Main Menu

رياست جموں کشمير کےعظیم رہنما بیرسٹر قربان علی ،تحرير: صنم افسر

Spread the love


ہر انسان زندہ رہنے کے لیے مصائب و مشکلات کا سامنا کرتا ہے،جینے کی آس میں طویل اور گھٹن جدوجہد کرتا ہے۔مگر بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے تکلیفیں اور دکھ برداشت کرتے ہیں تاکہ وہ آرام اور سکھ کی زندگی بسر رکر سکیں۔تاریخ میں ایسے بے شمار نام ہمیں ملیں گے جنہوں نے اپنی منفرد سوچ اور کردار سے اپنے ارد گرد کا ماحول بدل دیا اور لوگوں کو زندگی ایک نئے انداز سے گزارنے کا راستہ مہیا کیا۔بیرسٹر قربان علی بھی ان میں سے ایک نام ہیں۔جنہوں نے اپنی ساری زندگی نظریاتی اصولوں کے تحت گزار کر یہ ثابت کیا کہ بہتر زندگی وہی ہوتی ہے جو دوسرے لوگوں کی صہیح رہنمائی کر کے گزاری جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کو قسمت یا نصیب کا لکھا سمجھ کر نہ روتے رہیں بلکہ اپنے عمل اور شعور سے حالات کو بدل کر جیے ،اس قابل بنے کہ کسی کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنیں۔انہوں نے اپنے والد کی کہی اس بات کو پورا کیاجب ایک شام انکے والد نے اپنے بچوں سے کہا کہ ’’ دیکھو جناح اور گاندی آزادی ہند کی جنگ کس عالمانہ انداز میں لڑ رہے ہیں،کاش تم میں سے کوئی انکی مانند علم حاصل کرے اور پھر کشمیری قوم کے لیے چراغ راہ بنے‘‘ ۔ اسکے بعد بیرسٹر قربان علی نے اپنی منزل کا تعین کر لیا تھا۔جس کی شروعات انہوں نے لنکن یونیورسٹی سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کر کے کیا۔بارایٹ لاء کی ڈگری انکے والد کی ہواہش کی تکمیل کی طرف پہلا قدم تھا۔یہ وہ دور تھا جب لوگ دولت اور رتبے کے لیے بیرون ملک مقیم رہنے کے خواب دیکھتے تھے جب کہ قربان علی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آنے کا فیصلہ کیاکیونکہ انکی منزل کی تکمیل یہی ہونا تھی۔انہوں نے ہمیشہ مظلوم اور محکوم عوام کے حقوق کی جنگ لڑی اور انکے لیے انصاف کی آواز بلند کی۔وہ ایک با اصول اور سچے انسان تھے۔جن کی زندگی کا مقصد دولت، شہرت اور کوئی رتبہ نہیں تھا بلکہ انسانیت کی خدمت اور انکی رہنمائی تھا۔ بیرسٹر قربان علی کو سماجی سائنسزپر بھی عبور حاصل تھا۔سوشلزم اور مارکسزم کا مطالحہ انہوں نے نہایت باریکی سے کیا ۔پاکستان مقبوضہ کشمیر کے اندر مارکسزم اور سوشلزم کو متعارف کرانے میں بیرسٹر قربان علی کا ایک اہم کردارہے۔جس کی بنیاد پر انہوں نے کشمیری عوام کے لیے نئے راستے کا انتحاب کیا ۔انکی فیملی انہیں ایک روائتی سیاستدان بنانا چاہیتی تھی ۔مگر انہوں نے روایتی راستہ چھوڑ کر انقلاب کا وہ راستہ چنا جس نے کشمیر کے اندر ایک نئی تاریخ رقم کی۔۱۹۸۵ میں انہوں نے جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے نام سے ایک انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی۔جو ایک واضع نظریے کی حامل پارٹی ہے۔جس کا مقصد کشمیر کے معصوم اور بہکی ہوئی عوام کی درست رہنمائی کر کے ان کے سیاسی اور سماجی شعور کو اجاگر کرنا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب کشمیر کے لوگ دوسروں کے رحم و کرم پر جینے کے عادی بن گئے تھے ،جن کی سوچ کو آزادی جیسے لفظ سے فراموش کیا جا رہا تھا ،ایسے وقت میں بیرسٹر قربان علی نے نہ صرف آزادی کا نعرہ بلندکیا بلکہ کشمیری عوام کو آزادی کا وہ راستہ بھی دکھا یا جس کی بنیاد کسی لولی لنگڑی سوچ یا خیال پر نہ تھی بلکہ سائنسی نظریات پر تھی جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔جس کا ہدف واضع تھا ،جس کے اصول اعلی تھے۔انکے مطابق کشمیر کے مسئلے کا ایک ہی حل تھا وہ تھا ایک آزاد اور خود محتار ریاست کا قیام۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کو آزادی نہ پاکستان دلا سکتا ہے نہ ہی بھارت اور نہ اقوام متحدہ انکی کوئی مدد کر سکتا ہے۔انہوں نے سائنسی اصولوں کی نظر میں عوام کی ہر غلط فہمی کا تنقیدی جائزہ پیش کیا،جس میں انہوں نے کشمیر کے مسئلے کا واضع حل پیش کیا۔یہ صرف کشمیری عوام کی محنت اور کوشش پر منحصر ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیریوں کو ہی ایک طویل اوردشوار جنگ لڑنا پڑئے گی۔وہ عوام کو ایک بہت بڑی طاقت سمجھتے تھے ،ان کے مطابق صرف عوام ہی کسی تنظیم کی اصل طاقت ہوتے ہیں۔اسی لیے انہوں نے عوام کی تربیت و تعلیم پر حصوصی ذور دیا۔جس کا ثبوت انکی تحریروں سے ملتا ہے۔جس میں انہوں نے عوام کی تربیت پر ذور دیا۔ان کی لکھی کتابیں کشمیری موقف اور سوال کو اس طرح واضع کرتی ہیں جس میں کسی ابہام یا شک کی گنجائش نہیں رہتی۔انقلابی شعور،سیاسی اور سائنسی فکر،تاریخی اور جدلیاتی مادیت جیسی کتب کشمیر یوں کو فکری پستیوں اور ابہام سے نکالنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوئی ۔ان کتب کو پڑھنے کے بعد فرد نہ صرف سماجی سائنس کو سمجھنے کے قابل بن جاتا ہے بلکہ وہ اس قابل بھی بن پاتا ہے کہ اپنے حالات کا جائزہ لیکر انہیں تبدیل کر کے بہتر حالات پیدا کرئے۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نیا کام کیا جاتا ہے تو اسکی مخالفت کی جاتی ہے،اسکی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں،اسے ناکام بنانے کے بے شمار حربے اپنائے جاتے ہیں۔انکے راستے میں بھی یہ سب مشکلات آئی۔انہیں بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔مگر بہت سے فکری اور نظریاتی اختلافات کے باوجود انہوں نے ایسے عزم اور حوصلے کے ساتھ اس کام کو جاری رکھا جس نے یہ ثابت کر دیا کہ نظریات سے مضبوط کوئی اور ہتھار نہیں جو سماجی اونچ نیچ کو مٹانے میں کارزر ثابت ہو سکتا ہے۔انکے لائے گئے نئے نظریات نے کشمیر کی آزادی پسند تحریکوں کو علم و شعور کی وہ نئی راہیں دکھائی جس سے کشمیری عوام کو اپنا راستہ اور ہدف صاف دکھائی دینے لگا۔بیرسٹر قربان علی وہ انسان تھے جنہوں نے کبھی اپنے اصولوں کے خلاف کام نہیں کیا تھا اور نہ ہی کسی کو اصولوں کے خلاف کام کرنے کی اجازت دی تھی۔یہی وجہ تھی کہ جب کچھ لوگوں نے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے پارٹی کی ساحت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور پارٹی نظریات کا سودہ کرنا شروع کیا۔یہ وہ لوگ تھے جو وطن فروش تھے ،جن کا مقصد صرف و صرف مال و ذر جمع کرنا تھا۔ایسے میں بیرسٹر قربان علی نے ان لوگوں کو یہ کہہ کر پارٹی چھوڑ دینے کو کہا کہ جو لوگ نظریات سے ہٹ کر اپنے ذاتی مفاد کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں انکے لیے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں۔


جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کوئی روائتی تنظیم نہیں جو ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔یہ وہ تنظیم ہے جس کا مقصد اپنے نظریات پر قائم رہنا ہے اور انہی کے مطابق کام کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ تنظیم انہی اصولوں کے مطابق کام کر رہی ہے جس کی تلقین بیرسٹر قربان علی نے کی تھی۔بیرسٹر قربان علی کی تنظیم اور انکی تحریریں نہ صرف کشمیر ی عوام کی شعوری تربیت کر رہی ہیں بلکہ کشمیر کی تحریک کو دن با دن مضبوط کرنے میں بھی سرگرم ہیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *