Main Menu

پاکستانی زير انتظام جموں کشمیر : فوجی اہلکار کی بچے سے زیادتی، عوام کا کاروائ کا مطالبہ

Spread the love

پونچھ ٹائمز

پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ کی تحصیل دھیرکوٹ کے علاقے چڑالہ میں پاکستانی فوجی اہلکار کی گیارہ سالہ بچے سے مبينہ جنسی زیادتی کا کيس سامنے آيا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بچے کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

تفصيلات کے مطابق پاکستانی فوج کے ادارے سپيشل کميونيکيشن آرگنائزيشن کے اہلکار جس کا تعلق پاکستان کے شہر چکوال سے بتايا جا رہا ہے نے چڑالہ کے رہائشی گيارہ سالہ بچے کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔ عوام علاقہ نے موقع سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے ملزم کو پکڑ لیا اور پوچھ گچھ کرنے پر معلوم ہوا کہ ملزم چکوال کا رہائشی اور پاکستانی فوج کا سپاہی ہے۔ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی فوجی اہلکار موقع پر پہنچ کر ملزم کو چھڑا کر اپنے ساتھ لے گئے۔

عوام علاقہ نے مطالبہ کيا ہے کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں، بچے سے زیادتی کے مجرم کو پولیس کے حوالے کیا جائے اور مروجہ قوانین کے مطابق مجرم کو سزا دی جائے۔

ياد رہے پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے علاقوں ميں پاکستان فوج کے ہاتھوں اسطرح کی جنسی زيادتيوں کے کيس بہت کم ہی منظر عام پر آتے ہيں حالانکہ ايسے کيسز خصوصا کنٹرول لائن سے ملحقہ علاقوں ميں معمول ہيں اور فوج اُن علاقوں کی ناخدا ہے۔ ايسے دور دراز علاقوں ميں فوج ہی سادا نظم و نسق سنبھالے ہوۓ ہے اور مقامی خواتين کو مجبور کر کے يا بہلا پھسلا و ڈرا دھمکا کر آبروريزی ايک معمول ہے۔ کئ علاقوں ميں تو تعليم، صحت اور خوراک کی ذمہ داری ہی فوج کے کنٹرول ميں ہے جبکہ سول محکمہ جات صرف علامتی ہيں۔ ضلع نيلم ويلی سميت ديگر ايسے علاقوں ميں پاکستان فوج کی مرضی کے بغير کسی بھی شخص کا داخلہ ممنوع ہے اور ميڈيا کا تو سوال ہی پيدا نہيں ہوتا۔

يہ بات اہم ہے کہ پاکستان فوج کے خلاف پاکستانی زير انتظام رياست جموں کشمير کے علاقوں ميں کسی قسم کی کوئ قانونی چارہ جوئ خلافِ قانون ہے۔ ان سارے علاقوں ميں کسی پاکستانی فوجی اہلکار پر مقدمہ بھی درج نہيں کيا جا سکتا اور نہ ہی کسی عدالت ميں پيش کيا جا سکتا ہے۔

چڑالہ گاؤں يعنی مسلم کانفرنس کے رہنماؤں سردار عبدالقيوم اور سردار عتيق خان کا آبائ گاؤں ہے جو پاکستان آرمی کی ہر کہيں وکالت پہ مگن رہتے رہے۔ يہ بات طے ہے کہ پاکستانی فوجی اہلکار کے خلاف کسی قسم کی کوئ کاروائ نہيں ہو سکتی چونکہ ايسا کوئ قانون ہئ موجود نہيں ہے تاہم عوام علاقہ کو مطمئن کرنے کے لئے بچے سے زيادتی کرنے والے اہلکار کولی کسی دوسری جگہ پوسٹنگ کر دی جاۓ گی جيسا کہ پہلے بھی ايسے کيس وں ميں ہوتا آيا ہے۔






Related News

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہینRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *