Main Menu

مقبول بٹ کی پھانسی ، تحرير: ہاشم قريشی

Spread the love


یہ 1984 کا واقعہ ہے ۔مقبول بٹ کو مہاترے کے قتل کے انتقام میں تہاڈ جیل میں پھانسی دی گئی۔”آزاد کشمیر ” میں پُر تشدد مظاہرے ہوئی۔پوری دنیا میں انگلینڈ سمیت مظارہرے ہوتے رہے۔ مگر وادی یا اس طرف کوئی ناحوشگوار حادثہ نہ ہوا البتہ اقبال قریشی، الطاف قریشی ۔اعظم انقلابی اور چند اور لڑکوں نے لال چوک میں ہڑتال کرانے کی کوشش کی تھی ۔

بٹ صاحب کی اپیل سپریم کورٹ نے فوری رد کردی۔ ان کے کیس میں جناب مظفر بیگ صاحب۔ جناب طفیل ایڈوکیٹ صاحب ۔اور جناب پا ٹھک صاحب پیش ہوئے تھے۔

پھانسی کا وقت بھی گزر گیا۔اس طرف وادی کے لوگ شیخ عبداللہ کی “سحر انداز طلسم ” سے ان کی موت کے بعد آزاد ہوئے تھے۔جنھوں نے بلا کسی مبالغہ کے 60 سال تک کشمیریوں کی دھڑکن اور سانسوں تک کو بھی غلام بنایا تھا۔
فاروق عبداللہ کی حکومت تھی کی Death Warrant جاری کی گئی۔

کہتے ہيں بلکہ مجھ سے یہ واقعہ مظفر بیگ صاحب نے خود سنایا ہے ( بیگ صاحب گنگا کیس میں میرے وکیل رہ چکے ہے) کہتے ہے

” چونکہ میں بھی بٹ صاحب کے کیس میں پیش ہوا تھا کہ میں ایک دن ک کر بازار سے گزر رہا تھا کہ مجھ پر کچھ لوگوں نے پھر مارنے اور گالیاں دینے کی جراُت کی کہ: یہ دیکھو بیگ جارہا ہے اس نے ڈاکو اور ہندوستانی ایجنٹ مقبول بٹ کا کیس لڑا تھا ”

آپ اس بات کا اندازہ لگالیں کہ اللہ نے وادی کے لوگوں کو ایسا دماغ دے کر کتنی بڑی سزا دی ہے ! کہ ایک انسان دہلی میں پھانسی چڑھایا جارہا ہے ؟ دنیا کے تما ادارے اور چند مشہور لیڈر ان کو پھانسی نہ دینے کی اپیلیں کررہے ہے؟ مگر اُن کے اپنے لوگ پھانسی لگنے کے بعد بھی ان کو پھانسی دینے والے کا ہی ایجنٹ کہا جاتا ہے۔

اچانک تین چار دنوں کے بعد جنرل ضیا الحق کو کسی اخبار والے نے مقبول بٹ صاحب کی پھانسی دینے پر سوال کیا تو جنرل ضیاء نے جواب دیا کہ:

” مقبول بٹ۔ عظیم مجاہد تھا اُنھوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے جان دی ہے ”

بس پھر کیا تھا مقبول بٹ لمحوں میں ہندوستانی ایجنٹ سے عظیم شہید اور کچھ عرصہ کے بعد ” بابائی قوم ” بنایا گیا ؟ آگے کیا ہو گا ؟اس حالت کے بعد کون ان لوگوں کے الزامات کا بُرا مانے گا؟ جن کو عزت۔ غیرت۔ آزادی ۔ شعود ۔جدوجہد اور سچائی کا علم ہی نہیں ہے ؟ جو پروپگنڈے۔ جھوٹے اور وقتی جذبات کے ہاتھوں ہمیشہ ماتم مناتے رہتے ہے ؟جو سالوں ایک دوسرے کے ساتھ ” شیر بکرے ” پر لڑتے رہے اور اس پر ایک دوسرے کی لڑکیوں کو طلاق دیتے رہے پھر “ڈبل فاروق ” کا نعرہ لگایا گیا ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ۔

آج شیخ عبداللہ کو گالی دیتے ہيں۔ وہ جب تقریر کرتے تھے تو یہی لوگ چیخیں مار مار کر روتے تھے اور” ببو ببو” پکارتے تھے ؟ دفن بھی 18 لاکھ لوگوں نے کیا ؟ 12 گھنٹ ے جلوس نکالا گیا ؟

وہ کل کا بُٹ تھا اس بے شعوری قوم کا ؟پھر اُنھوں نے شیخ عبداللہ کی قید کے دوران ہندوستانی اسمبلیوں کا الیکشن اور ۂندوستان سے وفاداری کے خلف نامے اُٹھا اُٹھا کر تنخواہ اور پینشن لینے والے گیلانی صاحب کو بابا” کہنا شروع کیا جس نے تھوک کے حساب سے نوجوانوں کو قتل کروایا۔

مذہب تو بدلہ ہے نا ؟ کیونکہ برہمن جو تھے ؟ بات تو “پوچھنے کی ہے نا ؟ ورنہ تسکین کیسے ہوگی ۔
پوچھو ! رشوت کا۔ اندھ وشواس کا۔ جھوٹ کا۔فریب اور دھوکہ بازی کا۔ الحاق کا ۔ مخبری کا ۔ ایک دوسرے کے حق کھانے کا؟

آزادی اور آزاد دیش کے باشندے ہونے جذبوں اور عزت سےسر اُٹھا کر جینے کے کے غرور سے تمہیں کیا شناساسی ؟ تم تو آزادی کے نعرے کا ترجمہ بھی ” الحاق ” ہی کرلیتے ہو ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *