Main Menu

ارطغرل دیوانہ پن – ایک خطرناک خام خیالی! تحریر: ڈاکٹر پرویز ہُود بھائی (مترجم تابش احمد)

Spread the love


قبائلی سازشوں، خون، قتلِ عام اور فتوحات کو پورے مذہبی لبادے میں اوڑھ کر بنائی جانے والی ترکی کی ڈرامہ سیریز نے پاکستان میں طوفان برپا کردیا ہے۔ ڈیڑھ سو اقساط پر مشتمل ڈرامہ سیریز “دریلیس: ارطغرل” (حیاتِ نو ارطغرل) سلطنتِ عثمانیہ کے بانی ارطغرل غازی کی افسانوی داستان ہے جسے اناطولیہ (ترکی) میں عکسبند کیا گیا ہے۔

جمعے کے روز یعنی مؤرخہ 5 جون 2020ء کی شام یوٹیوب پر اس ڈرامے کی تیسویں قسط (اردو ترجمے کے ساتھ) کو پچپن لاکھ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اِس ڈرامےکو بنانے والے حیران ہونے کے ساتھ مسرت اندوزی کا اظہار بھی کر رہے ہیں کیونکہ اپنے وطن کے لئے لڑنے والے تُرک قبائلی لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ ارد گرد کے کسی ملک (پاکستان) میں لاکھوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتے ہیں!

مگر پاکستان مختلف ہے۔ یہاں شام کے وقت خاندان کے تمام افراد اپنی جگہ پر اِکٹھے ساکن بیٹھ کر اس ڈرامے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ڈرامہ تفریح پر مبنی ہونے کے ساتھ ایک حقیقی اسلامی تاریخ ہے!

مگر کیسی حقیقی تاریخ؟ یہ تو تیرہویں صدی کے اناطولیہ کی بے قاعدہ و بے اصول ایک تمثیل ہے جس کی تاریخ کا کسی کو کچھ بھی علم نہیں ہے۔ اس ڈرامے کے کہانی نویس اور پرڈیوسر محمد بوزداغ (Mehmet Bozdag) کا کہنا ہے کہ “سچائی اہمیت نہیں رکھتی ہے”! بوزداغ کا مزید کہنا ہے کہ “اِس ڈرامے میں دکھائے جانے والے دور کی ہمیں بہت ہی کم معلومات میسر ہے جو چار سے پانچ صفحوں پر مشتمل ہے۔ حتیٰ کہ کردار بھی ہر لحاظ سے مختلف ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ پر لکھی جانے والی سب سے پہلی تاریخ اِس سلطنت کو قائم ہونے کے سو یا ڈیڑھ سو سال بعد لکھی گئی تھی جس کا تاریخی مواد غیر یقینی ہے۔ ہم محض اپنے تَخَیُل (خیال) سے اس کہانی کو پیش کر رہے ہیں”۔

بناوٹی جذبات پر مشتمل تاریخ ذہنوں کو قدامت پسندی کی طرف آمادہ کرتی ہے۔ اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو بغیر کسی شک کے یہ ڈرامہ سیریز عوام کو نظریاتی طور پر کسی خاص مقصد کی طرف مائل کرتی ہے۔
مگر وہ مقصد کیا ہے؟ اگر وہ مقصد اسلام کو امن کے مذہب کے طور پر پیش کرنے اور دنیا میں خوفِ اسلام (اسلاموفوبیا) کو رد کرنے کی کوشش ہے تو نتائج اِس کے بالکل برعکس حاصل ہوئے ہیں۔

پہلی قسط کی بالکل شروعات میں خانہ بدوشوں کے خیموں میں تلوار کو بناتے ہوئے اور اس کی دھار تیز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ قبیلے کے دشمن صلیبی اور بازنطینی ہیں جن کی لاشیں ہر لڑائی کے بعد اِدھر اُدھر بکھری پڑی دکھائی جاتی ہیں۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار ارطغرل نہ صرف صلیبی فوجی رکن بلکہ اپنے قبیلے کے پرانے ساتھی، جیسے “کُردوگلو” (Kurdoglu Bey) کے سَر قلم کردیتا ہے۔

(واضح رہے کہ بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire)، سلطنتِ روم (Roman Empire) کا تسلسل تھی۔ چوتھی صدی عیسوی میں سلطنتِ روم دو حصوں یعنی مغربی اور مشرقی میں تقسیم ہو گئی تھی۔ مشرقی حصہ اپنے دار الحکومت کے نام “بازنطیم” (Byzantium) پر بازنطینی سلطنت کہلایا۔ (330ء میں سلطنتِ بازنطین کے شہنشاہ قسطنطین نے اِس سلطنت کا نام بدل کر اپنے نام پر “قسطنطنیہ” کر دیا تھا۔ بعدازاں 1930ء میں تُرک حکومت نے قسطنطنیہ کا نام بدل کر “استنبول” کر دیا تھا)۔

تو ہمیں تعجب ہونا چاہیئے اگر داعش جیسی تنظیمیں ایسے ڈراموں سے اثر لیتی ہیں؟ کیا شَمشِیر زِنی (تَلوار بازی)کو عظمت دینے کا مطلب اسلام کا مَان بڑھانا ہوتا ہے؟ قبائلی معاشرے میں طاقت کی جنگ کو اُجاگر کرنے کے بجائے اسلام کو یقینن کئی طرح سے مثبت انداز پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اسے کہیں زیادہ بہتر ہوتا اگر ترک مسلمانوں بنام علی قشگی، تقی الدین اور الجزاری جیسے علماء سے ابتداء کی جاتی کیونکہ اسلام کے اوائلی دور کے عالموں کے بغیر ہماری “عظیم مسلمان ثقافت” ہونے کی دعویٰ کمزور اور غیر قائل کُن ہوتی!

مجھے شک ہے کہ ارطغرل ڈرامے کا اصل مقصد اسلام کے بارے میں کم اور ماضی کے ترکی کی حسرتناک یادوں کا اظہار کرنا زیادہ ہے۔ اِس ڈرامے کی تیاری کے لئے تُرک حکومت سے بھاری امداد کی مانگ کی گئی، گھوڑوں کے لئے اسطبل، دیگر جانورں کے لئے چڑیا گھر نما وسیع علاقہ بنایا گیا جس میں ڈرامے کی عکسبندی کی گئی۔ ہالی ووڈ کے ماہرین سے لڑائی کی تربیت حاصل کی گئی اور ترک صدر اردوان اور اس کے خاندان نے متعدد بار ڈرامے کے سیٹ کا دورا بھی کیا تھا۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سنی اسلام کے قلعوں کے اندر سے اس ڈرامے کے لئے رد عمل شدید منفی آیا ہے۔ سعودی عرب اور عرب امارات نے اس ڈرامے کی مذمت کرنے کے ساتھ اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ جبکہ، مصری حکام نے فتویٰ جاری کی ہے کہ “یہ ڈرامہ سلطنتِ عثمانیہ کے ماتحت رہنے والے عرب ممالک پر مکاری سے دوبارہ تُرک سرپرستی مسلط کرنے کی گھناؤنی کوشش ہے”۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اس ڈرامے کے مقابلے میں “ملک النار” کے نام سے ڈرامہ بنا رہا ہے جس کی لاگت چار کروڑ ڈالر ہے۔

مختصراً یہ کہ عرب ممالک کے باشندے کبھی بھی تُرک سامراجیت کا جشن نہیں منا سکتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنی سرزمین پر حملہ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔

مگر ہم پاکستانیوں کی ایک خاص نفسیات ہے۔ ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان نے فخریہ انداز میں ٹوئیٹ کیا ہے کہ تُرکوں نے چھہ سو برس تک ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ اب خان صاحب کی اس بات پر تاریخدان حیرت زدہ ہیں کیونکہ یہ آدھا سچ ہے۔ یہ یقینن خان صاحب کے لئے غیرمعمولی ہوگا کہ اگر وہ اسی ترک سامراجیت کی، سرزمینِ پاکستان پر حکومت کرنے کی بھی ایسی ہی گرمجوشی سے پذیرائی کریں۔

مگر یہاں خان صاحب اکیلے نہیں ہیں۔ پورا پاکستان آٹھویں عیسوی صدی کے بعد کے اپنے حملہ آوروں کا جشن مناتا ہے، جس کا آغاز 712ء میں محمد بن قاسم کی فتحِ سندھ سے ہوتا ہے۔ اردو کے ناول نگار نسیم حجازی کی تحریر کردہ کتابوں پر لاکھوں افراد کی توجہ رہی ہے جو ہندوستان کو فتح کرنے والے عربوں کے لئے جذباتیت کا شاہکار ہیں۔ ارطغرل ڈرامے کو لکھنے والے محمد بوزداغ کی طرح ناول نگار نسیم حجازی نے اصل حقائق اور پابندیوں سے مبرا ہوکر، کسی روک ٹوک کے بغیر ہی خیالوں کی دنیا قائم کرنے کے لئے اپنی توانائی خرچ کر کے یہ تاریخ تحریر کی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قدیم حملہ آوروں اور سامراجی فتوحات کو کس نظر سے دیکھنا چاہئیے؟ میرے نزدیک، ان حملوں کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں ہی غیر معقول ہیں۔ بھارت اس کی زندہ مثال ہے کہ ایسا کرنے سے معاشرہ کتنا زوال پذیر ہوسکتا ہے۔ بھارت میں قدامت پسندی کی نظریں صرف غیرملکی حملہ آوروں پر جمی ہیں جنہوں نے “بھارت ماتا” (مدر انڈیا) کی جنت کو تہِس نہِس کردیا تھا۔ نتیجتاً وہاں بسنے والے مسلمان اور عیسائی اچانک سے ان کے لئے ناپسندیدہ بن گئے ہیں۔ اس کا حال ہی میں نریندر مودی کے قریبی ساتھی نے اظہار کیا ہے کہ “یہاں بسنے والے غیرملکی دیمَکیں (سارے غیر ہندو) یہاں کے اصل باشندوں (ہندوؤں) کے حقوق پر براجمان ہیں”۔

لیکن کیا ہندو قومپرست نظریے (Hindutva) کے کُند ذہن حامیوں کو یہ نہیں پتہ کہ تمام انسانی تہذیب افریقہ سے شروع ہوئی تھی اور سرزمینِ بھارت کے بیٹے (Son of Indian soil) جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ہے۔ کیا اُن کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اس رُوئے زمین پر قائم یہ سارے معاشرے دس ہزار سال کے طویل عرصے پر مشتمل بے شمار جنگوں، تنازعات اور غیر ملکی حملوں کا نتیجا ہیں؟ کیا ڈی این اے ٹیسٹ ہندو اور مسلمان میں فرق بتا سکتا ہے؟ قطعی نہیں!

یہ بنیادی اسباق سب کے لئے ہیں، صرف پاکستانی حکمرانوں کے لئے نہیں!

میرے خیال میں، قدیم غیر ملکی حملوں کی طرف ایک قابلِ فہم رویہ یہ ہوگا کہ ان حملوں کو محض تاریخ کی حقیقت کے طور پر دیکھنا چاہیئے۔ ان حملوں پر نہ تو فخر کرنا چاہیئے اور نہ ہی مذمت کرنی چاہیئے۔ اِس رُوئے زمین پر رہنے والے دورِ حاضر کے لوگوں کو اپنے آباؤ اجداد کے اعمال (اچھے یا برے) کے لئے زمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے!!۔

دیرلیس ارطغرل ڈرامے کو بنانے والے (اردوُ ترجمہ کرنے والے) چاہتے ہیں کہ ہم دوسروں کے ماضی کے شان میں گم ہوجائیں اور سامراجیت کا جشن منائیں۔ اس زہریلی چیز سے صرف اُس خطرناک دھوکے کو تقویت مل سکتی ہے کہ آگے بڑھنے کا مطلب دراصل ماضی کی طرف جانا ہے۔ اس کے بجائے، آگے بڑھنے کا عمل یہ ہوگا کہ پاکستانیت کا جذبہ سرزمینِ پاکستان کے تمام لوگوں میں دیکھا جائے جو اس دھرتی کی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔

سال 1971ء ہمیں”اتحادِ اسلامیت” (Pan-Islamism) کی آخری حدیں دکھا چکا ہے جس میں سعودی عرب کی ثقافت کو اپنا کر ہم ایک کامیاب پاکستانی شناخت بنانے میں ناکام ہوئے تھے۔ اسی طرح تُرکی کو اپنا کر ہمیں کچھ بھی نصیب نہیں ہوگا۔ ایک مضبوط قومی شناخت اسی صورت میں اُبھر سکتی ہے اگر پاکستان کثرتیت (Pluralism) کو قبول کرنے کے ساتھ یہ قبول کرے کہ پنجاب محض پاکستان کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان اپنے تمام شہریوں کو اپنی دھرتی سے جڑنے کا احساس دیتا ہے۔

(یہ مضمون مؤرخہ 6 جون 2020ء کو روزنامہ ڈان میں
‏Dangerous delusions — Ertugrul mania
کے عنوان سے شایع ہوا)۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *