دوہرے جبر کا شکار عورت؛ تحرير: داؤد حسرت
یوں تو مجموعی طور پر ظلم ، جبر ، استحصال کا آغاز تب ہوا جب پہلی بار نسل انسانی دو طبقات میں تقسیم ہوئی۔ تب سے آج تک طبقاتی دنیا مخلف ادوار سے گزری۔ غلام داری ، جاگیرداری اور اب سرمایہ داری۔۔۔ مگر ہر عہد کے اندر مظلوم و محکوم طبقے کی عورت دوہرے جبر کا شکار رہی۔۔۔ غلام داری میں اپنے آقا کی غلامی ، جنسی تشدد اور زندہ دفن کیے جانے سے لے کر اپنے ہی طبقے کے مردوں کے ہاتھوں مختلف ذہنی اور جسمانی تشدد تک طویل دوہرے ظالمانہ دور سے گزری۔
اسی طرح جاگیر داری کے اندر اک طرف کھیتوں میں کام کرنا پڑتا جبکہ دوسری طرف جاگیر داروں ، وڈیروں کی خدمت گاری کے ساتھ ساتھ گھر داری، بچے پالنا اور ظالم طبقات کے بنائے ہوئے فرسودہ چادر اور چار دیواری جیسے رسومات کی پاسداری کرنا۔ کبھی اپنے ہی طبقے کے مردوں کے ہاتھوں جھوٹے رسم و رواجات سے بغاوت کی پاداش میں عزت اور غیرت کے نام پر قتل کیا جانا۔۔۔۔۔۔الغرض عورت جاگیرداری کے طویل ، کٹھن دور سے دوہرے مظالم سہتی ہوئی گزری جس کے اثرات آج بھی دنیا کے پسماندہ ملکوں میں موجود ہیں اور دیکھے جارہے ہیں۔
دنیا میں عورت کے دوہرے استحصال کا تیسرا دور سرمایہ داری جو تاحال جاری ہے جس میں عورت کو ایک طرف کھیتوں میں محنت اور دیگر کاموں سے اٹھا کر کارخانوں میں مشینوں پہ لگایا گیا اور دوسری طرف اسے شے بنا کے سرمایہ داروں کی اشیا کی فروخت کے لیے اشتہار بازی کے لیے اس کے جسم کی نمائش کی جاتی ہے۔اس منافع کے لیے قائم عہد کے اندر سرمایہ داروں نے مختلف کبہ خانوں بنائے ہیں جس میں عورت کی بھوک ننگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا جسم بیچا جاتا ہے۔موجودہ عہد کے اندر ہر شعبہ زندگی میں عورت کا ہر لحاظ سے بد ترین استحصال ہورہا ہے۔
عورت کے اس دوہرے جبر کی داستاں کا تبھی خاتمہ ہوگا جب تاریخ انسانی میں پہلی بار محنت کش اور سرمایہ دار کا ٹکراو ہوگا اور نیا غیر استحصالی انسانی نظام سوشلزم قائم ہوگا جس میں پہلی بار عورت کو دوہرے ظلم ، جبر اور استحصال سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More