Main Menu

خبردار! شاری بلوچ ایک دلدل ہے: شازار جیلانی

Spread the love

بلوچ وفاداری اور اس کی قیمت ادا کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ سادے لیکن رنگ کے پکے، نسبتاً پسماندہ لیکن باشعور، جن سے بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ایران انڈیا اور کچھ عرب ممالک بھی توقعات لگا بیٹھے ہیں۔ بلوچستان قدرتی دولت سے مالامال ہونے کی وجہ سے بیرونی قوتوں کے مفادات کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ جہاں ایک طرف سیاسی طور پر قاسم سوری جیسوں کو بلوچستان کا نمائندہ نہ ہو کر بھی بلوچستان کا نمائندہ بنایا جاتا ہے تو دوسری طرف سی پیک جیسے کھربوں کے منصوبے میں ان کا حصہ سوختہ لاشیں اور روتی ہوئی مائیں ہیں۔ ان ماؤں میں اب ایک ایسی ماں بھی شامل ہو گئی ہے جس کو دو دن کے بعد آنے والی عید پر اپنے بچوں سے ملنے سے زیادہ بارود باندھ کر خود کو اڑانے کا اشتیاق تھا۔ تشدد اور ظلم جس رنگ میں بھی ہو بد صورت اور قابل مذمت ہے۔
بلوچ خودکش حملوں سے پہلے پاکستان میں ٹی ٹی پی ایسے حملے کرتی تھی۔ جو پاک افغان بارڈر پر ظہور پذیر ہو کر افغانستان میں مقیم امریکی فوج کو پاکستانی سرزمین سے دور رکھنے کے لئے تیار کی گئی تھی لیکن بعد میں پاکستان کے اندر ناٹو سپلائی لائن پر حملے کرنے لگی جس نے آگے جاکر ناٹو کے اتحادی یعنی پاکستان پر بھی حملے کیے۔ جن کی زیادہ شدت مشرف کی طرف سے لال مسجد پر چڑھائی کے بعد محسوس کی گئی۔ ٹی ٹی پی نے اپنی بے حسی کی بناء پر عام شہریوں اور سکول کے بچوں پر بھی رحم نہیں کیا۔
یہ بے رحم اور خونخوار گروہ مولوی کے کنٹرول میں تھا جس کا مقصد تشدد کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ مخصوص حلیہ کے حامل یہ گروہ صرف خود کو مسلمان مانتا تھا اور اپنے علاوہ ہر کسی کو بیدردی سے ذبح کرتا تھا۔ تشدد اور خون خرابے کے ساتھ ساتھ دولت کے حصول کے لئے بیرون ملک سے پیسے لینے کے علاوہ اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری بھی کرتا تھا۔ جس طرح مچھلی کی زندگی پانی میں ہے اسی طرح مزاحمتی گروہ کو عوام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن انہوں نے عوام کے ساتھ ظلم کر کے اپنے لئے ہمدردی تو کیا الٹی نفرت کمائی۔ اس کے ظلم کی انتہائی مثالیں لکی مروت میں والی بال میچ پر حملہ جس میں سو سے زائد نوجوان قتل کیے اور پشاور اے پی پی ایس میں بچوں کا قتل عام ہیں۔
ٹی ٹی پی ایک فرقہ وارانہ مسلکی اور صرف مردانہ لڑاکوں پر مشتمل تحریک تھی، جس نے عورتوں کو مال غنیمت سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ جنہوں نے پاکستان میں اسی ہزار کے قریب لوگ قتل کیے جن میں اکثریت پختون تھے۔ ان کی تشدد کے زیادہ تر شکار پشتون تھے اس لیے عمران خان کا یہ کہنا کہ پختونوں نے ریاست پر حملہ کیا یا پختون ڈرون حملوں کی وجہ سے شدت پسند بنے مکمل غلط بیانی ہے۔ ڈرون حملے پختونوں کے خلاف نہیں بلکہ ان دہشت گردوں کے خلاف ہوا کرتے تھے جو پختونوں کو قتل کرنے کے لئے دہشت گرد بھیجتے تھے۔
لیکن بلوچ شدت پسندی اور ٹی ٹی پی میں بنیادی تشدد کے علاوہ اور کوئی مماثلت نہیں ہے۔ کیونکہ بلوچ شدت پسندی مذہبی رنگ کی بجائے قومی رنگ لئے ہوئی ہے۔ اس لئے ان میں مولویوں اور مذہبی بیانیے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو طالبان کی طرح لمبے بال داڑھی سروس شوز اور مخصوص مذہبی اصطلاحات یعنی زبان استعمال نہ کرنے کی وجہ سے سیکورٹی سٹاف کے لئے پر امن بلوچ آبادی سے الگ کرنا بہت مشکل ہے جس کی وجہ سے یہ تحریک روزبروز پھیل رہی ہے۔
بلوچ مزاحمت دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہے۔ پہلا گروہ اپنے وسائل پر اپنا حق مانگتا ہے۔ جو سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے کارکن ہیں۔ جن میں کسی حد تک شدت پسندی کا رجحان موجود ہے لیکن جن کو ان کا حق اور مطلوبہ عزت اور اہمیت مل گئی تو انہیں مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ دوسری قسم ایسے شدت پسندوں کی ہے، جو اپنے مقصد کے لئے مارو یا مر جاؤ کا راستہ چنے ہوئے ہیں۔ ان کے خونریز حملے جدید اسلحہ اور منظم کارروائیاں دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ فوجی انداز میں ٹرینڈ اور بہت وسائل کے مالک ہیں۔ ایسی ٹریننگ اسلحہ اور وسائل اندرون ملک ملنا محال ہیں۔
طالبان امریکیوں کو افغانستان سے نکالنا چاہتے تھے اور بلوچ چینیوں کو بلوچستان سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ اپنے حلیے لباس تعلیم اور ٹریننگ کی بناء پر عام بلوچوں میں ایسے گڈمڈ ہو گئے ہیں کہ انٹلیجنس ایجنسیوں کو انہیں الگ کرنے میں بہت مشکلات اور غلطیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان مزاحمت کاروں میں عام بلوچوں کے علاوہ کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اور فارغ التحصیل مرد و خواتین شامل ہیں۔
عورت بلوچ روایات کی مقدسات میں شامل ہے۔ اس پر بری نظر یا ہاتھ ڈالنا پوری قوم کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کو انصاف نہ دلا سکنے کی وجہ سے نواب اکبر بگٹی نے اپنی زندگی اس بلوچ روایت پر قربان کردی تھی۔
اس روایتی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آج برسر زمین بلوچ مزاحمتی تحریک کی لیڈر شپ تقریباً ساری کی ساری بلوچ عورت کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کر کے جس کو ایک نئی جہت دلا دی ہے۔ پہلے سیکورٹی فورسز کو بلوچ مزاحمت کاروں کی تلاش میں صرف مردوں کی تلاشی گرفتاریاں اور گرفتاری کے بعد تفتیش کرنی پڑتی تھی۔ جس کے خلاف بڑے منظم انداز میں احتجاجی مظاہرے ہوا کرتے تھے اور اس کی شرکاء اکثر عورتیں ہوا کرتی تھیں، لیکن شاری بلوچ کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز کے کام میں مشکلات کئی گنا زیادہ ہو گئی ہیں۔
اب اگر سیکورٹی فورسز خطرہ سمجھتے ہوئے بلوچ خواتین کو گلیوں بازاروں اور اہم تنصیبات پر روکیں گی، ان کی تلاشی لیں گی، ان کے ساتھ درشت رویہ اختیار کرے گی، شک پڑنے پر ان کا برقعہ اور دوپٹہ اتاریں گی، اضطراری کیفیت میں زمین پر گرائیں گی، گرفتاری میں مزاحمت پر ان کے ساتھ دست درازی کریں گی، اور وہ خاتون دہشت گرد نہ نکلی تو مزاحمت کاروں کو تحریک پھیلانے کے لئے ایک مضبوط وجہ ہاتھ آئے گا کہ بلوچ عزت پر ہاتھ ڈالی جا رہی ہے اور یوں آسانی سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے جائیں گے۔ احتجاج مزید پھیلے گی کیونکہ مسئلہ پھر حقوق کا نہیں بلوچ روایت کی مقدس ترین حساسیت کا ہو گا۔ وہ لوگ بھی احتجاج میں شامل ہوجائیں گے جو ان کو کسی وجہ سے آج تک نظر انداز کرتے آئے ہیں اور ساتھ نہیں دیتے۔
دوسری طرف اگر سیکورٹی فورسز ایسا نہیں کرے گی جیسا کہ میں نے پچھلے پیراگراف میں وضاحت سے لکھا ہے تو پھر مستقبل میں ایسے حملوں کو کیسے روکے گی؟
کچھ لوگ اس شاری بلوچ کو ہیرو اور کچھ اس کے استعمال کرنے والوں کو بے حس اور حد درجہ شقی القلب بتلا کر مطعون کرتے ہیں کہ انہوں نے دو بچوں کی ماں اور ایک تعلیم یافتہ خاتون کو کس طرح خود کو اڑانے کے لئے اجازت دی؟ کوئی اس کو کچھ بھی سمجھتی رہے لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا کر کے شدت پسندوں نے ان کے حملے روکنے والی سیکورٹی اداروں کو ایک بڑے دلدل میں پھنسانے کی پلاننگ کی ہے۔
یہی دلدل ہے، جس میں شاری بلوچ کے حملے کے ذریعے سیکورٹی فورسز کو ڈالا جا رہا ہے۔ بلوچستان کو ان کے حقوق اور احساس ملکیت کی ضرورت ہے جس کا حل آئینی طور پر ان کا طے شدہ حصے کی بروقت ادائیگی اور عزت نفس کی بحالی ہے۔ بلوچ جنگجو قوم ہے۔ وہ جانتی ہے کہ جنگ میں لوگ مرتے ہیں لیکن صلح کرنے کے بعد سب معاف کر دیا جاتا۔
حکومت کو چاہیے کہ عسکری نرسریوں میں تیار کی گئی سیاسی لیڈرشپ کی بجائے حقیقی بلوچ سیاسی لیڈرشپ کو آگے بڑھائیں تاکہ وہ اپنے عوام کو منا کر شدت پسندوں کو تنہا کر سکیں۔ اور ریاست کو چاہیے کہ خاتون خودکش بھیج کر ان کے لئے جو دلدل تیار کی گئی ہے، وہ اس میں اترنے سے ازحد پرہیز کریں۔

( یہ تحریر دئگر ویب سائیٹ پہ چھپ چکی ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *