Main Menu

غلاموں کا غصہ یا غصہ کی غلامی؟ وسعت اللہ خان

Spread the love


پرانے استنبول میں گھومتے گھومتے نیلی مسجد کے سائے میں ایک چھوٹے سے باغ کی بنچ پر تھک ہار کے بیٹھ گیا۔ میرے برابر میں ایک ترک بزرگ بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے رسمی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا کہ کیسے ہو؟ میں نے کہا تھک گیا ہوں مگر مزہ آ رہا ہے۔ پھر گفتگو شروع ہو گئی۔ کسی مقامی کالج میں تاریخ پڑھاتے پڑھاتے حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے۔ پوچھنے لگے ہمارا شہر کیسا لگا؟ میں نے کہا کہ پچھلے تین روز سے گھوم رہا ہوں۔ لیکن اب تک سڑک پر کوئی ایسا راہگیر نہیں دیکھا جس کا منہ لٹکا ہوا ہو۔ یا کوئی کسی سے دست و گریباں ہوگیا ہو یا کم از کم گالم گلوچ پر ہی اتر آیا ہو۔ کیا آپ کے ہاں لوگوں کو غصہ نہیں آتا حالانکہ اس شہر میں لاکھوں لوگ رہتے ہیں۔

بڑے میاں نے عینک کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھا اور پھر مسکرا دیے۔ کہنے لگے تم کہاں کے ہو؟ میں نے کہا پاکستان سے۔ پھر پوچھا پاکستان میں پیدا ہوئے یا انڈیا میں؟ میں نے کہا والدین انڈیا میں پیدا ہوئے اور میں پاکستان میں۔ بڑے میاں نے کہا کہ تمہارا سوال بہت مزے کا ہے کہ ترکوں کو بات بے بات غصہ کیوں نہیں آتا؟ ایسا نہیں کہ ہمیں غصہ نہیں آتا لیکن ہر وقت نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ ہم کبھی من حیث القوم غلام نہیں رہے۔ غلاموں کو بات بات پر غصہ آتا ہے کیونکہ غصہ ہی ان کی واحد ملکیت ہوتی ہے اور اس غصے کا ہدف بھی وہ خود ہی ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں میں اپنی بات کہہ پایا یا نہیں۔

بڑے میاں کی بات سن کے مجھے سکون سا آ گیا اور یوں لگا جیسے کوئی برسوں کی پھانس دل سے نکل گئی۔ لیکن ان کے جاتے ہی مجھے یہ سوچ کے غصہ آ گیا کہ یہ ترک آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *