زمینی تنازعات اور پرتشدد واقعات ،ذمہ دار کون ؟ تحریر :شمیم خان
اس کرہ ارض پر دیگر تنازعات کی طرح زمین کا تنازعہ بھی انسانوں میں نہ صرف تفریق کا باعث بنا بلکہ اسکے باعث بے پناہ کشت و خون بھی ہوا
یہ تنازعہ سلطنتوں سے ملکوں تک اور پھر شہروں اور گاوں تک پھیلا ہوا سلطنتوں اور ملکوں کے تنازعے تو بین الاقومی حثیت رکھتے انکی ایک الگ اہمیت ہے لیکن گاوں کی سطح پر اراضی کے تنازعوں نے پورے معاشرے پر گہرا اثر ڈالا ہے
آج اکیسویں صدی میں انسان چاند پر قدم رکھنے کے بعد ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے عمل سے گزر رہا وہاں اس جدید دور میں بھی ہمارا سماج صدیوں پرانے زمینی نظام کی بھول بھلیوں میں گھوم رہا ہے
آئے دن اراضی کے تنازعات اور اسکے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات پرنٹ اور سوشل میڈیا کی نظر بنتے ہیں جنھیں سنکر اور پڑھکر افسوس ہوتا ہے
بچپن سے میں نے لوگوں کو چند گز زمین پر ایک دوسرے سے لڑتا دیکھا میں زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکا لیکن ان رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی
اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ ازاد کشمیر میں محکمہ مال کے نام سے ایک پورا محکمہ موجود ہے جسکے ہزاروں ملازمین ہیں لیکن اج تک اراضی کے کیس حل ہوتے نہیں دیکھے بھائی کو بھائی سے لڑتے دیکھا ایک دوسرے کے بہت قریب رشتہ تعلق ہونے کے باوجود لوگ سالہا سال تک ایک دوسرے کے خلاف کیس لڑتے ہیں اور لاکھوں روپے اس پر خرچ کرتے ہیں جتنی مالیت شاہد اس کیس والی زمین کی نہ ہو اج کے اس جدید دور میں بھی محکمہ مال نے لوگوں کو ایک ایسے جال میں پھانس رکھا ہے جسکا کوئی سرا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا اخر کیا وجہ ہیکہ ستر سالوں میں اس فرسودہ نظام اراضی میں تبدیلی یا اصلاح ممکن نہیں ہوئی برسوں لوگ عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں اخر میں کیا ملتا ہے محکمہ مال کے ملازمین کا بھی ان تنازعات میں بڑا ہاتھ ہوتا ہے ورنہ یہ ممکن نہیں کہ باپ دادا کی ملنے والی زمینوں سے لوگ تجاوز کر سکیں جہاں کہیں جنگلات ہوتے ہیں وہاں یہ مسائل اور بھی سنگینی اختیار کر جاتے ہیں اور لوگ جنگلوں کی زمینیں بھی میل ملاپ سے اپنے نام کرواتے ہیں پھر کوئی دوسرا فریق کیس کر دیتا ہے اور لوگ نسل در نسل کیس لڑتے ہیں کہیں قیمتی جانیں ان تنازعات کا شکار ہوئیں لیکن نہ تو لوگ اور نہ ہی ارباب اقتدار اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں مقامی سطح پر ہونے والی کوششیں بھی بعض اوقات کسی فریق کی ہٹ دھرمی کے باعث رائیگاں جاتی ہیں ازاد کشمیر میں زمینیں اب ابادی کے پھیلاو سے سکڑ چکی ہیں اور بیشتر علاقوں میں زرعی زمینیں نہ ہونے کے برابر ہیں پھر بھی چھوٹی چھوٹی جگہوں پر تنازعات ہوتے ہیں جو زمین کی اہمیت سے زیادہ انا کا مسلہ بنا لیا جاتا ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں ایک طرف محکمہ مال کے پورے انتظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اور اس پرانے فرسودہ نظام کو بدلنے کی بھی ضرورت ہے وہاں لوگوں کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے نئی نسل ان جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور ان تنازعات کو مقامی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرے ورنہ نفرتوں کا یہ کھیل نہ جانے اور کتنی نسلوں تک جاری رئیگا اراباب اقتدار اور متعلقہ محکموں کو شاہد اپکی جان اور مال کی اتنی فکر نہیں کیونکہ ان تنازعات سے تو کہیوں کے گھر چلتے ہیں ہمیں خود ان مسائل پر سوچنا ہے اور اپنے لیے سوچنا ہے
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More