سماجی رويے، دنیا داری کی ايک عمدہ تحریر؛ انتخاب محمد الياس خان
مریض پر گزشتہ 20 منٹ سے جھکا ہوا ڈاکٹر سیدھا ہوکر مڑا ۔ چند ثانئیے توقف کے بعد عاشق حسین کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مغموم لہجے میں کہا ۔ بزرگو ہم نے اپنی سی پوری کوشش کی ۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں یے ۔کسی بھی وقت کوئی بھی معجزہ رونما ہو سکتا ہے مگر مرض اتنا پرانا تھا اور سلوتریوں نے مرض کو اتنا بگاڑا تھا کہ مریض کے بچنے کی اب کوئی امید نہیں ہے ۔ بمشکل 13 گھنٹے جی سکے گا ۔ عاشق حسین نے نیلی آنکھوں سے جو بہ کثرت رونے سے لال ہوئی تھی ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب کیا میرے جوان جہان بیٹے کے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے؟
ڈاکٹر نے تاسف کے ساتھ کہا: مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ شائد ہی ہم آپکے بیٹے کو بچاسکیں ۔ اچھا ڈاکٹر صاحب پھر ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم گھر کی راہ لیں، عاشق حسین نے ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
ڈاکٹر اس تقاضے پر ششدر رہ گیا ۔حیرت سے کہا بزرگو آپ کے بیٹے پر جانکنی طاری ہے۔وہ جان دینے کے کرب میں مبتلا ہے ۔ یہاں ہم اسکو ایسی ادویات ڈرپ میں ڈال کر دے رہے ہیں کہ جس سے موت کا عمل کم تکلیف دہ ہوتا ہے ، درد کا احساس کم ہوتا ہے اور روح قدرے کم تکلیف سے نکل جاتی ہے اور آپ نیم مردہ بیٹے کو گھر لے جانے کی بات کر رہے ہیں ۔
عاشق حسین نے افسردگی کے ساتھ کہا : ڈاکٹر صاحب آپ موت کی تکلیف کی بات کر ریے ہیں لیکن آپ زندگی کے درد سے واقف نہیں ہیں ۔ کبھی تو غریب رہ کر زندہ رہنے کا تجربہ کر لیجئے ۔ کبھی تو غریب مر کر دیکھ لیجئے ۔ آپ کو کیا پتہ غربت کی زندگی اور غربت کی موت کسی محشر سے کم نہیں ہوتی۔ ہمیں ہسپتال سے جانے کی اجازت دئیجئے ۔سرکار پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے ۔
ڈاکٹر نے غصہ ہوکر کہا: یہی تو تم لوگوں کی جاہلیت ہے ۔پہلے جوان بیٹے کو خودساختہ ڈاکٹرز، حکیموں اور پیروں فقیروں سے علاج کرواتے ہوئے موت کے منہ میں دھکیلا، ایک سادہ عام سی بیماری کو اتنا پیچیدہ کردیا کہ بیچارہ اس دنیا سے رخصت ہورہا ہے اور اب اسے چین سے مرنے بھی نہیں دے رہے ہیں ۔ کیا یہ آپ کا فرزند ہے یا دشمن؟
عاشق حسین نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا: ڈاکٹر صاحب اگر یہ چین سے مر گیا تو دنیا والے مجھے چین سے جینے نہیں دینگے ۔ میرے بیٹے کی درد ناک موت میں میری آبرومندانہ زندگی چھپی ہوئی ہے۔ ہمارے گاوں تک بس کا کرایہ 120 روپے ہے اور ایمبولینس والے 6 ہزار مانگتے ہیں ۔ بس والے میت کی ٹکٹ نہیں کاٹتے اور نہ ہی مردے کو سیٹ دیتے ہیں البتہ رستے میں اگر سواری مرجائے تو لاش کو اتارنے کا نہیں کہتے ۔ آپ نے 13 گھنٹے مزید زندہ رہنے کا کہا ہے اور یہ تجہیز و تکفین کے لیئے مناسب وقت ہے ۔ایمبولینس کا کرایہ آخری رسومات پر خرچ کرلونگا اور بس میں انشاللہ اسے موت بھی جلد آجائیگی ۔ جانکنی کے عذاب کا دورانیہ بھی کم ہوجائے گا ۔
ڈاکٹر یہ سب کچھ سن کر سن ہوگیا ۔ بنا کچھ کہے چل پڑا ۔ عاشق حسین بیٹے کو ٹکٹکی باندھے اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں نے اسکا چہرہ ڈھنپا نہیں تھا ۔
اتنے میں نرس نے آکر عاشق حسین کو ڈسچارج سلئپ تمھاتے ہوئے کہا: بابا جی آپ مریض کو لیکر جاسکتے ہیں ۔ عاشق حسین بوجھل دل اور شکست خوردہ قدموں کے ساتھ گاوں کی طرف چل پڑا ۔ بس میں دوران سفر جب ابھی وہ گاوں سے کوسوں دور تھا وہ تجہیز و تکفین کے پورے انتظامات کو ذہن میں ترتیب دے چکا تھا ۔ آج جمعہ مبارک کا دن تھا ۔صبح کے 10 بج ریے تھے ۔اسے امید تھی کہ گاوں پہنچتے پہنچتے اسکے بیٹے نے جان دے چکی ہوگی ۔ گاوں والے انا”فانا” قبر کھود کر تیار کرلیں گے ۔
کفن، عرق گلاب، سخات کا صابن، مولوی صاحب کی جائے نماز اور دیگر تمام لوازمات گاوں کے بازار میں “سلام دکاندار” کے پاس دستیاب ہوتے ہیں ۔ اس نے انگلیوں پر موٹا موٹا حساب لگاتے ہوئے تخمینہ ساڑھے چار ہزار کا نکالا ۔ اس کے علاوہ قل تک اور بعد میں بھی فاتحہ پڑھنے کے لیئے آنے والے مہمانوں اور دور پاس کے رشتہ داروں کے لیئے آٹے، دودھ ، پتی، چائے اور گھی شکر کا خرچہ اسکے حساب سے کوئی ڈھائی ہزار بن رہا تھا اور تقریبا اتنی ہی رقم اسکے پاس بچی ہوئی تھی جو اس نے بیٹے کے علاج معالجے کے لیئے گھر کا آخری اثاثہ بیل بیچتے ہوئے کھری کی تھی ۔ انسانوں سے جانور بھی اچھے ہوتے ہیں ضرورت کے وقت تو کام آجاتے ہیں، اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے سوچا ورنہ انسان تو مشکل میں منہ موڑ لیتے ہیں اور خوامخوا کے لیئے اشرف المخلوقات بنے پھرتے ہیں ورنہ کہاں جانور اور کہاں انسان ۔
جوں جوں گاوں قریب آتا جارہا تھا توں توں اسکی پریشانی بڑھ رہی تھی ۔ اس نے جنازے کا وقت ظہر کی نماز ادا ہوتے ہی طے کیا تھا اور مفرب تک ساری رسومات ادا ہو چکی ہونگی ۔ مغرب پڑھنے کے بعد مسجد میں گاوں والوں اور مہمانوں کو جو کھانا اس نے دینا تھا اس کا انتظام اس سے نہیں ہو پارہا تھا ۔ کسی سے ادھار لینا تو ناک کٹنے والی بات تھی۔ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کامقام تھا۔ شرم کی بات تھی ۔زندگی بھر گاوں والے طعنہ دیتے کہ بیٹے کو ادھارے کا کفن پہنایا تھا ۔ مسکینوں کی طرح زمین میں گاڑا تھا۔ بغیر رسومات ادا کئیے جانے کے دفنانا تھوڑا ہوتا ہے۔ گاڑنا ہی تو ہوتا ہے۔ اس نے شکر ادا کیا کہ اس نے مردہ بیٹے کو گاوں لانے کی بجائے جاں بلب بیٹے کو لانے کا فیصلہ کیا ورنہ گاوں میں شلوار بھی اترتی اور بیٹے کی بخشش بھی نہ ہوتی ۔
گلابو کمہار کے ساتھ یہی تو ہوا تھا ۔ بیوی کی موت پر جنازے کے بعد نہ مولویوں میں سخات بانٹ سکا، نہ ہی امام مسجد کو جائے نماز خرید کر دے سکا اور نہ ہی تدفین کے بعد لوگوں کو کھانا کھلا سکا ۔ مولوی صاحب تو صاف بات کرنے کے عادی تھے ۔انہوں نے تو برملا کہا تھا کہ گلابو کمہار کی بیوی کی بخشش نہیں ہوگی اور اگر پھر بھی کوئی نیکی کام آگئی اور بخشش ہو بھی گئی تو عذاب قبر تو تا قیامت پکاہے ۔ بیچارہ گلابو کمہار! ۔ بیوی بھی جہنمی اور وہ بھی آج تک کسی سے آنکھ ملانے کا قابل نہیں ہے ۔
عاشق حیسن کو جھرجھری سی آگئی اور ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو داد دی کہ بیٹے کو جانکنی کی حالت میں ہسپتال سے نکالا ورنہ اگر یہی پیسے ایمبولینس پر خرچ ہوتے تو اسکا انجام بھی گلابو کمہار جیسا ہوتا اور بیٹا بھی عذاب قبر سہتا ۔
اچانک عاشق حسین کو زبردست جھٹکا لگا ۔ ڈرائیور نے اتنے زور سے بریک دبائی تھی کہ سڑک پر ٹائروں کے نشانات پڑ گئے تھے اور پہیوں کے گھسنے کی کریہہ آواز بھی دور تک سنائی دی گئی تھی مگر ڈرائیور پھر بھی ان تین کتوں کو نہیں بچا سکا تھا جو جفتنی کتیا کا تعاقب کرتے ہوئے کتیا سمیت چلتی بس کی زد میں آگئے تھے۔
جنس کی شدت ہمیشہ حواس چھینتی ہے ۔ محبت اور عقل اسی لیئے تو ایک دوسرے کی ضد ہے، آگ اور پانی ہے، چوہے بلی کا کھیل ہے ۔ محبت میں جنسی نا آسودگی پاگل پن طاری کرتی ہے ، دیوانہ بناتی ہے ۔ محبت میں خود سپردگی تتلیوں کی گود میں سونا ہے ، رنگ و نور میں نہانا ہے ۔ محبتوں میں جسمانی ملاپ بارش کی معصوم ادا ہے، کلی کا چٹکنا ہے ۔ بن جسمانی لئمس کی محبت زہنی مرض ہے، آسیب ہے۔
بریک لگنے کی شدت سے سواریاں ایک دوسرے پر لڑھک گئی تھیں۔ بس میں یک دم سے افراتفری مچ گئی ، سواریوں کے شور وغوغا نے آسمان سر پر اٹھا دیا۔ تین کتے، ایک کتیا اور عاشق حسین کا بیٹا ساتھ مرگئے ۔ادھر تین کتے اور ایک کتیا بس کے نیچے آکر کوچ کرگئے اور ادھر عاشق حسین کے بیٹے کی روح اوپر پرواز کر گئی۔ عاشق حسین نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے رب کا شکریہ بھی ادا کردیا کہ تین کتوں اور ایک کتیا کے ساتھ ساتھ اسکے بیٹے کی جان بھی نکال دی ۔ اس نے دل ہی دل میں عزرائیل کو بھی بڑی داد دی۔ کس چابکدستی سے لوگوں کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ اگر عزرائیل نہ ہوتا تو خدا جانے لوگ کیسے جیتتے ۔ بیٹے اور کتوں کے مرنے کا وقت اور مقام جیسے اسکے زہن میں نقش ہو کر رہ گیا ۔
کنڈیکٹر نے جلدی جلدی مرے ہوئے کتوں کو ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے سڑک کے کنارے ڈال دیا اور بس روانہ ہوئی ۔
تقریبا 5 منٹ بعد بس عاشق حسین کے گاوں کے سٹاپ پر رکی ۔ سٹاپ کے قریبی گھر سے چارپائی منگوا کر عاشق حسین نے گاوں والوں کی مدد سے بیٹے کی لاش چارپائی پر رکھی اور گھر کی راہ لی ۔ بس اس گاوں کے واحد سواریوں کو اتارنے کے بعد دھواں اگلتے ہوئے اور غوں غوں کی آوازیں نکالتے ہوئے اگلی منزل کی طرف رینگنے لگی تھی ۔
عاشق حسین نے گاوں والوں اور رشتہ داروں کے حوالے تجہیز و تکفین کے انتظامات کرتے ہوئے چھوٹے بھائی کو ساری نقد رقم بھی ہاتھ میں تمھا دی ۔
خواتین کے بین اور گاوں والوں کی با آواز بلند انتظامات بارے باتوں کے دوران عاشق حسین ایک بڑی بوری میں ایک عدد کلہاڑی ، تیز دار والی چھری اور کام والے میلے اور بوسیدہ کپڑے رکھ کر خاموشی کے ساتھ نکل گیا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ جائے حادثہ پر موجود تھا ۔ سڑک پر ویرانی چھائی ہوئی تھی ۔وہ جلدی جلدی چاروں مرے ہوئے کتوں کو ٹانگوں سے کھینچتے ہوئے سڑک کنارے گنے کے کھیتوں میں اندر تک لے گیا ۔ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اس نے چاروں کتوں کو کاٹ کر بوری میں ڈالا اور کپڑوں کے اوپر پہنے ہوئے میلے اور خون آلود ملبوس کو اتار کر ماچس کی تیلی سلگا دی ۔
گھر داخل ہوکر اس نے بڑی بیٹی کو گوشت حوالے کرکے میت کا کھانا تیار کرنے کے بارے میں اچھی طرح سمجھایا اور باہر نکل کر فاتحہ کے لیئے آنے والوں میں گھل مل گیا ۔ تدفین بھی شان سے ہوئی ۔ چار پیٹی صابن بانٹا گیا اور آئے ہوئے تمام مولویوں میں جائے نماز ، سفید ٹوپیاں اور تسبیح بھی تقسیم کی گئیں ۔ مغرب کے بعد سارے گاوں کو مسجد ہی میں چھوٹا گوشت کھلایا گیا ۔ گرم گرم تندوری روٹیوں کے ساتھ سب نے پیٹ بھر کر کھایا۔ خوب واہ واہ ہوئی ۔سب نے لذت کی تعریف کی ۔
عاشق حسین مطمئن تھا کہ انشاللہ میت کا ایسا کھانا گاؤں میں کسی کے باپ نے بھی اب تک نہیں دیا ہوگا اور نہ ہی آئندہ سو سالوں میں کھلا سکے گا ۔
عاشق حسین نے ایک بھرا ہوا خوانچہ مولوی صاحب کے گھر بھی بجھوایا ۔ خوب دعائیں ہوئیں اور مرحوم کو شہید کا درجہ بھی عطا ہوا ۔
اگلی صبح فجر پڑھ کر بھری مسجد میں مولوی صاحب نے عاشق حسین کو مخاطب کیا ۔ بھائی عاشق حسین رات کو تو بڑی عجیب بات ہوئی ۔میں نے اور ملانی جی نے اکھٹے ایک ہی خواب دیکھا کہ تیرا برخوردار جنت کی باغوں میں چہل قدمی کر رہا ہے ۔ خوش و خرم ہے ۔ میں نے تو بس صرف یہی دیکھا مگر ملانی جی کہہ رہی تھی کہ اسے شہید نے کہا کہ ابا کی حویلی بھی وہ جنت میں دیکھ چکا ہے جسکی سفید موتیوں کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے ۔ تمام جماعت عش عش کر اٹھی۔ عاشق حسین زیر لب مسکرایا ۔ اسے پہلی مرتبہ نجس کتے کی پارسائی کے زور کا علم ہوا تھا ۔ واقعی جنت کا ہر راستہ پیٹ سے گزرتا ہے اور جہنم بھوک کی پیداوار ہے ۔
عاشق حسین نے دل ہی دل میں ان چاروں کتوں کا شکریہ ادا کیا کہ نجس ہونے کے باوجود اس کی انا اور دین کو قائم رکھا ، اسکے بیٹے اور اسے جنت تک لے جانے کا سبب بنے ۔
پہلی مرتبہ اسکے دل سے کتوں کے لئیے دعا نکلی ۔ اگر ان کتوں نے آج اسکی پردہ پوشی نہ کی ہوتی تو انسان تو اسے برہنہ کرچکے ہوتے۔۔!!!!!!!
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More