Main Menu

پروفیسر عرفانہ ملاح کا معافی نامہ نہیں اعلان مرگ تھا، تحرير: لطيف ابراہيم

Spread the love

اسلام عليکم،
میں اپنے ہوش و حواس کے ساتھ سوگوار دیوان بھٹائی کو سامنے رکھ کر،
ایاز کی دکھی شاعری میلی مٹی پر لکھ کر،
یتیم بھگت کنوار رام کی صدا سے تغافل کر کہ،
لاوارث سچو (سچل سرمست) کو ششدر دیکھ کر،
ماسٹر چندر کے وصال والے راگ، اس کی معصوم شکایتوں پر طنز کرکہ، “وہ سندہی کلاکار ماسٹر چندر جس نے پارٹیشن کے وقت یہاں سے جاتے وقت ایک گانا گایا تھا، جا رہے ہیں جارہے ہیں پرندے اپنا دیس چھوڑ کر جا رہے ہیں،
وہ گھروندے پرانے،
وہ وطن کے آستانے،
ہائے ہائے باپ دادا کے گھر”
یہ اعلان کرتی ہوں کہ صدیوں سے تہذیبوں کی خالق،
روایتوں کی امین،
مذاہب کی ماں،
بے گھروں کا آسماں،
ندی والی جل پری،
صوفیاء کی وارث،
اجرک اوڑہے رنگوں والی رلی پر بیٹھی بوڑہی،
اولاد کی جدائی میں ضعیف ہوجانے والی ماں “سندھ” انتقال کرگئی ہے۔جس کا لاوارث جسد خاکی تماچی کے کنارے کے قریب ہی۔ کولاچی میں ایدہی کے سرد خانے میں پڑا ہے۔
میں اس بات کا واضح طور پر اعلان کرتی ہوں کہ، وہ بوڑہی ماتا دھرتی جس کے جسم پر مغلوں، ارغونوں، انگریزوں، افغانیوں، تاتاریوں، بہاریوں کی تلواروں کے چیر ہیں۔ اس کے مقدس ہاتھوں پر ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نشانات اور ان لٹیروں کے عقائد کے نیل پڑے ہیں۔ ان کے پالے سانپوں کی وجہ سے اس کا انگ انگ نیلا پڑگیا ہے۔
میں اس لاش پر گریا کر رہی ہوں وہ جو سات دہائیاں پہلے امرتا پریتم نے کیا تھا۔ وہ وارث شاھ سے مخاطب تھی میں وہاں بھٹائی کا نام لگا کر وہ مرثیہ پڑھ رہی ہوں۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی تُوں ِلکھ ِلکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن

اُٹھ دردمنداں دیاں دردیاں اُٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں ِوچھیاں تے لہو دی بھری چناب

کسے نے پنجاں پانیاں وچ دِتی زہر رلا
تے انہاں پانیاں نے دھرت نُوں دِتا پانی لا

ایس زرخیز زمین تے لُوں لُوں پُھٹیاں زہر
گٹھ گٹھ چڑھیاں لالیاں پُھٹ پُھٹ چڑھیا قہر

ویہو ولسّی وا فیر وَن وَن وگی جا
اوہنے ہر اِک وانس دی ونجھلی دِتی ناگ بنا

ناگاں کِیلے لوک مُونہہ بَس فیر ڈنگ ہی ڈنگ
پل او پل ای پنجاب دے نیلے پے گے انگ

وے گلے اوں ٹُٹے گیت فیر، ترکلے اوں ٹُٹی تند
ترنجنوں ٹُٹیاں سہیلیاں چرکھڑے کُوکر بند

سنے سیج دے بیڑیاں لُڈن دِتیاں روڑھ
سنے ڈالیاں پینگ اج پپلاں دِتی توڑ

جتھے وجدی سی پُھوک پیار دی اوہ انجھلی گئی گواچ
رانجھے دے سب وِیر اج بُھل گئے اوہدی جاچ

دھرتی تے لہُو وسیا قبراں پیاں چوون
پرِیت دِیاں شاہ زادیاں اج وِچ مزاراں روون

وے اج سبھے قیدو بن گئے ، حُسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائے لبھ کے وارث شاہ اِک ہور

اَج آکھاں وارث شاہ نُوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول

کتنے لوگ ہیں ایک بھٹائی پیدا نہیں کر سکے؟
جو آج درد لکھتا جو اج سسی لکھتا مومل کو گاتا
جو آج پیار پریت و زندہ کرتا تنبورے کی تاریں چھیڑتا
کاش آج بھٹائی ہوتا تو یوں یہ جسد خاکی لاوارث نا ہوتا۔

میں یہ واضع طور پر سنانا چاہتی ہوں کہ میں اس لاوارث جسد خاکی پر رو رہی تھی تو کچھ لوگ مجھے اٹھا کر لے گئے۔ مجھے یہ کاغذ دیا گیا اس پہ کچھ لکھا تھا مجھے پڑھ کر سنانا تھا۔ میں نے وہ کاغذ پڑہنے کے بعد جانا کہ مجھے تو اس لاوارث جسد خاکی سے لاتعلقی کرائی گئی ہے۔
میں ابھی روایتوں کی امین اس بوڑہی سندھ ماتا کے جسد خاکی پر گری کرنا چاہتی تھی۔ اس کے انگ انگ پر پڑے نیلوں پر آنسو بہانا چاہتی تھی۔ میں چاہتی تھی اس جسد خاکی کو اٹھا کر بھٹائی کے پہلو میں دفن کروں۔ لیکن بھٹائی بھی تو مقبوضہ بیت المقدس میں دفن ہے۔ ایک پل کیلئے سوچا پھر خیال دل سے نکال دیا۔ پھر سوچا کوئی ناو پکڑوں کینجھر میں لیکر نوری کے پاس دفن کروں۔ لیکن نوری بھی اب وہ نہیں رہی ۔
نا آج اس کنارے پر تماچی ہیں
اداس اداس کینجھر کے کنارے ہیں

پھر سوچا سن لے جاتی ہوں۔ لیکن سن کا بوڑہا درویش (جی ایم سید) بھی کئی سالوں سے نظربند ہے۔ نا کاک محل کی وارثی بچی ہے، نا سادھ بیلے کی، نا روھڑی نا شمالی سندھ نا لاڑ،

لاڑ تیری لٹی سرزمین لٹتی رہی
کل جلا ٹھٹہ آج کولاچی بھی گئی

ایدہی بھی مرگیا۔ مجھے لگتا ہے اس ماں کے لاوارث جسد خاکی کو گدھ اٹھا کر لے جائیں گے، اپنے ورد پڑہیں گے، اس پر اپنا دستور زبردستی تھوپیں گے یا پھر اس بڑہیا کے جسم سے گوشت نوچ کر کھائیں گے۔ کوئی ہے جو اسے بچائے۔ کوئی ہے؟ نہیں نہیں کوئی نہیں۔ اب سب درد خود کہنے ہیں اور خود ہی سننے ہیں۔ سب دکھڑے خود گاوں گی خود سنوں گی۔ اب حکم ہے کہ آہ بھی باہر نہیں نکالنی۔

میں ضمیر کی قیدی، اپنے ہوش و حواس کے ساتھ اس لاوارث بڑہیا کی وارثی کے جرم میں سرعام معافی چاہتی ہوں۔ میں اپنی غلطی تسلیم کرتی ہوں کہ اس بڑہیا کے جسم پر آئے زخم، جسم پر پڑے نیلوں پر آنسو بہائے۔ میں معافی چاہتی ہوں اس اقرار جرم کے ساتھ کہ مجھے اس سانحے پر گریا بھی نہیں کرنا تھا۔ میں اپنے کیے پر شرمسار ہوں۔
اے عرش و فرش پہ قابض گدھ، میں بے بس اکیلی ہرنی ہوں۔ میں نے غلطی کرکہ یہ غم اپنے سر لے لیا۔ میری جاں بخشی کی جائے۔ اب آپ جیسا کہیں ویسا کرونگی۔ آپ کے ہر تیر کو پھول اور ہر سیاہ کو سفید کہوں گی۔ مجھے معافی دی جائے۔ اس جسد خاکی سے آخری رشتہ تھا وہ بھی توڑ دیا اب اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ جہاں چاہیں آپ اسے دفن کردیں، چاہے سب مل بیٹھ کر اس کی ہڈیوں سے گوشت نوچ کر کھائیں۔ آپ اب حق بجانب ہیں۔ لاورث لاش گدھ کی مہمانی ہوتے ہیں۔
“لطیف ابراہیم”
(یہ پوسٹ کچھ دن پہلے سندہی میں کی تھی، کافی اردو اسپیک دوستوں نے اسرار کیا کہ اے سندہی سے اردو میں ترجمہ کریں، کچھ تبدیلی کے ساتھ پیش خدمت ہے،اردو کافی کمزور ہے کوئی کمی ہو تو معذرت )






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *