کاشان مسعود: بڑے عہد کا چھوٹا آدمی ؛ تحرير: قمر عزيز
کاشان مسعود اپنے عہد کا ایک بڑا نام جو شہرت کی بلندیوں سے ہوتا ہوا سرمائے تلے دب گیا۔ کاشان مسعود اپنے شعوری عہد میں نوجوانوں کو درس دیا کرتا تھا کہ غیر ملکی کٹھ پتلیاں اس سماج کے لیے زہر ہیں سرمایہ دار اس خطے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے سرمائے کی بنیاد پہ سروں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں ۔ سرمایہ عزت نفس خوداری خرید لیتا ہے مظفرآباد بیٹھا ٹولہ اسلام آباد کا بوٹ پالشی ہے ۔ ہندوستان پاکستان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں فوج ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی جموں کشمیر پہ قابض ہے ، قاتل ہے اور قاتل قابض ہمارا ہمدرد نہیں ہو سکتا ۔
کاشان مسعود کہا کرتا تھا پہچان کے لیے لڑنا ہے ، بے نام نہیں رہنا باوقار، بااختيار مستقبل ہمارا منتظر ہے ۔ وہ نوجوانوں کو درس دیا کرتا تھا کہ نظریں جھکا کے نہیں نظریں اٹھا کے جینا ہے ۔ لڑنا ہے ، کٹ جانا ہے مصلحت نہیں کرنی ۔ شعوری لڑائی کے لیے پہچان کے لیے مادر وطن کے لیے لڑنا ہو گا۔ پاکستان کا وظیفہ خور طبقہ نوجوان نسل کو سرمائے کی لالچ میں ذلیل و رسوا کر رہا ہے ۔
پھر وہی شعور ، جدوجہد ناقابل مصلحت کے بلند و باک دعوؤں کے شیرازے بکھرے ۔ کاشان مسعود اسی کرسی کی دوڑ میں شامل ہو گیا جسے چند عرصہ قبل تک ضمیر فروش ، تلوے چاٹ ، پالشی، سازشی اور مالشی کا لقب دیا کرتا تھا۔ نظریات بدلے پارٹیاں بدلی پھر بھی کرسی ممکن نہ ہوئی تو وہی مسلم کانفرنس جو مجرم کانفرنس ہوا کرتی تھی وہی مجاہد اول جسے غدار کے لقب سے نوازا جاتا تھا عظیم بن گیا۔
پھر بھی مفادات نہ ملے تو سرمائے کے آگے سجدہ گیر ہو گیا ، جھگ گیا ۔ وہاں سجدہ دے دیا جہاں کاشان مسعود کے جاننے والوں نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ سرمایہ نظریات ، کردار ، شخصیت پہ بھاری ثابت ہوا۔
وہی کاشان مسعود جو اپنی پہچان کی خاطر شناختی کارڈ جلایا کرتا تھا جو آئی ایس آئی کو دہشتگرد کہا کرتا تھا جو راولاکوٹ چوک چوراہے پہ ”ہاری ہوئی فوج ، بھاگی ہوئی فوج ، قاتل فوج ، باطل فوج ، پاک فوج پاک فوج“ کے نعرے بلند کیا کرتا تھا کل اسی ہاری ، بھاگی، باطل ، قاتل فوج کو سلامی دے رہا تھا ۔ اسی فوج کی تعریفیں کر رہا تھا جو چند عرصہ قبل تک کشمیریوں کی قاتل فوج تھی ۔ انہی تنظیموں کے ساتھ کھڑا تھا جنہیں پراکسی ، پیڈ ، تحریک دشمن کہا کرتا تھا اسی سرمائے کے سامنے جھکا تھا جسے چوک چوراہے پہ للکار رہا ہوتا تھا، عوامی طاقت پہ یقین رکھ رہا ہوتا تھا چور دروازے سے اقتدار کی خوص مٹانے کا خواہش مند بن گیا۔
سچ ہے کردار مر جائے تو انسانی وجود بھی بوجھ بن جاتا ہے ۔ انسان کا کردار و نظریات عظیم ہوتے ہیں ۔ کاشان مسعود نے کردار مسنخ کیا ، نظریات بیچ ڈالے ،شخصیت داغدار کر دی وہ جو تھا وہ نہ رہا امید وخواہش کے کاشان مسعود کو وہ منزل ملے جس کا طلب گار ہے جس کے لیے ہر وہ کرنے کو تیار ہے جو اسے زیب نہیں دیتا کرسی بھی ملے شہرت بھی کھویا مقام بھی۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More