Main Menu

تاریخ وہ نہیں جو تجھے پڑھائی جاتی ہے تاریخ وہ ہے جو تجھ سے چھپائی جاتی ہے، تحرير: وحيد حيات

Spread the love


انیس (19)جولائی 1947 کی قرار داد الحاق پاکستان مسلم کانفرنس کی قرارداد نہیں تھی محض چند لوگو کی سوچ تھی جس کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا جاتا ہے۔ 19 جولائی کو اگر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد ہو بھی جاتا تو اُس میں مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کی منظور شُدہ قرارداد خود مُختار کشمیر ہی زیر بحث آتی۔
28 مئی 1947 کو چوہدری حمیداللہ نے جموں میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان سے الحاق مسلمانوں اور پاکستان سے الحاق ہندووں کو ناگوار گزرے گا اس لئے ہم نے جو جو بہترین فیصلہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم پاکستان اور ہندوستان دونوں سے اعلیحدہ رہنا چاہتے ہیں۔ ہمارا فائدہ اسی میں ہے۔
جولائی 1947 کو مسلم کانفرنس کے مرکزی صدر چوہدری غلام عباس اور دیگر قیادت جموں جیل میں تھی ۔ چوہدری حمیداللہ قائم مقام صدر اور پروفیسر اسحٰق قریشی قائم مقام جنرل سیکرٹری کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے ۔ پروفیسر اسحٰق قریشی نے روزنامہ ڈان کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ماہنامہ ہرالڈ کو ایک تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مسلم کانفرنس کے کسی اجلاس میں الحاق پاکستان کی کوئی قرارداد زیر غور نہیں آئی الحاق کی قرارداد من گھڑت افسانہ ہے۔
پروفیسر اسحٰق قریشی نے آزادکشمیر کے رہنماؤں کو سیاسی بونے قرار دیتے ہوئے کہا کہ دس جولائی 1947 کو قائداعظم نے مجھے اور چوہدری حمیداللہ کو بلایا اُس وقت وہ پاکستان کے گورنر جنرل منتخب ہو چُکے تھے۔ لیکن ابھی حلف برادری نہیں ہوئی تھی ۔ قائداعظم نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ کشمیر خود مُحتار رہے اس لئے میرا مشورہ یہی ہے کہ مسلم کانفرنس کے لوگ خود مُختاری کو اسپورٹ کریں۔
پروفیسر اسحٰق قریشی نے کہا کہ ہم دونوں واپس دہلی سے جموں آئے جہاں جیل میں چوہدری غلام عباس سے ملاقات کی اور قائداعظم کی ہدایات بھی بتائیں۔ چوہدری غلام عباس نے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اراکین کے نام ایک خط لکھا جس میں انہوں نے خود مُختار کشمیر کی قرارداد منظور کرنے کی تلقین کی۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 18 جولائی 1947 کو مجلس عاملہ اور 19 جولائی 1947 کو مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا۔ مسلم کانفرنس کے آئین کے مطابق مجلس عاملہ کے فیصلوں کی توثیق جنرل کونسل سے کرائی جاتی تھی۔
18 جولائی 1947 کو چوہدری حمیداللہ کی زیر صدارت مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا اجلاس میں قائداعظم سے ملاقات اور چوہدری غلام عباس کا خط بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ چنانچہ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے خود مُختار کشمیر کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ ریاست میں دفعہ 144 نافذ تھی چند دن پہلے مسلم کانفرنس نے ہنگامہ آرائی کر کے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی تھی ۔ اس لئے مسلم کانفرنس کے لوگوں کے وارنٹ گرفتاری پہلے سے ہی جاری ہو چُکے تھے۔ جنرل کونسل کے ممبران کے تعداد دو سو تھی بعض ممبران گرفتار ہو چُکے تھے اور بعض گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش تھے۔ 19 جولائی 1947 کو سری نگر میں 200 ممبران میں سے 2 درجن بھر افراد سری نگر پہنچ سکے۔ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر اجلاس کا انعقاد ممکن نہیں تھا۔ باہمی مشورے کے بعد بحثیت جنرل سیکرٹری جنرل کونسل کا اجلاس میں نے منسوخ کر دیا۔ اگر اجلاس منعقد ہو بھی جاتا تو مجلس عاملہ کی منظور کی گئی خود مُحتار کشمیر کی قرارداد ہی زیر بحث آتی ۔
پروفیسر اسحٰق قریشی نے بتایا کہ مسلم کانفرنس کے اجلاسوں میں کبھی الحاق پاکستان کی بات زیر غور آئی ہی نئی۔ 19 جولائی کو جو لوگ سری نگر پہنچے تھے سردار ابراہیم نے اُن کو چائے پلائی تھی۔ یہ ایک پرائیوٹ گپ شپ تھی جس میں نہ کوئی فیصلہ ہوا اور نہ ہی کوئی قرارداد منظور ہوئی.






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *