ایک آراء علمی مکالمہ کے فروغ کے لیے، تحرير : عطاء ؛ انتخاب : مہر جان
سماج کی تفہیم، کلیت میں جاننے کے لیے بنیادی طور پر موجودہ سائنس جن طریقہ کار کو استعمال کرتی ہیں، اس میں تجربیت، منطقی اثباتیت اور نتیجیت شامل ہیں، لیکن ان سب کی گرفت سماج کی کلیت تک نہیں بلکہ جزیات تک محدود رہتی ہے، جس کی وجہ سے سماج کی حقیقی تفہیم نہیں ہو پاتی ، کیوں کہ ان کے میتھڈ کا طریقہ کار جدلیاتی نہیں ہوتا، اسی طرح بعض ان کتابوں سے بھی سماج کی کُلی حیثیت کی تفہیم نہیں ہو پاتی جو بنیادی طور پر جدلیات کے نام سے ہی مشہور ہوتی ہے، مثال کے طور پر اینگلز کی کتاب ” انٹی ڈوہرنگ “، اینگلز اپنے اس کتاب میں موضوع اور معروض کی جدلیاتی حیثیت تاریخ میں ثابت کرنے میں ناکام ہوتا ھے، لحاظہ اس کتاب سے موجودہ سماج کا تناظر تخلیق کرنا اسی طرح ایک عبث فعل ٹھہرتا ہے، جس طرح کسی منطقی اثباتیت کے کسی کتاب سے، اس لیے اس کتاب کی مجموعی حیثیت انقلابی عمل اور تھیوری کو واضح کرنے سے عاری رہتی ہے،
لوکاش کی کتاب “تاریخ اور طبقاتی شعور” سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
Engels’ arguments in the Anti-Dühring decisively influenced the later life of the theory. However we regard them, whether we grant them classical status or whether we criticise them, deem them to be incomplete or even flawed, we must still agree that this aspect is nowhere treated in them. That is to say, he contrasts the ways in which concepts are formed in dialectics as opposed to ‘metaphysics’; he stresses the fact that in dialectics the definite contours of concepts (and the objects they represent) are dissolved. Dialectics, he argues, is a continuous process of transition from one definition into the other. In consequence a one-sided and rigid causality must be replaced by interaction. But he does not even mention the most vital interaction, namely the dialectical relation between subject and object in the historical process, let alone give it the prominence it deserves. Yet without this factor dialectics ceases to be revolutionary, despite attempts (illusory in the last analysis) to retain ‘fluid’ concepts. For it implies a failure to recognise that in all metaphysics the object remains untouched and unaltered so that thought remains contemplative and fails to become practical; while for the dialectical method the central problem is to change reality.
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More