کے تحفظ کے لیے 29 لیبر لاز حاصل کیے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور دھشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے وزیراعظم نے ایک قانون پارلیمنٹ میں لا کر پورے 29 قوانین رد کروائے اور اُس کے متبال کے طور پر 4 لیبر قوانین لائے جو مکمل طور پر پرائیویٹ کارپوریشنوں کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ جو کام برطانیہ میں چند دہائیاں قبل مارگریٹ تھیچر نے کیا تھا اور ملک میں مزدوروں کی آواز کو کچل دیا تھا، وہی کام اب ھندوستان میں مودی سرکار نے کر دکھایا۔
یہی وہ حالات تھے جِن میں بھارت کے کسانوں نے یہ طے کیا کہ ہم یہ بلکل برداشت نہیں کریں گے۔ ہم اس کے خلاف لڑیں گے، اور جب تک ہم نہیں جیتتے، اور یہ تینوں کسان دشمن قوانین رد نہیں کروا لیتے، تب تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ اِس طرح ھندوستان کے کسانوں نے 26 نومبر 2020ء کو ہزاروں کی تعداد میں اپنے احتجاج کا آغاز صوبہ پنجاب سے کیا۔ اس لیے پنجاب کے کسانوں نے جِس تاریخی تحریک کا آغاز کیا اُس پر ہم سب اُنہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ پنجاب سے آغاز کرنے والے اِس کسان مورچے میں جلد ہی ہریانہ، اُترپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش، اور دیش بھر کے کسان شامل ہوتے گئے اور اِس طرح یہ تاریخ ساز کارواں بنتا گیا۔ پھر دہلی کے ارد گرد کے علاقوں کے کسانوں نے دہلی آنے والے سب بڑے نیشنل ہائی ویز، جنہیں بعض ممالک میں موٹرویز بولتے ہیں، بلاک کر دیئے۔ آپ نے سنا ہو گا چند سال قبل امریکہ میں چلنے والی آکوپائی وال سٹریٹ، یعنی وال اسٹریٹ پر قبضہ کر لیں، کے تحت ہزاروں عوام نے نیو یارک کے تجاتی مرکز وال سٹریٹ کو بلاک کر دیا تھا۔ لیکن یہ جو بھارت میں متحدہ کسان مورچہ ہوا یہ آکوپائی وال سٹریٹ کا ایک بہت بڑا ایڈیشن تھا، جِس نے دُنیا کی تحریکوں میں ایک منفرد مقام حاصل کیا، کیونکہ وہ تو کچھ روز ہی چلا اور ہزاروں لوگ شامل ہوئے تھے، لیکن ھندوستانی کسان مورچے میں تو لاکھوں کسان آئے اور اُنہوں نے یہاں 380 دن، یعنی ایک سال اور پندرہ دن پورے طریقے سے جام کر دیا۔
کسانوں کی اس تحریک کے بہت سے اہم اور سبق اموز پہلو ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ لاکھوں کسان ایک ساتھ آئے اور اپنا مورچہ بنایا۔ کسانوں کی سب تنظیموں کے لوگ ایک ساتھ آئے، وہ بھی اس عزم کے ساتھ آئے کہ ہم جیتیں گے۔ اُنہیں یقین تھا کہ الگ الگ لڑیں گے تو ایک ایک کر کے مارے جائیں گے۔ ایک ساتھ مل کر لڑیں گے تو ہم ضرور جیتیں گے۔ پھر ہم اکٹھے ہو کر بھارت کی ٹریڈ یونینوں کے پاس گئے، اور ہماری درخواست پر انہوں نے کمال یکجہتی دکھائی اور بھارت کی تمام ٹریڈ یونینیں متحد ہو کر کسان مورچہ کی حمائیت میں نکل آئیں۔ اُنہوں نے ہم سے سبق سیکھتے ہوئے ایک متحدہ پلیٹ فارم بنایا، کیوں کہ یہی موقع تھا کہ مزدور یونینیں بھی متحد ہو کر ہماری بھرپُور حمائیت کے لیے باہر نکلیں۔ جب پورے بھارت کی مزدور تحریک نے یکجا ہو کر کسانوں کا ساتھ دیا تو قابلِ دید مزدور کسان یکجہتی اور اتحاد ابھر کر سامنے آیا۔
