میرپور ، تاريخی شہر منگا ڈيم کی نذر ہو گيا، مگر رياستی عوام بجلی کو ترس رہے ہيں
(ويب مانيٹرنگ) ميرپور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا ضلع ہے – 1998 کی مردم شماری کے مطابق ضلع میرپور کی آبادی 3 لاکھ 35 ہزار تھی جو آج بڑھ کر 5 لاکھ ہو چکی ہے –
میرپور شہر منگلا ڈیم کے پانیوں تلے ڈوب گیا تھا۔ صدیوں پرانا ریاست جموں کشمیر کا تاریخی ادبی اور ثقافتی شہر اس ڈیم کی نذر ہو گیا جس سے پیدا ہونیوالی 1200 میگا واٹ بجلی اسی شہر کے باسیوں کو کم اور پنجاب کے شہروں کو زیادہ اور سستی ملتی ہے – ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستانی مقبوضہ جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان جن کی کل ضرورت 600 میگا واٹ سے بھی کم ہے یہ بجلی پہلے ملے انکا پہلا حق ہے اور ڈیم کی رائلٹی براۓ نام آزاد حکومت کو ملنی چاہیے۔ جیسے تربیلہ ڈیم کی کے پی کے حکومت رائلٹی لیتی ہے۔ جیسے کراچی بندرگاہوں کی رائلٹی لیتا ہے۔ جیسے بلوچستان کو گیس کی رائلٹی ملتی ہے۔ جیسے پنجاب ذراعت اور صنعت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ مگر پاکستانی آقاؤں نے ریاست کے عوام کو بھیڑ بکری بنا کر ایکٹ 74 لگا کر استحصال کی شدید ترین حدوں کو پار کرتے ہوے 45 لاکھ کشمیریوں کو بد ترین معاشی محکومی کے گڑھے میں دھکیل رکھا ہے۔ اور اوپر سے واپڈا پیغام دیتا ہے کشمیریو آپ بجلی کے نادہندہ ہو۔ آج بھی 8. 8 گھنٹے بجلی نہیں ہوتی ۔ ستم یہ ہے کہ 45 لاکھ میں سے 44 لاکھ کو پتہ ہی نہیں ان کے وسائل کی مالیت کیا ہے ؟ ان کے اپنے پانیوں پر انھیں کوئی منصوبہ لگانے کی اجازت ہی نہیں – اور وہ ناداں سمجھ رہے ہیں ہمیں پاکستان کھلاتا ہے ۔ کون کس کا کتنا کھا گیا کتنا ڈکار رہا ہے؟ عوام نہیں جانتے ۔ وہ پاکستانی شہریت, تاریخ پاکستان اور مطالعہ پاکستان کو رٹے لگا رہے ہیں –
آج کا میرپور دوبارہ آباد کیا گیا – اس ضلع کے لگ بھگ 10 ہزار افراد 60 کی دہائی میں برطانیہ منتقل ہوۓ۔ جو 2010 تک آسانی سے مسلسل اپنے عزیزوں کو برطانیہ منتقل کرتے رہے۔ بلکہ ضلع کوٹلی اور پونچھ کے بھی کافی تعداد میں لوگ انہوں نے برطانیہ لائے – آج ضلع میرپور کے 6 لاکھ لوگ برطانیہ میں ہیں جن میں سے 3 لاکھ سے زائد برطانیہ میں ہی پیدا ہوۓ – برطانیہ نے انہیں انگریزوں کے برابر مکمل شہری حقوق دیے ہیں اور یہ بھی مکمل وفاداری سے برطانوی ریاست کی تعمیر وترقی اور معاشی بڑھوتری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر ، انجنئیر ، پروفیسر ، پائلٹ ، تاجر ، مکینک ، صنعت کار ، غرض ہر شعبۂ زندگی میں میرپوری کشمیری پیش پیش ہیں۔ یہ 6 لاکھ افراد ہر سال اربوں روپے پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں منتقل کرتے ہیں ۔ اسلام آباد سے لندن ، برمنگھم، مانچسٹر اور گلاسگو آنے والی پروازیں انہی کے دم پر چلتی ہیں – اس کل سرمائے کی مالیت پاکستان کے زیر استعمال جموں و کشمیر کے سالانہ بجٹ سے تین گنا زیادہ ہے اور پاکستانی حکومت ان کے لیے 70 سالوں میں ایک ایئر پورٹ تک نہیں بنا سکی –
میرپور 1947 میں ضلع بنا۔ پہلے یہ جموں کی ایک تحصیل تھا۔ 1010 مربع کلو میٹر پر پھیلا یہ ضلع گرم اور خشک سطح زمین اور گرم موسم والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے اکثر شہریوں کی رنگت ٹھنڈے اضلا ع کے لوگوں کی نسبت سانولی ہے – میرپور میں 16 فیصد ہندو آباد تھے جن میں سے مومنوں نے یہاں 1 بھی نہیں چھوڑا۔ جو جہنم پہنچانے سے بچا اسے جموں پہنچا دیا۔ خود مختار ریاست جموں و کے معروف راہنما کرشن دیو سیٹھی کا آبائی شہر بھی میرپور ہے جو آج کل جموں میں آباد ہیں – تحصیل میرپور ، تحصیل ڈڈیال دونوں ہی شہر بن چکے ہیں۔ تاہم ضلع بھر میں 58 گاؤں ہیں – راۓ پور ، چتر پڑی ، نوگران سموال ، کھڑی خاص ، اسلام گڑھ ، چکسواری ، پلاک ، پنیام رٹہ ، تھب جاگیر ، رام کوٹ ، سیاکھ ، ملوٹ ، کندھر وغیرہ اہم گاؤں ہیں – منگلہ جھیل ضلع کا حسن ہے۔
میرپور پاکستان کے 148 اضلاع میں تعلیم میں 13 نمبر پر ہے۔ یہاں خواندگی 73 فیصد ہے جو ضلع باغ ، مظفر آباد اور پونچھ سے کم مگر پوری ریاست جموں و کشمیر میں بہتر ہے ۔ یہاں تعلیمی سہولتیں باقی اضلا ع کی نسبت بہتر ہیں مگر پرانی عمر میں خواندگی کی شرح کم اور نئی نسل میں زیادہ ہے – ضلع میرپور کے مشرق میں بھمبر ، مغرب میں پاکستانی ضلع جہلم ، شمال میں کوٹلی اور بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر جب کہ جنوب میں پاکستانی پنجاب کے جہلم اور گجرات کے اضلا ع ہیں –
Related News
.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے
Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More
پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت
Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More