Main Menu

ہمیں حدیث کی سند (راویوں کی جانچ پڑتال) سے پہلے اس کے متن کو دیکھنا چاہیے.لوگوں کو بدعت کے نام پرقتل کیا گیا۔کراؤن پرنس محمد بن سلمان

Spread the love

سعودی عرب کے کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے ساتھ حسن فرحان المالکی کا انٹرویو:
سید عطاء الرحمان

(عربی سے اردو میں ترجمہ)
تاریخ میں پہلی بار قرآن کی بنیاد پر تمام فرقوں کی بنیادیں اکھاڑ دینے والا انٹرویو، وہ بھی کنگڈم آف سعوری عرب کے باختیار کراؤن پرنس کی زبانی، جس کے اقتدار کے سامنے اور کوئی اسلامی ملک تو کیا خود سعودی عرب کی طاقتور ترین مذہبی ایسٹیبلشمنٹ کو بھی بے اختیار ہونا پڑا۔ یہ ہے قرآن کی طاقت جس کے دلائل کے سامنے دنیا کی سب مذہبی طاقتیں بے بس ہیں۔
حسن فرحان المالکی :
جب میں قرآن میں عقیدہ کی آزادی کو دیکھتا ہوں جبکہ دوسری طرف ایک حدیث ہے جو مرتد کی سزا موت بتاتی ہے اور جو شخص آزادی کو ترویج دے اس کی بھی سزا موت بتاتی ہے ، تو میں کس طرف جاؤں؟
پرنس محمد بن سلیمان:
میں اس کی طرف جاؤں گا جو قرآن کہتا ہے:
دین میں کوئی زبردستی نہیں، درست راستہ غلط راستے سے الگ کر دیا گیا ہے۔(2:256)
اور اسی طرف انصاف کی مرکزیت ہے۔ جب اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
ہم نے واضح دلائل کے ساتھ رسول بھیجے اور کتاب اور میزان بھی تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہ سکیں۔ (57:25)
اس طرح انصاف قائم کرنا رسولوں اور کتاب کا مقصد بن جاتا ہے جبکہ حدیث کی کتابوں میں کوئی انصاف والا باب ہی نہیں ہے، نہ بخاری میں، نہ مسلم میں اور نہ ہی (ان سمیت) چھ کتابوں میں۔
وہ عبادت (پرستش) کو تو زیر غور رکھتے ہیں اور ان مرکزی باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو قرآن میں کثرت سے بیان کی گئی ہیں۔ جیسے کہ عقل، انصاف، ایمانداری، علم اور اس کے معیار، انسانی حقوق۔ یہ قرآن میں کثرت سے ذکر ہیں جبکہ ان کو اہمیت نہیں دی جارہی اور وہ ان کو ترک کیے ہوئے ہیں۔
روایات (جمع کرنے) کی تحریک ارباب اختیار کے زیر سایہ چلائی گئی۔ زیادہ تر یہی ہوا ہے کہ بڑے بڑے راوی ظالم حکمرانوں کے درمیان پھلے پھولے ہیں. بہرحال حدیث والے لوگوں کی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کوئی ایک بھی حدیث کو رد کرتا ہے، خواہ وہ قرآن سے ٹکراتی ہو، اس نے سنت رسول کو رد کیا۔ یہ بات درست نہیں ہے۔
حدیث کی دونوں کتابوں (بخاری اور مسلم) میں ایسی حدیثیں ہیں جو واضح طور پر قرآن کے متضاد ہیں۔ اس کے باوجود اہل حدیث (/اہل سنت) اور ان کے سپورٹرز سنت کے تحفظ میں حد پار کر جاتے ہیں۔
ہمارا جھگڑا ان کے ساتھ نہیں۔ ہمیں واضح کر دینا چاہیے کہ جھگڑا نبیؐ کے فرمائے ہوئے مستند ارشادات کے حوالے سے نہیں بلکہ اس حوالے سے ہے جن کا انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ مستند ہیں جبکہ وہ نہیں ہیں، کیونکہ محمدؐ قرآن کے خلاف نہیں کرتے تھے۔ جیسے کہ قرآن میں خود ان کا قول ہے :
کہہ دے کہ میں تو صرف اسی (کتاب) کی اتباع کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ (7:203)
لہذا ایسی (حقیت پر مبنی)حدیثوں کا ملنا نا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر قرآن عقیدے کی آزادی کی ترویج کرتا ہے جبکہ ایک حدیث بھی موجود ہے جو مرتد کی سزا قتل بتاتی ہے۔
اور اللہ یہ بھی فرماتا ہے کہ :
جنت نہ تو تمہارے چاہنے سے اور نہ اہل کتاب کے چاہنے سے ملے گی، جو بھی غلط کرے گا اس کی جزا پائے گا۔ (4:123)
جبکہ صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے جو ابی برادہ نے روایت کی ہے، جس کے مطابق قیامت کے دن ہر مسلمان کو ایک یہودی یا عیسائی کی قربانی دے کر بچا لیا جائے گا۔ نا انصافی پر مبنی یہ حدیث کس طرح قرآن کے انصاف پر پورا اترتی ہے؟
مزید یہ کہ میں نے ایک اہم نکتہ ذکر کیاہے، جبکہ اہل حدیث نے تو پورا پیرامڈ ہی الٹا کر رکھ دیا ہے۔
قرآن کی اہم مرکزی تعلیمات جو کہ اسلام کی روح ہے، جیسے کہ علم، انصاف، اللہ سے ایمانداری۔ چھ حدیث کی کتابوں میں ایک باب بھی عقل کے استعمال کے حوالے سے نہیں ہے اور نہ علم، نصاف، حواس (senses) کا استعمال اور نہ ہی اللہ سے ایمانداری پر کوئی باب ہے۔
یہ صرف خود ساختہ تفصیلات و جزویات میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
میں تمام احادیث کو ایک ہی کیٹگری میں نہیں لاتا لیکن زیادہ تر حدیثیں جو لوگوں کی زبانوں پر ہیں، اگر آپ ایک مبلغ سے 100 حدیثیں سنو تو جان لو کہ اس میں سے 90 وہ ہیں جو محمدؐ سے جھوٹ منسوب کی گئی ہیں اور 10 مستند ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے ہمارا مشورہ ہے کہ قرآن روشنی ہے اور روشنی اپنے آپ کو افشا کرتی ہے اور وہ کسی دوسرے کی محتاج نہیں ہوتی۔

حسن فرحان المالکی :
لیکن شیخ آپ نے یہ کیوں کہا کہ 100میں سے 10 ہی مستند ہیں؟
پرنس محمد بن سلیمان:
کیونکہ ان کے جانچنے کا معیار ہی غلط ہے۔ وہ حدیث کی جانچ قرآن سے نہیں کرتے اور ایسی حدیثوں کو بھی مستند قرار دے دیتے ہیں جو قرآن، عقل، آزادی اور تمام اصولوں سے متضاد ہوتی ہیں۔ ہمیں شروعات سب سے اہم ذریعہ سے لینی چاہیے۔ اگر ہم دیکھیں کہ قرآن ایک معاملے پر بالکل واضح ہے جبکہ حدیث اس کے متضاد ہے تو ہم کس طرف جائیں گے؟
حدیثی شدت پسندوں کےنزدیک جو انسان بھی قرآن کے خلاف آنے والی کسی حدیث کو رد کرتا ہے تو وہ سنت پر حملہ آور ہونے کا ملزم بن جاتا ہے۔ یہ غلط سوچ ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک قرآن ایک غیر اہم (دین کا) ماخذ بن چکا ہے۔ وہ قرآن سے اتنا رجوع نہیں کرتے جتنا روایات سے کرتے ہیں۔ قرآن ان کے لیے سب سے نچلے درجے کا (دین کا) ماخذ ہے۔ وہ صرف زبانی کہنے کی حد تک دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن ہی دین کا اولین بنیادی ماخذ ہے۔ لیکن ہمیں ایماندار ہونے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے گفتگو میں دیانتداری کا حکم دیا ہےکہ :
صادقین (سچ بولنے والوں) کے ساتھ ہو جائو(9:119)
تو دیانتدار ہو کر بات کرتے ہیں۔ جب میں اپنے کلیگز کے ساتھ احادیث کا مطالعہ کر رہا تھا، میں دیانت داری سے بتا رہا ہوں کہ ہم نے قرآن کو ایسا نہیں پایا جیسا کہ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ یہ قرآن سب سے سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے، بلکہ ہمارا خیال یہ تھا کہ بخاری اور مسلم سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
بخاری کے حوالے سے میرے بہت سے نکات ایسے ہیں جن کی رو سے میں شدید اختلاف رکھتا ہوں کہ اس نے انصاف کا باب شامل نہیں کیا۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس (بخاری) نے کھڑکیوں، ڈیکوریشن اور کندھے سے مٹی ہٹانے کے طریقوں کے موضوعات کو تو شامل کیا لیکن انصاف، اللہ سے دیانتداری، عقل، علم اور اس طرح کے دوسرے قرآنی موضوعات پر کوئی باب (Chapter) نہیں بنایا۔
بخاری تو شیخ علی ابن المدینی کا نتیجہ ہے اور سفیان (ابن عُیَیْنَہ) سے نکلا ہے، اور سفیان، الزہری سے نکلا۔ الزہری راوی عبدالمالک بن مروان کے دربار میں (ملازم )تھا۔
ہمیں حدیث کی سند (راویوں کی جانچ پڑتال) سے پہلے اس کے متن کو دیکھنا چاہیے، بلکہ حدیث سے پہلے قرآن کو دیکھنا چاہیے۔ یہ قرآن ہی ہے جو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور یہی وہ کتاب ہے جس پر اللہ نے غور و فکر کا حکم دیا، لیکن وہ غوروفکر نہیں کرتے۔ وہ قرآن کی 50 آیات کو ایک قابل اعتراض حدیث کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ (اہل حدیث/اہل سنت) منکر ہیں لیکن ان کو اس (حقیقت) کا ادراک نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا، انہوں نے اسلام کو الٹا کر رکھ دیا ہے اور قرآن کو نچلے درجے پر رکھ دیا ہے اور بخاری، نوَوِی اور ابن حجر کو عظیم ٹھہرا دیا ہے جیسے کہ وہ ملائکہ ہوں، جبکہ درحقیقت وہ غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ کمزور انسان تھے۔
جو کوئی ان (بخاری، مسلم، نوَوِی، ابن حجر جیسے) لوگوں کے ذریعے ہم پر حملہ آور ہوگا، ہم قرآن کے ذریعے ان پر حملہ کریں گے۔ اگر وہ اپنے آپ کو نرم کر لیتا ہے تو ہم بھی خود کو نرم کر لیں گے۔ تو مہربانی کریں، ہم قرآن کے پیروکاروں کو تو ایک بھی موقع نہیں دیا گیا۔ یہاں پر صحابہ کی پیروی کرنے والے (اہل حدیث، سَلَفی، اہل سنت) بھی ہیں اور نبیؐ کے گھر والوں کی پیروی کرنے والے (اہل تشیع) بھی ہیں، لیکن خالص قرآن کے سچے پیروکار بہت کم ہیں اور ان کو تاریخ میں ایک بھی موقع نہیں دیا گیا، کہ ہم قرآن کو اور جو کچھ اس میں اللہ نے فرمایا ہے اسے سامنے لائیں۔