تیسری اہم بات یہ کہ ہمیں بہت بڑے ریاستی تشدد اور غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے اوپر واٹر کینن استعمال کئے گئے، آنسو گیس کے شیل وسیع پیمانے پر استعمال ہوئے، لاٹھی چارج ہوئے اور بے شمار کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ موودی سرکار کے وزیر مسٹر اجے مشرا ٹینی نے اپنے علاقے کھیری، اُترپردیش سے اپنے کارندوں کی گاڑیاں بھیجیں جن کے نیچے احتجاجی کسانوں کو کچل کر مار ڈالا۔ اس دھشت ناک واقعے سے چار کسان اور ایک صحافی موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ باقی جو کسان مورچے کے دوران 715 کسان دھلی میں شہید ہوئے تھے، وہ ان کے علاوہ ہیں۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ جو ریاستی سرکار کا وزیر عوام کو حق مانگنے پر سرِعام کچل کر شہید کرتا ہے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، بلکہ یہ حیرت انگیز ہے کہ وہ آج بھی سرکار میں وزیر کے عہدے پر قائم ہے اور دندناتا پھر رہا ہے۔ اِس کے برعکس آپ کے ہاں برطانیہ میں بورس جانسن نے کرونا کے خطرناک دور میں 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں داروُ کی پارٹیاں رکھیں، اور اس مواقع پر پارلیمنٹ کو بھی جھوٹ بولا، پورے کوویڈ کے قانون توڑے، اور اُنہیں بالآخر پالیمانی کمیٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔ یہ برطانیہ میں ہوتا ہے، اور یہ واضع کرتا ہے کہ یہاں کچھ حد تک تو جمہوریت کی عملی شکل پائی جاتی ہے۔ لیکن وہاں ھندوستان میں ایک وزیر 4 پُر امن احتجاج کرنے والے کسانوں اور ایک صحافی کو اپنی گاڑی کے نیچے روند کر مار ڈالنے کے باوجود بھی نریندر مودی اُسے اپنی کابینہ کا وزیر قائم رکھتے ہیں۔
جب کسانوں کی تحریک کا آغاز پنجاب سے ہوا تو بی جے پی اور آر ایس ایس نے پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ یہ خالصتانی علیحدگی پسند سکھوں کی ملک توڑنے کی تحریک ہے۔ عقل کے اِن اندھوں کو کون سمجھائے کہ جب پنجابی میدان میں آئیں گے تو اُن کے سر پر پگڑیاں تو ہوں گی نہ۔ ہمیں اِس تحریک کا آغاز کرنے والی پنجاب کی سکھ کمیونٹی پر ناز ہے۔ پہلے تو آرایس ایس اور بی جے پی والوں نے کہا کی یہ خالصتان وادیوں کی تحریک والے ہیں سب۔ جب لوگوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تو وہ کہنے لگے کہ یہ ماؤ نواز تحریک کے گوریلے ہیں، پھر بولنے لگے کہ یہ نکسل واڑی تحریک والے ہیں، پھر بولنے لگے کہ یہ علیحدگی پسند قوم پرست ہیں، اور پھر بولنے لگے کہ ان کسانوں کو پاکستان اور چائینہ کا سپورٹ حاصل ہے۔ لیکن اِن سب جھوٹے پراپیگنڈوں پر لوگوں نے کان نہ دھرے اور اُنہیں یکسر مسترد کر دیا۔ اِس طرح ہمارا کسان مورچہ بہت ہی پُرعزم بھی رہا اور پُر امن بھی رہا۔
ھندوستانی متحدہ کسان مورچہ ذات پات، رنگ، نسل، مذھب اور علاقائی تفریق سے پاک تھا اور اُس میں ہر مذھب، رنگ، نسل اور ذات پات کے بچے، بوڑھے، مرد و خواتین بہت بڑی تعداد میں شامل تھے۔ اس میں سکھ کسان تھے، ہندو کسان تھے، مسلمان کسان تھے، کرسچین تھے، بُدھ مت تھے، اور سبھی مذاھب کو ماننے والے تھے، لیکن سب برابر انسان تھے، جو ملک بھر سے ایک ساتھ دھلی میں آئے اور اُنہوں نے وہاں آ کر ایک سال پندرہ دِن تک تاریخ ساز دھرنا دیا۔ اُن میں ہزاروں کی تعداد میں عورتیں شامل تھیں اور مجھے فخر ہے کہ ان میں شہید بھگت سنگھ کی بھتیجی گُرجیت کور بھی شامل تھیں، جو کسانوں کے اس عظیم اجتماع میں ایک سال تک مسلسل رہیں۔ بھگت سنگھ کے بھتیجے پروفیسر جگموہن سنگھ، جنہیں سارا پنجاب جانتا ہے، بھی اس تحریک میں بھرپُور شامل رہے۔ مزید برآں، اس تحریک کے دیرپا بنیادوں پر قائم رہنے میں سکھ گوردواروں کا بھی اہم کردار تھا، جن میں خاص طور پر دھلی کے، پنجاب کے، ھریانہ کے، اور یو پی کے گوردواروں نے مفت لنگر لگائے اور پورا ایک سال اور پندرہ دن تمام بارڈرز پر مفت لنگر چالو رھا، جِس میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کسانوں کو مفت کھانا مہیا کیا جاتا رہا۔ اگر یہ گوردوارے خوراک مہیا کرنے کا اہم فریضہ سر انجام نہ دیتے تو ہماری یہ تحریک اتنے طویل عرصہ تک زندہ نہ رہ پاتی اور شائد کسانوں کو فتح بھی نصیب نہ ہوتی۔ ایسا صرف دھلی میں متحدہ کسان مورچہ میں نہیں ہوا، بلکہ ملک بھر میں جہاں جہاں بھی کسانوں نے مورچے لگائے گئے، گوردواروں نے اپنا بھرپُور کردار ادا کیا اور ہر بھوکے کسان کو وقت پر کھانا فراہم کیا۔ جب ہم نے 2018ء میں مہاراشٹر سے کسانوں کی ریلی بمبئی تک نکالی جِن میں 50-40 ہزار کسان ہوتے تھے تو وہاں بھی بمبئی کے گوردواروں نے اپنے کیمپ لگا کر سب کو مفت چائے، ناشتہ اور کھانا فراہم کیا۔
حقوق کی جدوجہد میں منظم کی گئی اِس تحریک کو جِس طرح سے زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے مدد فراہم کی اور اُس کا حصہ بنے، اُسے کامیاب ہونا ہی تھا۔ ہم کسانوں کا یہ نعرہ تھا کہ کسان نہیں تو خوراک نہیں، اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی نہیں (نو فارمر، نو فُوڈ، نو فیوچر)۔ اسی نعرے پر ساری تحریک قائم ہوئی اور کسانوں نے مطالبات تسلیم ہونے تک واپس نہ جانے کا عہد کر لیا، جِس میں ہماری خواتین کسانوں کا بہت اہم کردار تھا۔ کسان پُرعزم تھے کہ مودی سرکار کو شکست دیئے بغیر اور اِس کسان دشمن قانوں کو رد کروائے بغیر واپس ہر گز نہیں جائیں گے۔ کسانوں نے تو یہاں تک اعلان کر دیا تھا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے، اور یہ ضروری سمجھا گیا، تو وہ 2024ء کے عام انتخابات تک اپنا کسان مورچہ جاری رکھیں گے۔ یہی وہ کسانوں کا عزم تھا جو بالآخر اُن کی فتح کا سبب بنا۔ مودی سرکار کو جھکنا پڑا، اور اس تحریک کے ایک سال پندرہ دن بعد انہیں اعلان کرنا پڑا کہ یہ تینوں کسان کش قوانین ہم پارلیمنٹ سے رد کروائیں گے، اور جِس پارلیمنٹ سے ستمبر 2020ء میں یہ قوانین پاس کروائے تھے، 29 نومبر 2021ء کو اسی پارلیمنٹ نے یہ تینوں قوانین رد کئے۔ بلاشُعبہ یہ ھندوستانی کسانوں کے لیے بہت بڑی جیت تھی، لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ کسانوں کے سب مسائل حل ہو گئے ہیں۔ ابھی بھی کسانوں کی اجناس کی قیمتیں مرتب کرنے کا سوال باقی ہے۔ ابھی بھی کسانوں کے سر پر قرضوں کی تلوار لٹک رہی ہے، جس کی بدولت ایک لاکھ کسانوں کو خود کشی کرنا پڑیں۔ کامریڈ اشوک دھاولے جی نے کہا کہ ہماری آل انڈیا کسان سبھا کا مطالبہ ہے کے ھندوستان بھر کے کسان، جو ملک بھر کے عوام کے لیے اناج پیدا کرتے ہیں ان کا زرعی قرضہ معاف کیا جائے۔ اُنہیں اجناس کی صحیح لاگت ملے، جِس کے لیے اُن کا مطالبہ ہے کہ لاگت کاشت پر آنے والے خرچے کا کم از کم ڈیڑھ گنا دام ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ قبل ازیں ڈاکٹر سمباسیون سوامیناتھن کمیشن، جو نیشنل کمیشن آن فامرز بنایا گیا تھا، اس نے سفارشات پیش کی تھیں کہ اگر دیش میں کسانوں کی خودکشیاں روکنی ہیں تو تمام کسانوں کو کاشت پر آنے والے اخراجات کا ڈیڑھ گُنا معاوضہ کی بنیاد پر اجناس کی قیمتوں کا تعین کرنا ہو گا اور اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے قانون سازی کرنا ھندوستانی سرکار کی ذمہ داری ہے۔ کامریڈ اشوک دھاولے جی نے کہا کہ اس پر ہماری جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی۔

اُنہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر موسیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کسانوں کا جو نقصان ہو رہا ہے، اس کے لیے ہم سرکار کی جانب سے کسانوں کی اجناس کی انشورنس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل پانچ اپریل 2023ء کو دھلی میں ایک لاکھ مزدوروں اور کسانوں کی پھر سے ریلی نکالی گئی ہے۔ یہ ریلی سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونین (سی آئی ٹی یو)، ہماری آل انڈیا کسان سبھا اور آل انڈیا ایگرکلچر ورکرز یونین نے مل کر نکالی تھی، جِس میں ملک بھر سے محنت کش، کسان و مزدور ایک ساتھ آئے، اور انہوں نے مودی سرکار کی کسان دشمن اور مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف بھرپُور آواز اُٹھائی۔ چند روز قبل ہم لندن میں کارل مارکس کی قبر پر گئے تھے جہاں لکھا تھا کہ ورکرز آف آل لینڈز یونائٹ، یعنی دُنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ، آپ کے پاس کھونے کے لیے زنجیروں کے سوا کچھ نہیں، آپ کے پاس پانے کے لیے پوری دُنیا پڑی ہے۔ اس پوری دُنیا کو ہم جیتیں گے، اس کے لیے جو بھی کرنا پڑا ہم کریں گے۔ لوگوں کو شعور دین گے، لوگوں کو منظم کریں گے، اور بالآخر استحصال سے پاک ایک نیا معاشرہ اور نئی دُنیا کی تعمیر کریں گے۔ انقلاب، زندہ باد۔
یونہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پُھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی۔






Related News

ہمیں اسلام آبادسے دہشتگرد کہہ کر نکالا گیا،اب ہمارے وطن سے نکل جاؤ، ڈاکٹر ماہ رنگ

Spread the loveڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹیRead More

بلوچستان میں انسانی بحران بوسنیا اور ہرزیگووینا سے کہیں زیادہ سنگین ہے | ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ سے خصوصی انٹرویو

Spread the loveآزادی پسند بلوچ رہنما اورمسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *