زخموں سے بھرا دامن ھے میرا ؛ تحرير: امتیازفہیم
جموں کشمیر کی موجودہ صورت حال پہ جہاں بھارت کی طرف سے کچھ زیادہ ہی اضافی فوجی دستے تعینات کئے جا رہے ہيں سیر و سياحت کرنے والوں کو باھر نکالا جا رھا ہے۔
اور پس پردہ ان سب اقدامات کے یہ وجوھات سوشل میڈیا پہ گردش کر رھی ھیں کہ آرٹیکل 35 A کا خاتمہ کرنے کی تیاری کی جا رھی ھے مزید برآں یہ کہ بھارتی افواج کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ کیا جا رھا ھے اس عمل کا یہ حوالہ بھی دیا جا رھا ھے کہ متحدہ ریاست جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا خاتمہ کرنے کی طرف پیش رفت ھو رھی ھے۔کچھ احباب اس سارے جارحانہ و توسیع پسندانہ عمل پہ اپنی صدا سوشل میڈیا پہ اٹھا رھے ھیں۔ چند اک احباب سوالات پہ سوالات اٹھا رھے ھیں اور کچھ ایک مہان قلم کار کبھی قوم پرستوں کو کوستے ھیں کبھی آواز سے آواز ملانے کی باتیں ھو رھی ھیں۔
اس پار سے جناب سید علی گیلانی صاحب نے اپیل کی ھے کہ ھم بہت مشکل میں ھیں مسلمان ھمارا ساتھ دیں حالانکہ ان کے اپنے بچے انڈین گورنمنٹ کے ملازم ھیں یہ ہمیشہ دوسروں کے بچوں کو الجہاد الجہاد پہ اکساتےرھے ھیں۔ پھر یہ بھی ایک المیہ ھے کہ ھمارے کچھ احباب آج بھی کشمیر صرف سرینگر ویلی کو ھی سمجھتے و مانتے ھیں۔
جہاں کا عالم یہ رھا ھے کہ وہاں پراکسی وار تو ھوتی رھی مگر کوئی قومی و طبقاتی آذادی کی جہدوجہد کے خدا خال نظر نہیں آئے نہ اس سے قبل جموں سے نہ کشتواڑ سے نہ اس پار پونچھ سے نہ لداخ و کارگل سے بھی کوئی قومی جہدوجہد پہ مبنی کوئی آثار ملے ھیں۔
قبل ازیں پاکستان کے حکمران طبقات نے ریاست ھائے متحدہ جموں کشمیر و لداخ و گلگت و بلتستان پہ اپنا جابرانہ ڈاکہ ڈالا گلگت گلستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا گیا وھاں پہ مزاحمت کرنے والوں کو جیل میں ڈالا۔ بابا جان ، افتخار کربلائ و اُنکے ساتھيوں کو 40 اور 90 سالوں کی سزائيں سنائی ۔ دیگر آذادی پسندوں کو زنداں میں بند کیا جو اب تک قید ھیں جانے اس وقت یہی احباب اس قدر جذباتی کیوں نہ ھوئے؟؟؟؟؟،،،
جانے کیوں اس وقت سب نے مل کر سوشل میڈیا پہ ھی سہی اتنے سوالات کیوں نہیں اٹھائے ؟؟؟؟
ویلی کے سیاسی زعماء کا ہمیشہ یہ مسلہ رھا ھے انہوں نے خود اس تقسیم شدہ ریاست کو مزید تقسیم کرنے کے حالات پیدا کئے ھیں اگر دیکھا جائے تو وھاں محض چند اک کو چھوڑ کر کبھی کسی مہان آذادی پسند نے جموں کشتواڑ پونچھ لداخ و کارگل کے لوگوں کے حقوق کی کوئی بات کی نہ ان کو قومی جہدوجہد کے دھارے میں شامل کرنے کی کوئی کوشش کی ھے
جب محدود افکار اور محض مذھبی سوچ کی بنیاد پہ کشمیر کو فقط مسلمانوں کا مسلہ بنا کر پیش کیا جاتا رھا۔ اس وقت پاکستانی کشمیر کے کہیں ایک ترقی پسند دانشور یہ کہتے رھے کہ سرینگر میں کوئی قومی آذادی کی تحریک نہیں ھے بلکہ ایک پراکسی وار کا کھیل کھیلا جا رھا ھے جو بلا آخر مستقبل میں مزید تقسیم کا باعث بنے گا ۔
یہ درست ھے کہ پاکستانی کشمیر میں بھی قومی آذادی کی تحریک کوئی بہت زیادہ انقلابی طریقے سے منظم نہیں ھو سکی اور یہ بھی مانا جا سکتا ھے آذادی پسند قوتیں تقسیم کا شکار ھوئی ھیں مگر ایک طویل مدت تک غلامی کے اثرات کا تجزیہ نہ کرنا اور صرف الزامات عائد کر دینا تو کوئی بڑی بات نہیں ھے گروپ بندی میں تقسیم ھونے کے باوجود یہاں پہ قومی و طبقاتی آذادی کا شعور کافی حد تک بیدار ھوا ھے اور یہ بعید نہیں ھے کہ اپنی بیشمار خرابیوں و کوہتایوں کے باوصف کل کلاں یہی شعور ایک انقلابی جڑت کا روپ دھار لے
یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ بھارت کی % 70 سے زائد آبادی غربت کی اوسط لکیر سے نیچے رھنے پہ مجبور ھے کسان آتما ھتیہ۔ مطلب خود کشی کر رھے ھیں بیروزگاری خطرناک حد تک بڑ رھی ھے شرع خواندگی میں اضافہ ھو رھا ھے بیگانگی عام لوگوں کا طیرہ بنتی جا رھی ھے۔
مزید برآں یہ امر بھی بہت واضح ھے کہ ریاست ھائے متحدہ جموں کشمیر کی اس موجودہ مزید تقسیم اور اس کی متنازعہ حیثیت کے خاتمے کی کڑیاں عالمی سامراجی مفادات سے بالا تر نہیں ھیں حال ھی میں سامراج نے اپنے سدا کے خدمت گزاروں کو اپنے در پہ بلا کر جو نئے نئے حکم نامے جاری کئے ھیں ان میں سے ایک ممکنہ حکم یہ بھی ھو سکتا ھے کہ کشمیر کی مزید بندر بانٹ کرتے ھوئے سامراجی مفادات کو تقویت پہنچاتے ھوئے چین کی ابھرتی ھوئی اور مزید ترقی کرتی ھوئی اجارے داری کی طرف بڑھتی ھوئی معشیت کو لگام دینے کی سعی کی جائے اور سی پیک جیسے طویل و کثیر رقم منصوبے سے سامراج کو بھی بلواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ پہنچایا جائے ۔
اس سارے عمل کا وہ تاریخی پہلو نہایت کرب ناک دکھ دہ خطاوں سے بھرا پڑا ھے کہ مقبول بٹ شہید اور ان کے رفقاء کا راستہ اپنانے کی باتیں و نعرے آج تک بلند کئے جا رھے ھیں مگر ان حالات کا تجزیہ کرنے قومی و طبقاتی آذادی کی تحریک کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ لینے کی بجائے محض جذباتی بیانات لکھنے یا اپ لوڈ کرنے سے ھم کبھی بھی سچی آزادی کی منزل حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اور نہ اس سے قبل حاصل کر پائے یہاں یہ سوال بھی نہایت اھم اور سنجیدہ غور و فکر کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ کیا طبقاتی مفادات سے بالاتر فقط نہرو ٹائپ آذادی کی تحریک کے اس سے قبل کسی مظلوم و محکوم قوم یا طبقے کو کوئی فوائد حاصل ھوئے بھی ھیں یا یہ کہ جعلی آذادی کے نام پہ بننے والے ممالک میں آج بھی فقط ایکطبقہ ہی آزاد ہے اسی کا سارے وسائل پہ اختیار و کنٹرول ھے جہاں آج بھی عام انسان رینگ رینگ کر زندگی دھکیلنے پہ مجبور محض ھے ۔
ان حالات میں کشمیر میں اس کی متنازعہ حیثیت کا اگر وھاں کے حکمران طبقات خاتمہ کرنے کا منصوبہ بناتے ھیں یا بنا چکے ھیں تو یہ ان کے لئے بھی بہت مشکل تہرین ثابت ھو گا ۔ اور ھمارے لئے بھی بد تہرین ثابت ھو گا یہی حال پاکستان کا بھی ھے جہاں حکمران طبقات اقتدار و اقتدار کا کھیل جاری رکھے ھوئے ھیں ۔
اس لئے آواز ضرور اٹھائیے اپنے حق کے لئے، اپنے کل کے لئے اپنی نسلوں کے لئےاور محنت کشوں کے لئے کہ جب تک ان دونوں ممالک کے محنت کش متحد و منظم نہیں ھوتے جب تک پوری ریاست ھائے کآشومیر کے لوگ منظم نہیں ھوتے تب تک زلتوں سے نجات ممکن نہیں ھے۔
(مصنف نے یہ مضمون 4 اگست 2019 کو لکھا تھا )
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More