ان (مسالک) کے نزدیک قرآن کی جگہ کسی اور نے لے لی ہے اور یہ کتاب صرف ان کے نزدیک معموں اور علامتوں کی کتاب ہے۔
وہ قرآن کی غلط تشریح سر زد ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں، جبکہ اللہ نے بتا دیا ہے کہ میں نے اسے آسان بنایا ہے:
بلاشبہ میں نے قرآن کو یاد دہانی کے لیے آسان کر دیا ہے۔ (54:17)
کیا وہ قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر خود ان کے اپنے تالے پڑے ہوئے ہیں؟ (47:24)
ان (مسالک) کا اس آیت پر موقف ہی دیکھ لو کہ:
جن پر غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔ (سورہ فاتحہ کی آخری آیت)
وہ (اہل حدیث/اہل سنت) کہتے ہیں کہ جن پرغضب ہوا وہ یہودی ہیں اور جو گمراہ ہوئے وہ عیسائی ہیں۔ یہ اللہ کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ ان کی اپنی کی ہوئی متعصبانہ تاویل ہے۔ وہ تمام لوگ جو اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے قرآن میں ان کا الگ ذکر ہے۔ وہ سب اس کیٹگری میں آتے ہیں۔ اور وہ تمام لوگ جن کے متعلق اللہ نے قرآن میں بتایا ہے کہ وہ گمراہ ہوئے وہ دوسری کیٹگری میں آتے ہیں۔
اہل حدیث لوگوں نے قرآن پر اپنے بلند و بانگ دعووں کے باوجود اس کا درجہ گھٹا کر اسے ثانوی حیثیت دے رکھی ہے۔ اسی لیے جب آپ ان سے عقیدہ کی آزادی کے متعلق آیت 2:256 کا پوچھتے ہیں تو وہ اس بات کے تعین میں ٹھوکر کھاجاتے ہیں کہ آیا اس مسلمان کو (مرتد قرار دے کر) قتل کردیاجائے یا نہیں جس نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ اللہ نے فرما دیا ہے کہ:
دین میں کوئی زبردستی نہیں ، سیدھا راستہ غلط راستے سے الگ کر کے واضح کر دیا گیا ہے۔ (2:256)
اور یہ بھی کہ اللہ نے ان کی سزا آخرت تک کے لیے مؤخر کر دی ہے۔
کسی کی زندگی لینے کے متعلق قرآن کا حکم صرف قاتل، مفسد اور ظالم کے خلاف ہے۔ جہاں تک مرتد کی سزا کا تعلق ہے تو یہ قانون دانوں (فقہاء جن کی بنیاد حدیثوں پر ہے) کی طرف سے شامل کیا گیا، کیونکہ حکمران چاہتے تھے کہ ان کی مخالفت کو ارتداد کی طرح نمٹا جائے۔
اسی طرح جاعد ابن درھم کو قتل کیا گیا اور دوسرے اصلاح پسندوں کو بھی جیسے کہ جاھم ابن سفوان۔
حسن فرحان المالکی :
آپ بنو امیہ کے دور کی بات کر رہے ہیں؟
پرنس محمد بن سلیمان:
دونوں کی، اموی اور عباسی ادوار میں لوگوں کو بدعت کے نام پرقتل کیا گیا۔ لہذا ہمیں قرآن کی روح کو واپس بحال کرنا پڑے گا۔ کیوں مسلم امت عقل میں سب سے کمزور اور انسانی حقوق کے حوالے سے غیر حساس و غیر متعلقہ ہو چکی ہے؟
کیونکہ قرآن کی روح اور علم و عقل کے اوپر تو روایات غالب آ گئی ہیں۔
(قرآن کا) یہ جملہ “کیا تم سوچ بچار نہیں کرتے” قرآن میں دوسرے جملے “کیا تم ایمان نہیں لاتے” سے کہیں زیادہ بار ذکر ہوا ہے۔
کیونکہ ہماری پوری تاریخ میں ایک بھی کتاب عقل کے استعمال کے متعلق نہیں ہے؟
جب اس (اللہ) نے فرما دیا ہے کہ قرآن کو آسان بنا دیا گیا ہے تو ہمیں اللہ کی بات کو مان لینا چاہیے۔
ہم اس بات کو مانتے ہی نہیں کہ ہاں، اللہ نے اس (قرآن) کو آسان بنادیا ہے۔ یہ انکار حرام بلکہ کفر ہے۔
تو اللہ نے قرآن کو آسان بنایالیکن ہمیں اس کو لازمی طور پر ایک طالب علم کی طرح اپروچ کرنا پڑے گا نہ کہ ایک استادکی طرح۔
زیادہ تر قرآن کو پڑھنے والے لوگ اس کتاب تک رسائی یوں کرتے ہیں جیسے وہ اس (کتاب) کے استاد ہوں نہ کہ کتاب ان کی استاد۔
اگر ہم متنابی کی ایک نظم کو دیکھیں تو ہمیں اس کو سمجھنے میں تھکا دینے والا پورا مہینہ لگ سکتا، لیکن جب ہم ایک قرآنی سورت کو دیکھتے ہیں تو ہم اسے سمجھنے کے لیے جلد بازی کرتے ہیں یا اس کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ یوں قرآن کے ساتھ ہم تکبر سے پیش آتے ہیں۔
قرآن ایک مخصوص اخلاقی طریقہ کار رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ نے رسولؐ کو بھی حکم دیا کہ:
(اے رسولؐ!) اپنی زبان کو جلد ی جلدی حرکت نہ دے، اس (قرآن) کو جمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔ (75:16-17)
اللہ نے (قرآن پر)غور و فکر کرنے، سنجیدگی سے سوچنے اور اس کو ٹھہر ٹھہر کر حصوں میں تلاوت کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو انسان بھی ان اخلاقی اقدار کے تحت نہیں چلے گا وہ قرآن کو نہیں سمجھ سکے گا۔ اگر ہمارے پاس زیادہ وسیع وقت ہوتا تو لوگ قرآن کی عظمت کو دیکھتے اور یہ کہ قرآن خود اپنے آپ میں نور و راہنما ہے اور خود اپنے آپ کو افشا کرتا ہے، اور یہ کہ حدیثی لوگوں کا قرآن کے متعلق تنازعہ اور رکاوٹ (اب) لازمی طور پر اپنے اختتام کو پہنچ جانی چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ قرآن کو بخاری، مسلم، مسند احمد اور باقی تمام فرقوں کی کتابوں سے اوپر رکھا جائے۔ اگر قرآن مجھے ایک بات بتائے اور فرقوں کے مکاتب فکر کچھ اور بتائیں، اگر میرا فرقہ اور میرا شیخ کوئی غلطی کرتا ہے تو اللہ کے ساتھ میری ایمانداری اور دیانتداری کو فوقیت ملنی چاہیے۔ یہ سادہ سی بات ہے (جواب ان سب فرقوں کو سمجھ آجانی چاہیے)۔
اور یہ بات قرآن میں رائج بھی ہے کہ :
اللہ کے لیے گواہی ٹھیک ٹھیک اور درست طور پر دو۔ (2:65)
اور جو کوئی گواہی کو چھپاتا ہے اس کا دل و دماغ اس جرم سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ (2:283)
وہ (اہل حدیث/اہل سنت) تو بالکل ہی قرآن سے آزاد ہیں۔ ان کے لیے تو یہ (قرآن) بس تراویح میں پڑھنے کی چیز ہے اور اس کے ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں، اور بس (کچھ نہیں).
میں سنت کا انکار نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ جب خود کسی مضبوط حدیث کو دوسری حدیث سے متضاد دیکھتے ہیں تو وہ خود ہی اسے رد کر دیتے ہیں۔
لیکن یہ اس حدیث کو رد نہیں کرتے جو قرآن کی سینکڑوں آیات سے متضاد ہو۔ اس سے ان کی روایات اور احادیث سے متعلق جنونیت ثابت ہوتی ہے، اور یہ بلند آواز کر کے شیخی بگھارتے ہیں کیونکہ پوری تاریخ میں ان کو حکمرانوں کی طرف سے حمایت ملتی رہی ہے۔
حسن فرحان المالکی :
شیخ صاحب! کیا آپ عقیدہ کی آزادی اور مرتد کے علاوہ کوئی اور مثالیں بھی دے سکتے ہیں؟
پرنس محمد بن سلیمان:
ہاں کیوں نہیں۔ مثال کے طور پر عدل و انصاف کا معاملہ۔ قرآن میں عدل و انصاف کی مرکزیت کو روزوں، نمازوں، حج اور خیرات سے بھی زیادہ اہم بتایا گیا ہے، کیونکہ اللہ نے اسی (عدل و انصاف کے قیام) کو رسول اور صحیفے بھیجنے کا مقصد بتایاہے۔ لیکن وہ (فرقے) اس کا ذکر تک نہیں کرتے۔ پوری تاریخ میں عدل و انصاف کے متعلق ان کی ایک کتاب بھی نہیں ہے۔
حدیث میں مذکور اسلام کے ستونوں کو نافع بن عمر کی روایت سے لیا گیا ہے، قرآن سے نہیں۔ ہمیں اسلام کے ستونوں کو پہچاننا ہوگا۔ اس بات سے قطع نظر کہ مجھے لفظ “ستون” پر تحفظات ہیں۔ اس طرح کا کوئی معنی (قرآن میں) کہیں ذکر نہیں ہوا۔
اسلام کی بڑی بڑی بنیادیں لازمی طور پر قرآن سے لینی چاہئیں۔ اسلام کے جن ستونوں کے ہم عادی ہوچکے ہیں وہ حدیثوں کی بنیاد پر ترتیب دیئے گئے ہیں، نہ کہ قرآن کے تحت۔ انہوں نے (سب فرقوں نے) انصاف، آزادی اور اللہ کو پہچاننے کے بڑے ذرائع کو چھوڑ دیا ہےاور عبادت (پوجاپاٹ و پرستش) کے لوازمات کو پکڑ لیا ہے تا کہ وہ مسلمانوں کو اپنے تک اور اپنی مساجد تک محدود رکھ سکیں، اچھائی کا کہے بغیر، برائی سے روکے بغیر، علم وعقل اور آزادی کے بغیر۔
انہوں نے معتزلہ مکتب فکر کی تذلیل اسی لیے کی کہ انہوں نے اسلام کے ستونوں میں عدل و انصاف کو شامل کیاتھا۔حالانکہ قرآن کا یہ ایک ستون حدیث کے ستونوں سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ وہ (معتزلہ) اس (عدل و انصاف کے قرآنی ستون) کو شہادۃ (ایمان کی گواہی) کے بعد اور صلٰوۃ سے پہلے رکھتے ہیں۔ جو شخص بھی قرآنی بنیادوں کو پکڑتا ہے یہ (اہل حدیث/اہل سنت) اس کو اپنے خلاف کیچڑ سمجھنے لگتے ہیں، اس پر بدعتی ہونے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ یہ خود بدعتی اور جھوٹی باتیں گھڑنے والے ہیں۔
عقیدہ کی بنیاد حدیثوں کی بنیاد پر ہے، قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ قرآن میں صرف اسلام اور ایمان ہے۔ قرآن میں ہے کہ :
وہی ایمان والے کامیاب ہیں جو اپنی صلٰوۃ میں عاجز ہیں۔ (23:1-2)
ایمان اور جرم کے لیے کیٹگریز ہیں لیکن عقیدہ ایک من گھڑت چیز ہے۔
قرآن یہ راز افشا کرتا ہے کہ پچھلی کتابوں کو بگاڑنے والے کوئی اور نہیں بلکہ مذہبی علماء ومشائخ ہی تھے۔ اللہ یہ ذکر کرتا ہے کہ:
اور جن لوگوں کو الکتاب دی گئی، انہوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد باہمی ضد و حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا۔(3:19)
تو امتوں میں اختلاف اور تنازعات کی وجہ مذہبی علماء و مشائخ ہی تھے جو تحریف کرتے تھے۔ قرآن میں ہےکہ:
ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی اس میں تحریف (تبدیلی) کر دیتے تھے۔ ژ(2:75)
قرآن کو ویران کیا ہوا ہے اس (کے صحیح مفاہیم) کو دوبارہ دریافت کرنا پڑے گا۔ اس دستیاب آزادی کا شکر ہے۔ اسلام کی تاریخ میں قرآن کی حمایت میں یہ پہلا پروگرام ہے۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

بلوچ راجی مچی ڈاکٹر شاہ محمد مری

Spread the love ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نےRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *