Main Menu

جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بلوچ قومی تحریک اور بلوچ و پختون عوام پر ریاستی جبر پر آگہی نشستیں۔ رپورٹ

Spread the love

جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی باغ برانچ کے زیر اہتمام ضلعی دفتر اور گاؤں دھوندار میں
“بلوچ قومی تحریک کے خدوخال اور بلوچ و پختون
عوام پر ریاستی جبر”۔
موضوع پر آگہی مہم اسٹڈی سرکل منعقد کیے گئے
ورکرز اسٹڈی سرکل کے موضوع ضلعی آرگنائزر ذوہیب گلزار نے زیر بحث لانے کے لیے کھولا اور دیگر کامریڈز نے کنٹری بیوشن دیا ۔
ضلعی برانچ کے اسٹڈی سرکل میں موضوع پر برانچ کی سیکرٹری کرن کنول نے لیکچر ڈیلیور کیا ۔
بلوچ تحریک اپنے ابتدائی مرحلے پر وسائل پر بلوچ عوام کے اختیار کی مانگ تھی، یہ بین الاقوامی طے شدہ اصول ہے کہ اپنی سرزمین کے وسائل پر پہلا حق اس سر زمین کے باشندوں کا ہوتا ہے، اپنی سرزمین کے وسائل اپنے عوام پر استعمال ہونے کے بعد جو وسائل زاہد موجود ہوں ان کو دیگر صوبے، وفاق، یا ملک کو تفویض کرنے کا اختیار وہاں کے عوام کا ہوتا

ہے۔
یوں بین الاقوامی اصولوں کے تحت بلوچستان کی سرزمین پر پائے جانے والے وسائل پر حق اور اختیار بلوچ عوام کا بنتا ہے جس کی مانگ جائز ہونے کیساتھ ساتھ بنیادی جمہوری حق ہے جسے بلوچوں نے استعمال کیا ۔
بدلے میں ریاست نے بلوچوں پر جبروتشدد کے پہاڑ گرائے بلوچ عوام اس ریاستی جبر و تشدد زیر سایہ مرحلہ وار متحد و منظم ہوتے رہے اور کتاب سے رہنمائی حاصل کرتے رہے،
بلوچوں کا منظم ہونا ریاست کے بالادست طبقات کو قبول نہ تھا ریاست نے بلوچ پڑھے لکھے دانشوروں، ڈاکٹرز، پروفیسرز، طلبہ، وکلاء کو چن چن کر مارنا شروع کیا ، ایسے میں بلوچ نیشنل موومنٹ کو یہ فیصلہ لینا پڑا کہ بلوچ قومی موومنٹ کو آگے بڑھانے کے لیے لازم ہے کہ کتاب کی رہنمائی میں اپنے معروض کے مطابق مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جائے اور اس مسلح جدوجہد سے پر امن سیاسی جدوجہد کو ابھارا جا سکتا ہے۔
بلوچ قومی جدوجہد میں یہ نیا مرحلہ تھا جس کی باہیں بازو نے شدید مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ بلوچ قومی تحریک کو لیکر دور رس نتائج پر بلوچوں کے علاؤہ کسی کی پختہ اپروچ نہیں تھی ۔
ریاست کا جبر و تشدد خوفناک بربریت میں تبدیل ہوا اور جبری گمشدگیوں کے ایک نہ تھمنے والے سلسلے کا آغاز ہوا جس پر بلوچوں کا بہت واضح موقف رہا ہے کہ ماہوراے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور اگر کوئی مجرم ہے تو ریاستی اداروں میں کیس ٹرائل کیے جاہیں اور جبری طور پر گمشدہ افراد کو سامنے لایا جا جن کی آج تعداد ہزاروں میں ہے ۔ جبری گمشدگیوں کے باوجود جب بلوچ عوام زیادہ منظم ہوئے تو ریاست نے خوف اور ڈر پیدا کرنے کے لیے مسخ شدہ لاشیں پھینکنا شروع کیں جو کہ انسانیت سوز ہونے کیساتھ ساتھ جنگی قوانین کی خلاف ورزی تھی جو ہنوز جاری ہے ۔ مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا ریاستی عمل دنیا کے سامنے بینقاب ہوا تو پھر دنیا نے دیکھا کہ بلوچوں کی غائبانہ اجتماعی قبریں منظر عام پر آہیں یعنی جبری گمشدگیوں کے بعد گمشدہ اجتماعی قبریں یہ ریاست کے منہ پر تمانچہ ہے۔
ان حالات میں بلوچوں کے لیے جہاں سوال جبری گمشدگیوں کا تھا سوال اجتماعی نسل کشی کا تھا وہیں پر سوال یہ بھی تھا کہ سرداریت سے قومی تحریک کو باہر کیسے لایا جائے ۔ بلوچ تحریک اب اس مرحلے میں داخل ہو چکی تھی کہ سرداریت سے قومی تحریک کو باہر لایا جائے جس میں بہتر حکمت عملی اور مسلسل فکری اور نظری بحثوں سے کامیابی ملی اور بلوچ سرداروں اور بلوچ عوام کے درمیان واضح صف بندی ہوئی اور اکبر بگٹی کے بعد بلوچ تحریک سرداریت سے واضح طور پر باہر نکل گئی ۔ اب بلوچ تحریک کا اگلا مرحلہ پرامن سیاسی جدوجہد کا طاقتور اظہار تھا جس پر بہت گہرائی سے کام کرتے ہوئے گزشتہ سال خواتین کی قیادت میں لانگ مارچ کا اسلام آباد میں اظہار تھا اور یہ ایک طاقتور اظہار تھا جس نے ریاستی مشینری کو ہلا کر رکھ دیا اور ریاست پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوئی اور بلوچ تحریک کے سامنے بے بس ہوئی ۔
اس لانگ مارچ کے بعد بلوچ قومی تحریک حتمی مرحلے میں داخل ہو گئ ہے۔
بلوچ اپنے قومی و معاشی حقوق کی مانگ کو لیکر سڑکوں پر ہیں اور حالیہ دنوں ریاست نے جو بربریت اور ریاستی دہشت گردی پر امن مظاہرین پر کی ہے ریاست نے اپنے لیے بنگلہ دیش والے حالات پیدا کیے ہیں ۔
دوسری طرف پختونوں کا قتل عام جاری ہے ۔ ان سارے حالات میں اس پورے ریجن کی محکوم اقوام کے لیے بلوچ قومی تحریک راہنمانہ ہے اور مشعل راہ ہے ، محکوم اقوام کے عوام اور ترقی پسند قوتوں کو خوف توڑ کر بلوچوں اور پختونوں پر ہونے والے ظلم،جبر،بربریت اور ریاستی فاشزم کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیے۔ چونکہ محکوم اقوام کی وسائل پر اختیار اور آزادی کی جدوجہد مشترکہ بنتی ہے۔
اور باہیں بازو کی فکر رکھنے والی قوتوں کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ محکوم اقوام کی نجات اور آزادی سے ہی برابری کی بنیاد پر کسی سوشلسٹ فیڈریشن کی طرف پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی بلوچوں اور پختونوں سمیت دنیا بھر کے محکوموں اور مظلوموں پر ہونے والے جبر و تشدد کی مزامت کرتی ہے ، اور محکوم اقوام کی جدوجہد آزادی کی نہ صرف حمایت کرتی ہے بلکہ واضح موقف رکھتی ہے کہ مارکسزم کے تناظر میں قومی آزادی کی جدوجہد کی حمایت اور اس میں موجود مارکسی عنصر کی سپورٹ کرنا فرض عین ہے ۔
پاکستان کے باہیں بازو کو پاکستان میں موجود محکوم اقوام کے آزادی کے پرچم کو بلند کرنا چاہیے یہی مارکسزم کا سبق ہے ۔






Related News

توہین مذہب یا سیاسی و سماجی مخاصمت اظہر مشتاق

Spread the love پاکستان اور اس کے زیر انتظام خطوں میں گذشتہ دہائی میں توہینRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *