Main Menu

سولہ مارچ 2021 اور ریاست جموں کشمیر کی وحدت کا سوال؛ تحرير: محمد الیاس

Spread the love

ریاست جموں کشمیر کو تقسیم ہوۓ تقریباَ 74 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ریاست کی تشکیل اور تقسیم پر جہاں مثبت مباحثے نے جنم لیا ہے وہیں پر اس بحث سے اناوں نے بھی جنم لیا۔مہاراجہ پرست اور اینٹی مہاراجہ بحث انفرادی اناوں کی بھونڈی شکلیں اختیار کر گئ۔یہی وجہ ہے کہ ریاست کی وحدت کے سوال کو لیکر مثبت پیش رفت کے بجاۓ یہ بحث نفرت و عناد کی بنیاد بننے لگی۔

نفرت اور عناد کی بنیاد بننے کے سبب اس تمام بحث کا جو مثبت پہلو تھا جس کی بنیاد پر تاریخی حقائق کو کریدتے ہوئے ریاست کی وحدت کی بحالی کی جدوجہد میں سمعتوں کا درست تعین کیا جاتا۔ذاتی اناوں کی وجہ سے وہ پہلو اپنی جگہ پر ہی رہ گیا اور شخصی اور انفرادی پہلو ابھر کر سامنے آ گیا۔یوں ایک مثبت مباحثہ ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔نہ اس کی بنیاد پر کوئی تاریخی لٹریچر تخلیق کیا جا سکا اور نہ ہی ریاست کی وحدت کے سوال کو لیکر نئی بہتر اور ٹھوس حکمت عملی مرتب کی جا سکی جو وطن دوست قوتوں کے درمیان مشترکہ جدوجہد کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی۔ ہاں اس ساری بحث کا ایک پہلو ضرور نتیجہ خیز ثابت ہوا کہ جو کارکن ریاست کی وحدت کی بحالی کی جدوجہد میں درست فکری بنیادوں پر بے لوث جدوجہد کے عمل میں ہیں تاریخی حوالے سے ان کے بہت سارۓ ابہامات دور ہوۓ ہیں جن کی بنیاد پر جو تنظیمیں درست بنیادوں پر جدوجہد کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں ان کے اندر تاریخی بیانیے پر از سرِ نو بحث نے جنم لیا ہے۔

ریاست کے قیام اور تشکیل پر بہت ساری گفتگو جاری ہے جس کے دوران اکثر یہ سوال رکھا جاتا ہے کہ ریاست جموں کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کی جاگیر تھی یا اس نے ریاست قائم کی تھی؟
مہاراجہ گلاب سنگھ جموں کا حکمران تھا کشمیر کے علاقے اس نے تاوان جنگ کی وہ رقم ادا کر کہ حاصل کیے جو پنجاب کی خالصہ سرکار نے معائدہ لاہور کے تحت برطانوی سامراج کو تاوان جنگ کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے دیے تھے۔ جبکہ تبت سے فوجی طاقت سے حاصل کیے ہوۓ علاقوں کو بھی شامل کرتے ہوۓ گلاب سنگھ نے ان تمام علاقوں کو واضح شناخت دیتے ہوۓ ریاست جموں کشمیر اقصاۓ تبتہا کا قیام عمل میں لایا۔ باوجود اس کے کہ اس عہد میں بادشاہ مفتوع علاقوں کو اپنی جاگیروں یا سلطنتوں میں ضم کر کے ان کی شناخت مٹا دیتے تھے لیکن مہاراجہ گلاب سنگھ نے تمام علاقوں کو واضح شناخت دیتے ہوۓ ایک ریاست کا قیام عمل میں لایا۔ یہی ریاست 1947 میں تقسیم ہوئی اور اسی ریاست کی وحدت کی بحالی کے لیے وطن دوست قوتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔ تاریخی طور پر مہاراجہ گلاب سنگھ اس ریاست کا بانی تھا خواہش کی بنیاد پر اس کے اس کردار کو مسخ نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح ریاست کے ایک سو ایک سالہ ادوار میں ریاستی حکمرانوں نے عوام پر اگر ظلم و ستم کیے ہیں تو ان سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس عہد کے اندر بلکہ موجودہ عہد میں بھی حکمران عوام دوست نہیں ہوتے وہ عوام پر ظلم و جبر کرتے ہیں جاگیردارانہ عہد میں تو بادشاہوں کا ظلم زیادہ شدید نوعیت کا ہوتا تھا تاریخ انسانی گواہ ہے۔
محب وطن ہونے اور عوام دوست ہونے میں فرق ہوتا ہے ضروری نہیں کہ مہاراجہ اگر محب وطن تھا تو وہ عوام دوست بھی تھا۔مہاراجہ گلاب سنگھ تاریخی طور پر بانی ریاست تھا محب وطن تھا اور ہری سنگھ بھی محب وطن تھا لیکن ان بادشاہوں کو محب وطن ہونے کی بنیاد پر عوام دوست نہیں کہا جا سکتا چونکہ بادشاہ عوام دوست نہیں ہوتے۔


جبکہ 1947 میں ریاستی تقسیم میں بیرونی حملہ آوروں کی سہولت کاری کرنے والے غدارِ وطن بھی تھے اور عوام دشمن بھی تھے اور نسل در نسل آج تک عوام دشمنی اور بیرونی قوتوں کی سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مذہب کی عینک اتار کر تاریخ کا جائزہ لیا جاۓ تو تاریخ ہر کردار کو وہی مقام دیتی ہے جو عمل کی کسوٹی میں اس کا بنتا ہے چونکہ تاریخ خواہشات کی بنیاد پر مرتب نہیں ہوتی بلکہ عمل کی بنیاد پر ترتیب پاتی ہے۔

دوسرا اس ساری بحث کے دوران پرچم کا سوال بہت شدومد کے ساتھ سامنے آیا۔ریاست کی تقسیم کے بعد ہندوستانی مقبوضہ جموں کشمیر اور پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں الگ الگ پرچم سامنے آۓ جو دونوں قابضین کے مسلط کردہ پرچم ہیں جن کا ریاست جموں کشمیر کے عوام اور مستقبل کی جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں بنتا چونکہ یہ غلامی اور جبری تسلط کی غمازی کرتے ہیں۔

سن 1846 تا 1947 ایک سو ایک سال ریاست جموں کشمیر کا جو پرچم رہا ہے اس پرچم کو اٹھاۓ بغیر ریاست کی وحدت کی بحالی کی جدوجہد نہیں کی جا سکتی یہ موقف بھی درست نہیں ہے۔

ایک تو ریاست کے اس سابقہ پرچم کو جب ابتدا میں زیرِ بحث لایا گیا تو اس پر بہت مثبت اور جاندار مکالمے کا آغاز ہوا لیکن بعد میں اس پرچم کو غیر سنجیدگی سے اٹھاتے ہوۓ بہت متنازعہ بنا دیا گیا۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ایک سو ایک سال تک ریاست جموں کشمیر کا پرچم یہی رہا ہے۔لیکن ریاست کی وحدت کی بحالی کے لیے اسی پرچم تلے جدوجہد کرنا نا گزیر ہے یہ موقف درست نہیں ہے۔کوئی بھی تنظیم جن مقاصد اور آدرشوں کے لیے جدوجہد کر رہی ہوتی ہے اس کا اپنا سلوگن اور پرچم ہوتا ہے وہ اسی پرچم کو تھامے اپنے اجتماعی مقاصد کے لیے جدوجہد کرتی ہے اور اس کا پرچم اس کے سلوگن پروگرام اور نظریے کی غمازی کر رہا ہوتا ہے۔ اس پہراۓ میں اگر کوئی تنظیم اس ریاستی پرچم تلے جدوجہد کرنا چاہتی ہے تو اس میں بھی کسی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے یہ ہر تنظیم کا جمہوری حق ہے۔

اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تقسیم شدہ ریاست کی وحدت کی بحالی کے لیے تقسیم شدہ ریاست کے پرچم کو اٹھانا اس لیے لازم ہے کہ اسی ریاست کی وحدت کی بحالی کی جدوجہد ہو رہی ہے یہ بھی کوئی دلیل یا منطق نہیں ہے کیونکہ ہم جن بنیادوں پر ریاست کی وحدت چاہتے ہیں وہ بنیادیں ریاست میں بسنے والی تمام قومیتوں کی رضاکارانہ فیڈریشن کا قیام ہے جس میں بلا امتیاز رنگ نسل قومیت مذہب سب کو مساویانہ حقوق حاصل ہوں گے بشمول حق علیحدگی ۔ تو پھر ریاست کی وحدت کی جدوجہد میں بھی جو قومیت جس بھی پرچم تلے اس جدوجہد کو منظم کرنا چاہتی ہے یہ اس کا جمہوری حق ہے۔ ہاں البتہ قابض کے مسلط کردہ پرچموں کو اٹھا کر ریاست کی وحدت کی بحالی کی جدوجہد ممکن نہیں ہے۔مزید برآں ریاست کی وحدت کی بحالی کے بعد ریاست کے عوام کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنا قومی پرچم تخلیق کریں۔ریاست کا قومی پرچم ریاستی عوام نے خود تخلیق کرنا ہے۔

آج ہمارۓ لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی وحدت کے بیانیے کو لیکر ان قوتوں کے درمیان پائیدار اتحاد ممکن ہے جو ریاست جموں کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان دونوں کو قابض سمجھتی ہیں؟ کیا جو جس کا غلام ہے اس کے خلاف جدوجہد کرۓ کی بنیاد پر صبر آزما لمبی اور حتمی لڑائی لڑنے کے لیے کوئی اتحاد بن سکتا ہے جو پائیدار ہو؟؟؟ کیا ایسا اتحاد ممکن ہے جس میں سیاسی عمل سے لیکر نظریاتی تربیت کے عمل تک اجتماعی جدوجہد کی جا سکے؟؟

اگر آج ایسا ممکن نہیں ہے تو مستقبل میں اسے ممکن بنانے کے لیے اجتماعی کاوشیں کی جائیں۔ورکنگ ریلیشن شپ کو مضبوط کیا جاۓ۔اجتماعی لیڈر شپ کی فکر کو فروغ دیا جاۓ۔اگر ایک سال میں مارچ 2022 تک ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوں تو پھر یہ ساری بحثیں واٹس اپ گروپس سے نکل کر عمل میں آئیں گی اور نتیجہ خیز بھی ہوں گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یہ بحثیں قبائلی شخصی اناوں کا شکار ہو کر نفرتوں اور عناد کی بنیاد بنتی رہیں گی۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *