Main Menu

چار سو ارب ڈالر کا چین ایران اسٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ مشرق وسطی میں جغرافیائی سیاست کو کیسے بدل سکتا ہے، تحرير: سری جان شُکلا

Spread the love

نیو یارک ٹائمز نے اپنی 14 جولائی 2020 کی اشاعت میں یہ خبر دی ہے کہ چین اور ایران نے خاموشی سے ایک جامع فوجی اور تجارتی شراکت کے معاہدے کا مسودہ تیار کیا ہے۔ اس معاہدے سے آئندہ 25 برسوں میں ایران کے اہم شعبوں جیسے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں لگ بھگ 400 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوگی۔نیو یارک ٹائمز نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ ایران میں چینی فوجی اڈوں کی تعمیر اور جغرافیائی سیاست کو بنیادی طور پر تبدیل کرنے کا راستہ بنا سکتا ہے۔
مجوزہ معاہدے کے 18 صفحات پر مشتمل مسودے تک رسائی حاصل کی گئی اور اسے نیویارک ٹائمز (این وائی ٹی) نے رپورٹ کیا ، اور اس میں ایران کے “بینکاری ، ٹیلی مواصلات ، بندرگاہوں ، ریلوے اور درجنوں دیگر منصوبوں” میں چینی تعاون کو بڑھانے کی بات کی گئی ہے۔ اس کے بدلے میں ایران 25 سال تک چین کو بھاری ریاعتی قیمت پر بلاتعطل تیل فراہم کرے گا۔حکمت عملی کے دائرہ کار میں ، مجوزہ مسودہ “مشترکہ تربیت اور مشقیں” ، “مشترکہ تحقیق اور ہتھیاروں کی ترقی” ، اور انٹیلی جنس کے اشتراک سے فوجی تعاون کو مزید گہرا کرنے کے بارے میں بات کرتا ہے۔اس گہرے فوجی تعاون کا مقصد “دہشت گردی ، منشیات اور انسانی اسمگلنگ اور سرحد پار سے ہونے والے جرائم کے خلاف ایک ”طویل جنگ“ لڑنا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس معاہدے کی پیش کش چینی صدرشی جنگپنگ نے اپنے 2016 کے دورہ تہران کے دوران کی تھی اور مجوزہ مسودے کو ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گذشتہ ہفتوں کے دوران منظوری دی ہے ۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکی پابندیوں کے باعث ایرانی معیشت اپاہچ ہو چکی ہے ،ان پابندیوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی کمپنی جو ایران کے ساتھ معاملات کرے گی اسے عالمی مالیاتی نظام سے علیحدہ کردیا جائے گا۔یہ معاہدہ ابھی ایرانی پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے ، اور بیجنگ کی جانب سے بھی ابھی اس معاہدے کی شرائط کو ظاہر نہیں کیا گیا تاہم ایرانی عہدیداروں نے عوامی عوامی سطح پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ “چین کے ساتھ معاہدہ زیر التوا ہے”۔
مجوزہ مسودے کے ابتدائی جملہ میں کہا گیا ہے کہ”دو قدیم ایشیائی ثقافتیں؛ تجارت ، معیشت ، سیاست ، ثقافت اور سلامتی کے شعبوں میں ایک جیسے نظریہ کے ساتھ دو شراکت دار اور متعدد باہمی دوطرفہ اور کثیرالجہتی مفادات کی حامل ریاستیں ایک نئی شراکت داری پر غور کریں گے“۔دستاویز میں 100 کے قریب پروجیکٹس کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں چینی سرمایہ کاری ہوگی، توقع کی جاتی ہے کہ یہ منصوبے شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا حصہ ہوں گے ، جس کا مقصد یوریشیا میں چین کے اسٹریٹجک اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔ان 100 منصوبوں میں “ایرپورٹ ، تیز رفتار ریلوے اور سب ویز” شامل ہیں ، جو زیادہ تر ایرانی شہریوں کی زندگیوں کو موثر انداز میں متاثر کریں گے ۔چین شمال مغربی ایران کے صوبے ابادان میں ، جہاں شت العرب دریا خلیج فارس میں بہتا ہے خلیجی جزیرے کیشم میں ماکو(Maku) کے مقام پر آزاد تجارت کا زون تیار کرے گا۔معاہدے کے مسودے میں ایران میں 5G ٹیلی مواصلات کے نیٹ ورک کے لئے چین کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔ اس منصوبے کو چینی ٹیلی مواصلات کا ایک بڑا دیو” ہواوے“ نگرانی کرے گا ،ایک ایسی کمپنی جو سخت امریکی پابندیوں کی زد میں آچکی ہے اور برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے دنیا کے متعدد ممالک کی طرف سے پابندی عائد ہے ،وہ ایرانی مارکیٹ میں داخل ہو گی۔چین عالمی پوزیشننگ سسٹم ”بی ڈاو“ (BeiDou)¿ کو بھی ایران کے سائبر اتھارٹیوں کی مدد سے ملک کے سائبر اسپیس میں جو مشترک شیئر ہے اس کو منظم کرنے میں مدد کی تجویز پیش کی گئی ہے ، جس سے ممکنہ طور پر ایران میں چین جیسی “عظیم فائر وال” تیار کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔

امریکہ نے ایران کو چین کی باہوں (بازوں) میں دھکیلا(نیو یارک ٹائمز)
2017 میں برسراقتدار آنے کے بعد ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 کے ایران جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی، جس نے ملک کے جوہری پروگرام کو منجمد کرنے اور ایران پر جامع پابندیاں عائد کرنے میں اہم کر دار ادا کیا، اس کی معیشت کو تباہ کیا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “تہران کی مایوسی نے اُسے چین کی باہوں (بازوں) میں دھکیلا ہے ۔چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی بیجنگ کے پروفیسر علی گل زادہ کا کہنا ہے کہ ایران اور چین دونوں اس معاہدے کو نہ صرف اپنے مفادات کو بڑھانے بلکہ امریکہ کا مقابلہ کرنے میں ایک تزویراتی شراکت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ ایران کے لئے اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے جو اتحادی کی حیثیت سے عالمی طاقت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔اب تک ، ایران تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے یوروپی ممالک سے تعاون کا طلب گار تھا لیکن اس کے بقول ایران کی مبینہ طور پر مایوسی بڑھ رہی ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق “ایران کے ساتھ معاہدے کے مسودے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر ممالک کے برعکس ، چین کو لگتا ہے کہ وہ امریکہ کو ٹھکانے لگانے کی پوزیشن میں ہے ، وہ جوابی امریکی کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری طاقت حاصل کر چکا ہے ، کیونکہ اس نے صدر ٹرمپ کے ذریعہ چلائی جانے والی تجارتی جنگ میں اس کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے“۔۔ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ “چینی کمپنیوں پر جو ایران کو امداد فراہم کرتی ہیں ” ان پر پابندی عائد کرتا رہے گا۔

مشرق وسطی کے جغرافیائی سیاست
نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میںامریکی عہدیداروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکی افواج نے کئی دہائیوں کے بعد مشرق وسطی میں سلامتی کے نظام پر غلبہ حاصل کیا ہے ، لیکن اب چین ایران معاہدے کی بدولت چین کو خطے میں قدم جمانے میں مدد مل سکتی ہے ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب چین مختلف ممالک میں اسٹریٹجک بندرگاہیں تیار کرتا ہے تو اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر ان کو عسکری شکل دے سکتا ہے۔مجوزہ مسودے میں ، چین کا منصوبہ ہے کہ ایران میں متعدد بندرگاہیں تعمیر کی جائیں ، ان میں سے ایک جسک (Jask) میں میں تعمیر کی جائے گی جوخلیج ہرمز کے بالکل باہر ہے جو خلیج فارس کا داخلی راستہ ہے۔خلیج ”ہرمز“ پوری دنیا کی 9 کلیدی سمندری چوکیوں میں سے ایک ہے۔ ان تمام چوکیوں پر امریکہ کا کنٹرول ہے ، جسے سیکیورٹی کے بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ پوری دنیا میں امریکی تزویراتی تسلط کا ایک نشان ہیں۔ اب ، جسک(Jask)میں چینی بندرگاہ کی تعمیر چینیوں کو پانی میں ایک اسٹریٹجک راستہ دے گی جس کے ذریعہ دنیا کے تجارتی تیل کا ایک بڑا حصہ (تقربناً پچیس سے تیس فی صد ) مختلف براعظموں کو سپلائی کیا جاتا ہے ۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تجارتی گزرگاہ(ہرمز) کی امریکہ کے لئے ایک اہم تزویراتی اہمیت ہے ، جس کی بحریہ کا پانچواں بیڑہ بحرین ( خلیج) میں لنگرانداز ہے ۔

(سری جان شُکلا کا 14جولائی2020 کے نیویارک ٹائمز اخبار سے ترجمہ کيا گيا مضمون ہے)






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *