Main Menu

گلگت بلتستان میں عام انتخابات، عبوری صوبہ بیانیہ مسترد؛ تحریر : منظور حسین پروانہ

Spread the love

گلگت بلتستان میں عام انتخابات 15 نومبر 2020ء کو اختتام پذیر ہوئی، اس بار انتخابات حکومت پاکستان کی نافذ کردہ قانون الیکشن ایکٹ 2017 ء کے مطابق ہوئی جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کی قومی و مقامی سیاسی جماعتوں کو پارٹی پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے قومی جماعتوں کے نمائندوں بالاورستان نیشنل فرنٹ کے سپریم لیڈر نواز خان ناجی اور نفیس احمد ایڈووکیٹ، قراقرم نیشنل موومنٹ کے رہنماء تعارف عباس اور ممتاز نگری، گلگت بلتستان یونائیٹڈ موؤمنٹ کے چئیرمین منظور پروانہ، بلتستان یوتھ الائنس کے صدر شبیر مایار اور بی این ایس او کے رہنماء شیر نادر وغیرہ کو بطور آزاد امید وار انتخابات میں شامل ہونا پڑا۔ گلگت بلتستان کی قومی اور مقامی سیاسی جماعتوں کو پارٹی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کی آزادی نہ دینا بنیادی انسانی حقوق، جنیوا کنونشن اور آئین پاکستان سے متصادم تھا جس کی وجہ سے الیکشن کا عمل روز اول سے ہی گلگت بلتستان کی سیاسی رہنماؤں کی بابت متعصب رہا۔ قوم پرست و حق پرست رہنماء شبیر مایار اور انجنئیر منظور پروانہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت شیڈول فور میں شامل ہونے کی وجہ سے انتخابی سرگرمیاں کرنے سے معذور رہے، ان رہنماؤں کی شیڈول فور سے اخراج کی درخواستوں کو مسترد کر کے انہیں انتخابی و سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے شبیر مایار کو انتخابی عمل سے مکمل طور پر دستبردار ہونا پڑا جبکہ منظور پروانہ نے ایک اور آزاد امید وار کے ساتھ انتخابی اتحاد کرکے اپنے حلقے سے وفاقی پارٹیوں کو شکست فاش دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
گلگت بلتستان میں انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی پاکستان کی حکمران جماعت اور حزف اختلاف کی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امین گنڈا پوری، پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری،مسلم لیگ ن کی خاتون رہنماء مریم نواز اور دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ڈھیرے ڈال دیے۔
وفاقی جماعتوں کے رہنماؤں نے عوام سے ووٹ لینے کے لئے جگہ جگہ جلسے جلوس کئے اور بڑے بڑے اعلانات کئے جن میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان سر فہرست تھا، الیکشن سے قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی گلگت بلتستان کا دورہ کر کے عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ وفاقی پارٹیوں کی عبوری صوبہ حق ملکیت و حق حکمرانی کے بیانیے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی عوام نے سات آزاد امید واروں کو ووٹ دے کر کامیابی دلائی۔ جس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لئے آزاد امید واروں کے چرنوں میں آنا پڑا جبکہ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی دو اور تین سیٹوں پر ڈھیر ہو گئی، گلگت بلتستان کی عوام نے اس بار باشعور ہونے کا ثبوت دیا ہے اور پہلی بار حکمران جماعت کی الیکٹیبلز کو بری طرح شکست فاش دے کر یہ واضع پیغام دیا کہ یہاں کی عوام اب کسی عبوری صوبہ کے لولی پاپ اور جھوٹے اعلانات کے دھوکے میں آنے والے نہیں ہیں۔ تمام نامی گرامی لوٹوں کو ناکام بنا کر لوٹا کریسی کی وفاقی پالیسی کو بھی مردہ باد قرار دیا ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 ء کے مطابق آزاد امید واروں کو کسی بھی سیاسی پارٹی میں شامل ہونا لازمی ہونے کی وجہ سے آزاد امید وار اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکے اور بحالت مجبوری حکمران جماعت میں شامل ہو گئے جبکہ آزاد امید وار نواز خان ناجی نے اپوزیشن بنچ پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر آزاد امید واروں کو حکومت بنانے کی قانونی گنجائش ہوتی تو اس دفعہ گلگت بلتستان میں آزاد منتخب نمائندوں کی حکومت بننی تھی۔اس طرح گلگت بلتستان کی عوام کی اظہار رائے اور وفاقی جماعتوں پر عدم اعتماد کو قانونی پیچیدگی کے ذریعے غیر موثر کر دیا گیا۔
حالیہ انتخابات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام وفاقی پارٹیوں سے تنگ آچکی ہے عوام میں مقامی و قومی آزاد امید واروں کو ووٹ دینے کا رحجان بڑھ گیا ہے، عوام مقامی وقومی آزاد نمائندوں پر مشتمل اسمبلی کی تشکیل کی خواہ ہاں ہے، تنازعہ کشمیر کی حل تک گلگت بلتستان کی عوام نے عبوری صوبہ کی حکومتی بیانیہ کو مسترد کی ہے، عوام گلگت بلتستان میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق مقامی خود اختیاراتی اسمبلی کی تشکیل چاہتی ہے۔اگر عوامی خواہشات کے بر عکس عبوری صوبہ نام دے کر گلگت بلتستان میں نو آبادیاتی نظام حکومت کو تقویت دینے کی مہم جوئی کی تو عوام کا سخت رد عمل سامنے آنے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تنازعہ کشمیر سے منسلک رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کی حیثیت میں تبدیلی سے انقلابی جدو جہد کے لئے راہ ہموار ہوگی۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *