Main Menu

پاک و ہند کے حکمران رياست پر دائمی قبضے کی سازشوں سميت اپنے عوام کا بھی استحصال کر رہے ہيں، ذوالفقار ايڈووکيٹ

Spread the love

دونوں ممالک کے حکمران جنگی جنون کے نام پر بے تماشہ خرچ کر رہے ہيں اور اُنکے پچاس سے زاہد فيصد شہری خطِ غُربت سے نيچے زندگی گزار رہے ہيں،

آؤ ہم سب ملکر اپنے حقوق و بنیادی ضرورتوں کے حصول کیلئے ان عوام دشمن بالا دست طبقات کے خلاف باھم منظم جدوجہد کا آغاز کریں
چيئرمين پی اين اے کا پاکستانی، ہندوستانی و رياستی عوام کے نام پيغام

پونچھ ٹائمز

چيئرمين پيپلز نيشنل الائنس ذوالفقار احمد ايڈووکيٹ نے عوام کے نام اپنے ایک پيغام ميں کہا ہے کہ
پیارے ہموطنو! پاکستان و بھارت کے باشعور و امن پسند شہریو! ان دنوں دونوں ممالک کے ذمہ داران و صاحب اختیار افراد کی جانب سے بیانات آ رہے ہیں دہلی و اسلام آباد کے حکمرانوں نے طے کر لیا ھیکہ سیز فائر لائین (کنٹرول لائین )کو اب ٹھنڈک بخشی جائے اور 5 اگست 2019 کے بھارتی آرڈیننس پر ہی اکتفا کرتے ہوئے سمجھوتا کر لیا جائے کہ جموں کشمیر جو جسکے قبضہ و زیر تصرف ہے وہ اسی کی ملکیت تصور ہو صرف زمین۔ قدرتی و معدنی وسائل ہی نہیں بلکہ دو کروڑ انسان بھی انہی دو طاقتور و قابض ممالک کی ہی ملکیت ٹھہرے۔

پیارے قاری حضرات ! یہ قضیہ و المیہ 73 سال پرانا ہے۔ بنیادی کردار برطانوی سامراج کی چھتری تلے بھارت و پاکستان کے حکمرانوں کا ہے جنہوں نے برصغیر کی تقسیم کے دو ماہ بعد اپنی افواج جموں کشمیر میں داخل کر کے ھمیں بھی اسی گہرے و ان مٹ زخم سے دو چار کیا جسکا خمیازہ وہ بھی آج تک بھگت رہے ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کا مسلمہ مقدمہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں موجود ہے اور دونوں قابض ممالک بارہا بینالاقوامی برادری کے رو برو تسلیم کر چکے کہ ھم اپنی فوجیں جموں کشمیر سے نکالیں گے۔ جناح نے تقسیم برصغیر سے قبل بارہا کہا کہ اگر پر نسلی سٹیٹس میں سے کوئی بھی ریاست ململ آزاد رہنا چاہتی ہے تو اسے اختیار حاصل ھیکہ وہ آزاد رہے۔

نہرو بھی جب 1948 میں مسلئہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لیکر گئے تو 13 اگست 1948 کو منظور ہونے والی قرارداد میں کشمیریوں کے بنیادی حق خودارادیت و آزادی کو بینالاقوامی برادری اور بھارت و پاکستان دونوں نے بھی تسلیم کیا تھا دونوں نے ریاست میں بزور طاقت داخل کی گئی اپنی افواج کو بھی نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔ حتی کہ نہرو نے 7 اگست 1952 کو ہندوستان کی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ جموں کشمیر ھمارے دل و دماغ کے بہت قریب ہے اور اگر کسی بھی فیصلہ یا بدبختی کے باعث کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں رہتا یہ ھمارے لیئے زور کا دھچکا دکھ درد کا باعث ہو گا اور اگر ریاست کے عوام ھمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے وہ بلا شبہ آزاد رہ سکتے ہیں ھم انہیں انکی مرضی کیخلاف زبردستی ساتھ نہیں رکھیں گے خواہ یہ فیصلہ ھمارے لیئے کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔ بھارت و پاکستان کے ان تاریخی الفاظ کے بعد اٹوٹ آنگ و شہہ رگ کے نعروں نے کہاں سے جنم لیا اسکا دہلی و اسلام آباد کے ایوانوں میں براجمان بالا دست طبقات کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے حکمران ظاہری طور پر کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں جبکہ پاکستان کے زیر قبضہ جموں کشمیر کے علاقہ گلگت بلتستان کو 28 اپریل 1949 کو ھم سے الگ کر کے مکمل طور پر اپنے زیر نگیں کر لیا۔ سندھ تاس معاہدہ کے کشمیر کے تین دریا بھارت کے حوالہ کر کے انکے ریاست پر قبضہ کو تسلیم کر لیا۔ 3 جنوری 1966 کو جنرل ایوب اور شاستری کے مابین تاشقند معاہدہ۔ 2 جولائی 1972 کو بھٹو اور اندرہ گاندھی کے درمیان شملہ معاہدہ۔ سال 1999 میں نواز شریف اور واجپائی کے درمیان مذاکرات ہوئے فوری بعد مقتدر قوتوں نے نواز شریف کو چلتا کیا۔ پھر 2004 میں جنرل مشرف اور واجپائی کے مابین آگرہ میں مذاکرات ہوئے جن چار اپشن پر بات چیت ہوئی شنید یہی ھیکہ ریاست کو مستقل تقسیم کرنے بارے سمجھوتا ہو چکا تھا لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ پائی لیکن افسوسناک اور مسلئہ کو حل کرنے بارے غیر سنجیدگی کا یہ عالم ھیکہ دونوں اطراف سے دونوں قابض قوتوں نے اصل و بنیادی فریق کشمیری عوام کو مذاکرات میں شامل کرنا تو درکنار پوچھا تک نہیں کہ ھم کیا کرنے جا رہے ہیں۔ دو کروڑ کشمیری عوام ایسے کسی معاہدہ کے نہ ہی پابند ہیں اور نہ ہی تسلیم کرتے ہیں جو معاہدہ انکے مستقبل کی نسبت کیا جا رہا ہے اور وہ اس معاہدہ میں سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔ ان دنوں سیز فائر لائین پر فائر بندی و امن کے ڈھنگورے بج رہے ہیں اور دونوں ممالک کی بیک ڈور ڈپلومیسی کے چرچے ہیں۔ اے ذاتی مفادات و حکمرانی کے خمار میں ڈوبے شیطان صفت بھیڑیواگر اپ نے بیگناہ و معصوم لاکھوں انسانوں کا خون بہانے کے بعد بھی ریاست کو تقسیم ہی کرنا تھا تو وہ تو 73 سال قبل اپ نے جبری تقسیم کر ہی دی تھی پھر جنگ و جدل، خون و خرابہ کیسا عمل تھا؟

بھارت، پاکستان اور جموں کشمیر کے باشعور لوگو ! دراصل برطانوی سامراج کے زیر تربیت و سایہ پلنے والی جرنیل شاہی و جاگیر دار سیاستدان آج تلک انہی کی سامراجی چالوں کے عین مطابق کمزور قوموں و علاقوں انکے وسائل پر قبضے کرنے کو اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں اور اپنے کروڑوں انسانوں کو بھی انہی توسیع پسندانہ عزائم کا اسیر بنا کر انکے بھی بنیادی انسانی حقوق کے غاصب ہیں اور انکی انسانی ضرورتوں پر خرچ ہونے والے وسائل کو جنگی جنون، فوجوں، میزائلوں، بموں، ٹینکوں پر بے تحاشا خرچ کیا جا رہا ہے جبکہ دونوں اطراف 50 فیصد سے زاہد انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

آؤ ہم سب ملکر اپنے حقوق و بنیادی ضرورتوں کے حصول کیلئے ان ظالم، جابر، جھوٹے، منافق، وراثتی سنپولوں، عوام دشمن، مزدورو کسان مخالف بالا دست طبقات کے خلاف باھم منظم جدوجہد کا آغاز کریں۔ ھمارے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے جبکہ پانے کو پوری دنیا پڑی ہے۔

دہلی و اسلام آباد کے حکمرانو ! اپ سے قبل بھی ان ایوانوں میں بڑے بڑے طاقتور، دانشور، ڈپلومیٹس، سازشی، مہم جو، براجمان ہوئے اور مسلئہ کشمیر کو اپنے ممالک کے مفادات کی عینک سے ہی دیکھ کر حل کرنے کے منصوبے بناتے رہے لیکن دنیا سے چلتے بنے۔ کشمیریوں کے نے کل تقسیم کو قبول کیا تھا نہ ہی آج کرتے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں کرنے کیلئے تیار ہیں تم اپنے خیالی پلاؤ پکاتے رہو اور اپنے اپنے اقتدار کی خاطر اپنے عوام کو جھوٹ و فراڈ کے ذریعے قائل کرنے کی تدبیریں کرتے ہو کیونکہ آپ مسلئہ کشمیر پر ہی پچھلے 73 سالوں سے اپنے عوام کا معاشی۔ سیاسی۔ سماجی۔ استحصال جاری رکھے ہوئے ہو۔ لیکن اب وہ وقت ان پہنچا ھیکہ جب تاج گرائے جائیں گے اور تخت اچھالے جائیں گے۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *