Main Menu

بنوں: لاشوں کے ساتھ اسلام آباد کيطرف مارچ کرنيوالے مظاہرين پر رياستی تشدد، درجنوں گرفتار

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

پاکستان کے ضلع بنوں کے علاقے جانی خیل میں چار نوجوانوں کو لگ بھگ ایک ماہ قبل غائب کر دیا گيا تھا اور بعد ازاں ان کی لاشیں ملیں۔ تفصيلات کے مطابق چار دوست احمد اللہ ، محمد رحیم ، رمز اللہ اور عاطف اللہ تین ہفتے پہلے شکار کے لیے گئے ۔ ان کے کتے واپس آ گئے مگر ان کا کوئی پتہ نشان نہ ملا ۔ تین ہفتوں بعد ، اکیس مارچ کو اک چرواہے کی اطلاع پر چاروں دوستوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں مليں۔ ان کی عمریں تیرہ سے سترہ سال ہیں۔
نوجوانوں کے لواحقین اور اہلِ علاقہ نے مقتول نوجوانوں کی لاشیں جانی خیل کے فوجی قلعے کے سامنے رکھ کر احتجاجی دھرنا شروع کيا جو کہ سات دن جاری رہا مگر حکومت نہ تو مظاہرين کے پاس گئی اور نہ ان کی بات سنی ۔ بتايا جا رہا ہے کہ حکومت يا انتظاميہ تو مظاہرين کے پاس نہ گئ البتہ چند علماء حکومت نے مظاہرين کے پاس بھیجے جنہوں نے مظاہرين کو بتایا کہ نوجوانوں کی لاشیں دفن کر دیں نہیں تو سب جہنم میں جائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق آج جانی خیل کے لوگوں اور دیگر پختونوں نے مقتولوں کی لاشوں سمیت اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیا جسے انتظاميہ نے کنٹينر لگا کر روک ديا۔ مظاہرين پر لاٹھی چارج، آنسو گيس کے استعمال کرتے ہوۓ متعدد افراد کو گرفتار کرنے کی بھی اطلاعات ہيں۔

مظاہرين کا مطالبہ ہے کہ ان کے علاقے سے سرکاری سرپرستی میں موجود دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے، علاقے میں امن بحال کیا جائے اور قاتلوں کو گرفتار کیا جائے اور قاتلوں کے سرپرستوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ تاہم اس بارے ميں ابھی مزيد تفصيلات کا انتظار ہے۔

ان میں سے ایک بچے کی ماں کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے سو روپئے لے کر گیا تھا ۔ میں نے اسے منع بھی کیا تھا کہ مت جاؤ ۔ واپس آیا ہے تو تابوت میں۔

دوسرے بچے کا عزیز کہہ رہا ہے کہ یہ تو ہو گیا ، ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا نہ ہو ۔
سوشل ميڈيا صارفين اس معاملے پر انتہائ مشتعل ہيں اور اُنکا کہنا ہے کہ ایسے میں ہم حب الوطنی کے گیت گائيں؟ ایسا تو بالکل بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ ریاست کو نہ ہماری جان کی پرواہ ہے اور نہ مال کی بلکہ اُلٹا اپنے محکموں اور کرائے کے قاتلوں کی مدد سے ہماری نسل کُشی میں مصروف ہے اور اُلٹا لوگوں سے حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ مانگ رہی ہے۔ صارفين کا کہنا ہے کہ پشتون اور بلوچ پاکستان میں غلام کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں اور غلام قوموں کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ اپنے اور اپنے وطن کے اوپر قابض ریاست کے ساتھ اپنی حب الوطنی ثابت کریں۔

سوشل ميڈيا پر لوگ مختلف سوالات لئے نظر آۓ جن ميں سے چند سوالات مندرجہ ذيل ہيں

ان بچوں کو کس نے مارا؟
فوج نے یا دہشتگردوں نے؟
کیا یہ ممکن نہیں کہ فوج کے وہ افراد جو احسان اللہ احسان کے فرار سے لے کر جی ایچ کیو یا مہران بیس حملوں اور کئی دوسری کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں اس قتل میں بھی شامل ہوں؟
اور اگر یہ قتل دہشتگردوں نے کیئے ہیں تو وہ جو چار سال سے راگ الاپے جا رہے ہیں کہ ہم نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے، کیا وہ جھوٹ اور ڈرامہ ہیں؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان معصوموں کے قتل کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *