Main Menu

جنيد حفيظ پر توہين مذہب کا الزام، گواہوں کا سُنی سُنائ باتوں پر بيان دينے کا اعتراف

Spread the love


ضلع راجن پور کے پروفیسر جنید حفیظ نے میٹرک میں ٹاپ کیا۔ ایف ایس سی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں پنجاب میں ٹاپ پر رہے۔ دو سال میڈیکل میں ٹاپ کرنے کے بعد انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا اس میں بھی ٹاپر رہے اور اسی قابلیت کی بنا پر لیکچرار بھی رہے۔ امریکا سے سکالرشپ پر فلم میکنگ کا ایک سالہ کورس کر کے پاکستان واپس آئے اور پھر یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کے ساتھ ان کا جھگڑا ہو گیا۔
آج انہیں قید میں سات برس ہو چکے ہیں۔ انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق ان کے والد اپنے شہر کے متمول افراد میں شمار ہوتے تھے سالانہ بیس لاکھ کی زکوٰۃ دیا کرتے تھے اور اب ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا آپ زکوٰۃ کا مستحق لگتا ہے- جنید کا کیس لڑنے والے جناب راشد رحمان کی شہادت کے بعد سے ان کا گھرانہ شدید پریشانی کے علاوہ مالی مشکلات کا شکار بھی ہے-
مقدمے کا حال یہ ہے کہ “ایک گواہ نے یہ بیان بھی دیا کہ جنید حفیظ ایسی انگریزی کتابوں کی تقریب رونمائی میں سٹیج سیکرٹری رہے اور گفتگو کی جن میں توہین مذہب پر مشتمل مواد موجود تھا۔ یہ دونوں کتابیں جب عدالت میں پیش کی گئیں تو مذکورہ گواہ نے کہا کہ اسے انگریزی میں تحریر پڑھنا نہیں آتی بلکہ اسے واقعہ کے روز دوستوں نے بتایا تھا اس لیے اس نے ثواب کی غرض سے بطور عینی شاہد اپنا نام درج کروا دیا۔جبکہ ایسے کئی گواہوں نے عدالت میں اپنے بیانات میں سنی سنائی باتوں پر جنید حفیظ کے خلاف بیانات دینے کا اعتراف کیا”۔

کاش کوئی اچھا وکیل جنید کا مقدمہ مفت لڑنے پہ تیار ہو جائے۔ کاش عدالتوں کو اس کے بوڑھے والدین پہ رحم آ جائے، کاش بین الاقوامی تنظیمیں اس کا کیس یوں اٹھائیں جیسے آسیہ بی بی کو انٹرنیشنل ایشو بنایا گیا تھا۔ کاش حکومت وقت کو ہی اس پر رحم آ جائے۔ توہین رسالت کا انتہائی ناقص اور قانونی سقم سے بھرپور قانون جانے جنید جیسے کتنے بیگناہوں کی زندگیاں برباد کرے گا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *