Main Menu

آزادکشمیر میں آٹے کی قیمتیں اور ممکنہ ردِ عمل ؛ تحرير: قیوم امام ساقی

Spread the love

جب کسی حکمران کے برے دن آتے ہیں تو وہ عوام کی روزی روٹی کو مشکل بنا دیتا ہے۔ آزادکشمیر میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران آٹا تقریباََ چھ سو روپے من مہنگا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ساٹھ فیصد عوام بری طرح متاثر ہو چکے ہیں کچھ غریبوں کے گھروں میں تو فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔ کیونکہ ایک طرف آزادکشمیر جیسے پس ماندہ معاشرے میں دومرتبہ لاک ڈاؤن کر دیا گیا جس کی وجہ سے ایک عام دیہاڑی دار بری طرح طرح مفلوج ہو کر رہ چکا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت آزادکشمیر کی طرف سے دو مرتبہ لاک ڈاؤن لگانے کے باوجود کسی امدادی پیکیج کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی بلکہ آزادکشمیر کے غریب لوگوں کی اس سے پہلے جو بیت المال اور زکواۃ کے ذریعے مدد کی جاتی تھی اس کو بھی گزشتہ تین چار سال بند کر دیا گیا ہے۔ یاد رکھنا چائیے کہ فی زمانہ ہر معاشرے میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جن کو ریاستی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور دنیا بھر میں ریاستیں غریب لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لیے اقدامات کرتی نظر آتی ہیں یا کم از کم ان کو بھوک سے مرنے نہیں دیتی لیکن آزادکشمیر جس طرح نام کی ریاست ہے اسی طرح اس میں نام کی حکومت ہوتی ہے۔ ایسی حکومت جس کو اپنی حدود و اختیارات کاکچھ بھی علم نہیں ہوتا یہ مسلہ صرف فاروق حیدر حکومت تک محدود نہیں، بلکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی عوامی مسائل مشکلات کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔ مگر فاروق حیدرحکومت سے آزادکشمیر کے عوام کچھ تواقعات وابستہ کیے ہوئے تھے۔ زیادہ تر عوام کا خیال تھا کہ فاروق حیدر ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں کچھ بہتر کریں گے۔ کیونکہ وہ عوامی مسائل کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر بد قسمتی سے فاروق حیدر حکومت عوامی تواقعات کے بر عکس ثابت ہوئی ہے اور آزادکشمیر کے عوام ان کے دور حکومت میں مسائل کے جنگل میں پھنس کر رہ گئے ہیں آج آزادکشمیر میں سینکڑوں گھرانے ایسے ہیں جو بری طرح فاقہ کشی میں مبتلا ہو چکے ہیں بلکہ آزادکشمیر کے سفید پوش کرونا سے مرنے کے بجائے مہنگائی سے مر رہے ہیں۔ حکومت تو صرف کرونا سے مرنے والوں کے اعداد شمار نوٹ کر رہی ہے مگر جو لوگ مہنگائی غربت اور بھوک سے مر رہے ہیں ان کا حکومت ذکر نہیں کر رہی کیونکہ مہنگائی بے روزگاری اور بھوک سے مرنے والوں کے اعداد وشمار خود حکومت کے کپڑے اتروا سکتے ہیں اس لیے ایسی تمام اموات کو بھی کرونا کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آزادکشمیر کے حکمرانوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم تو نظر آجاتے ہیں مگر خود آزادکشمیر میں وہ جبر محسوس نہیں ہو رہا جس کے محرک وہ خود ہیں کیا کبھی مقبوضہ کشمیر میں صرف ایک ماہ کے دوران آٹا چھ سو روپیہ مہنگا ہو سکا ہے یقیناََ مقبوضہ کشمیر کی پوری تاریخ میں آج تک ایسی مہنگائی نہیں کی گئی جس سے انسانی زندگی ساکت ہو کر رہ جائے کیا یہ درست نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں صرف چند مطلوبہ افراد کو تلاش کر کے گولی مار دی جاتی ہے مگر آزادکشمیر میں تمام عوام کو بھوک سے مرنے کا اہتما کر لیا گیا ہے۔ مجھے اس موقع پر بھارت کے ایک وزیر کا تین سال پہلے دیا گیا انٹرویو یا د آرہا ہے کوئی تین سال پہلے بھارت کے کسی وزیر سے ایک صحافی نے سوال کر دیاتھا کہ بھارت حکومت اکثر یہ کہتے ہوئے نظر آتی ہے کہ دہشت گردی پی او کے سے ہو رہی ہے تو بھارت حملہ کر کے پی او کے لے کیوں نہیں لیتا؟ تاکہ ہمیشہ کے لیے دہشت گردی سے جان چھوٹ جائے۔ تو جواب میں اس وزیر کا کہنا تھا کہ بھارت ایسا کر سکتا ہے مگر اس طرح خون خرابہ ہو گا نفرتیں بڑھیں گی ہم چاہتے ہیں کہ پی او کے عوام بھارت میں جانے کا مطالبہ کریں۔ صحافی نے کہا ایسا تو پی او کے کے عوام کبھی نہیں کریں گے تو وزیر کا جواب تھا کہ وہ اس وقت ایسا کریں گے جب آزادکشمیر میں آٹا تین ہزار روپے من ہو جائے گا۔ اگر ہم اس بھارتی وزیر کی بات کو درست مان لیں تو اس وقت آزاد کشمیر کے کچھ علاقوں میں آٹا تین ہزار روپے من تک پہنچ چکا ہے۔ اب آزادکشمیر کے عوام بخوبی یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر ایک ماہ کے دورا ن آٹے کی قیمتیں چھ سو روپے فی من کے حساب سے بڑھا دی گئی ہیں تو آئندہ ایک سال میں آٹے کی قیمتیں کہاں پہنچ جائیں گی ایسی صورت میں بھارتی وزیر کی بات کو مسترد کرنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ جب عوام کے پاس زندہ رہنے کا ہر آپشن ختم ہو جائے گا اس کے بعد وہ عمران خان یا فاروق حیدر سے وفاداری نبھانے کے بجائے اپنی زندگی بچانے کی کو شش کریں گے
راقم ایسے سینکڑوں گھرانوں کے حالات سے آگاہ ہے جن کے گھروں میں پہلے لاک داؤن کے دوران ہی فاقے شروع ہوگئے تھے۔ دوسرے لاک ڈاؤن میں وہ تمام گھرانے موت اور زندگی کے درمیان جھول رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے اخبارات سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت آزادکشمیر کو بار بار نظام زکواۃ میں بہتری لا کر نظام، زکواۃ کے ذریعے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تڑپتے سسکتے عوام کی مدد کرنے کا مشورہ دیا۔ مگر بد قسمتی سے حکومت نے ا س کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا آج بھارت کے کیسانوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب عوام اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو پھر حکمرانوں کی تمام تر طاقت خس و خا شاک کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔

وزیر اعظم فاروق حیدر کو عوامی مسائل کا با خوبی اندازہ ہونا چائیے تھا کیونکہ وہ وزیر اعظم بننے سے پہلے ایسے حالات کا مشاہدہ کر چکے ہیں جب وہ طویل عرصے تک ٹینٹ میں رہے تھے۔ وہ ایک سیاست دان کی حثیت میں ٹینٹ میں بھی شاہانہ زندگی گزارتے رہے ہوں گے لیکن وہ ٹینٹ میں رہنے کے دوران یہ تجربہ تو کر سکتے تھے کہ عام آدمی یا دیاڑی دار بے روز گار ہو کر جب مہنگائی کی زد میں آجاتے ہیں تو ان کی کیا حالت ہوتی ہو گی ہم ایک مرتبہ پھر اس کالم کے ذریعے وزیر اعظم فاروق حیدر سے گزارش کرتے ہیں کہ نظام زکواۃ کو حرکت دیں۔ اس نظام ماتحت کام کرنے والی عوامی کمیٹیوں کو متحرک کریں اور فاقہ کیش لوگوں کو بچانے کی کوشش کریں اس وقت وزیر اعظم آزادکشمیر کے لیے دو کام خود ان کے اپنے سیاسی وجود کے لیے انتہائی ضروری ہیں ایک آٹے کی قیمتوں کو واپس لینا اور دوسرا کنٹرول لائن کے متاثرین اور زخمیوں کی فوری مدد کرنا شامل ہے اگر وزیر اعظم یہ دو کام کر سکے تو پھر وہ سیاسی طور پر زندہ رہیں گے اگر وہ یہ کام نا کر سکے تو وہ اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ ن لیگ کو بھی ہمیشہ کے لیے آزادکشمیر میں دفن کر دیں گے وزیر عظم شاہد یہ بھول رہے ہیں کہ جب آزادکشمیر میں آٹے کی حالیہ قیمتیں برقرار رہیں گی تو آزادکشمیر کے ہزاروں افراد بھوک کے باعث موت کی دہلیز پر پہنچ جائیں گے لازمی طور پر وہ خود اور اپنے بچوں بھوک کو عذاب سے بچانے کے لیے ایسا رد عمل بھی دے سکتے ہیں جس کی نشاندہی ایک بھارتی سیاستدان تین سال پہلے کر چکا ہے۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *