فرقہ واریت اور قبیلائیت سے بھی خطرناک رجحان ، تحرير اسد نواز
آزادی پسند پارٹیاں غلام قوموں کے اندر آزادی کا شعور پیدا کرنے کیلیے کردار ادا کرتی ہیں،ہمارے ہاں قومی غلامی اور تعصبات کے خلاف بھی جیسی تیسی ہی سہی روائیتی سیاسی پارٹیوں کے برخلاف آزادی پسند یا نیم آزادی پسند پارٹیوں اور گروپوں نے بھی ایک وقت تک شعوری حوالے سے بہت مثبت کردار ادا کیا، اس حوالے سے بلا مبالغہ جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا کردار سب سے زیادہ ہے ۔لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے جب سے سیاست اور تحریک سوشل میڈیا پر منتقل ھوئی ہے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ ان پارٹیوں تنظیموں اور گروپوں میں بھی بغیر کسی تربیت کے محض دیکھا دیکھی ،مقامی سطح پر ایک دوسرے کی ضد بازی میں بھی نوجوان ان تنظیموں اور گروپوں کا حصہ بن گئے، جو نظریاتی، سیاسی یا شعوری تربیت حاصل کرنے کے بجاۓ شہرت،ایڈونچر ،اور دوسروں کو دکھانے کی حد تک نظریاتی اور انقلابی کہلوانے لگے، شوشل میڈیا کی وجہ سے ایسے عناصر کی بھرمار ہو گئی، باقی روائیتی پارٹیوں کے کارکنوں کی طرح دلیل کے بجاۓ گالم گلوچ، روائتی زنانہ طعنے طنز کو رواج دیا گیا، آزادی پسند( یا المشہور نیشنلسٹ) کارکنوں اور عام سیاسی کارکنوں کے روئیوں میں جو عمومی فرق ھوتا تھا، دلیل کے ساتھ اپنی بات ثابت کرنے اور دوسروں کو قائل کرنے کی خوبی جسکا عام لوگ اور دوسرے مکاتب فکر کے لوگ اپنی نجی محفلوں میں بھی اعتراف کیا کرتے تھے وہ انفردیت ختم ہوتی نظر آ رہی ہے ، ان عناصر نے اپنی اپنی پارٹی یا گروپ کو ایک مزہبی فرقے ،قبیلے یا برادری جیسے تعصب کی طرح بنا دیا ہے، برادری ازم و فرقہ واریت کی طرح سیاسی فرقہ وارانہ تقسیم ایک نئی تقسیم کے طور پر سامنے آئی ہے، اس بنیاد پر مثبت کام کے بجاۓ اکثر وبیشتر نفرت انگیزی ہی پھیلائی جاتی ہے ، خود اپنے دماغ سے سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کے بجاۓ سچائی کا معیار یہ بنا دیا گیا ہے کہ کیا میری پارٹی یا گروہ کا لیڈر بھی ایسا سمجھتا ہے یا نہیں، جس چیز کو وہ غلط کہے گا میں بھی اسی کو غلط کہوں گا ، جس کو وہ صیح کہے گا اسی کو میں بھی صیح کہوں گا۔
یہ روئیہ پروان چڑھانے میں ان لیڈران کا بھی ہاتھ ہے جو کسی نظریے کے بجاۓ اپنی شخصیت کو زیادہ اہم یا ناگزیر بنانا چاہتے ہیں اور نظریات کی آڑ میں اپنی شخصیت کی پوجا کروانا اور خود کو ایک بت بنوانا پسند کرتے ہیں تاکہ نظریات اور تحریک کے بجاۓ انکی شخصیت زیادہ واضع ہو، اس زہنیت کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں دیگر تعصبات کی تقسیم کے ساتھ یہ ایک نئی تقسیم اور تعصب پیدا ہو گیا ہے جو قبیلائیت اور فرقہ وارانہ تقسیم سے کسی صورت کم نقصان دہ نہیں، یہ دراصل ایک پوری ذہنیت ،سوچ اور سسٹم ہے، جسکو یونی پولر سسٹم کہا جاتا ہے، یونی یعنی “اکیلا” یا “میں” میری سوچ، میرا فرقہ، میری جماعت، اور “میں” ہی ٹھیک ہیں باقی ساری دنیا غلط ہے ، اسی طرح جو کچھ میری پارٹی کہتی ہے اس پر بھی سوچنا اور سوال کرنا گناہ یا جرم سمجھا جاتا ہے، ہاں البتہ میرا لیڈر یا آئڈیل اگر کسی چیز کے غلط ہونے کے بارے میں سوچتا ہے تو پھر ٹھیک ہے ، اس سوچ کے زیر اثر آزاد تھنکر، سیاسی کارکن یا انقلابی پیدا ہونے کے بجاۓ ریموٹ کنٹرول،مجاور، عقیدت مند یا شاہ دولو کے چوہے ہی پیدا ہو سکتے ہیں، اور شاید یہی پلان ہمارے اوپر حکمرانی کرنے اور غلامی کو طوالت دینے والوں کا بھی ہے کہ آزادانہ سوچنے ، سمجھنے اور سوال کرنے والی نسل پیدا نہ سکے، وہ بظاہر جو بھی نعرے ماریں، تقریریں کریں، لیکن انکے دماغ کسی ایک سٹیج پر قابل کنٹرول ھوں, تاکہ جب بھی کسی تحریک کو کنٹرول کرنا یا اسکا رخ تبدیل کرنا ہو تو اس میں شامل ہزاروں لوگوں کے بجاۓ صرف ایک لیڈر کو خریدنا پڑے، اسلیے سوچیے ، سمجھیے اور سوال کیجیے ، سوال ہی جمود کو توڑتا اور نئے راستے دکھاتا ہے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More