تاریخی و سماجی ارتقاء کا عمل اور طبقاتی نظام؛ تحرير: صنم افسر
آج کے دور میں تاریخی اور سماجی ارتقاکو سمجھنا ضروری ہو چکا ہے۔دنیا کی موجودہ حالت انسان کے ذہن میں بہت سے ایسے خیالات کو جنم دے رہی ہے جس سے اسکی زندگی میں تضادا ور انتشار کا سا ماخول پیدا ہو رہا ہے۔اس تضاد اور انتشار کے باعث وہ جیسے خود سے کوئی جنگ لڑ رہا ہوکیونکہ وہ اس قابل نہیں بن پا رہا ہے کہ اس سب کی وجہ کو جان سکے۔یہ تضاد اور انتشار کا ماخول،یہ خود سے جنگ کرنا،حالات کو سمجھنے کا قابل نا بن سکنا،یہ سب استحصالی اور طبقاتی نظاموں کے کارن انسان کی زندگی میں ہوتا ہے اور ہوتا آیا ہے۔
غلام داری نظام سے لیکر موجودہ سرمایہ داری نظام تک ذر اور سرمائے کو لیکرانسانوں کے بیچ تفریق اور فرق نے سماج کی حالت بلکل بدل کر رکھ دی ہے۔اس سماج کی حالت جو انسان نے اپنے مشترکہ فائدے کے لیے قائم کیا تھا،جو انسان نے اپنے آپکو سختیوں اور تکلیفوں سے بچانے کے لیے ترتیب دیا تھا۔جس کے قانون،اصول اور قاعدے سب کے لیے یکسر برابر تھے۔اگر ہم تاریخی اعتبار سے سماج کی جو تعریف بنتی ہے اس کو ایک طرف رکھ کر بھی یہ سوچیں کہ آخر سماج کیا ہے تو یقیننا ہم یہی طے کریں گے سماج انسانوں کی مشترکہ طور پر رہنے کی وہ جگہ یا نظام ہے جس میں رہنے والے ہر انسان کا حق ایک سا ہونا چاہیے،کیونکہ ایک مشترکہ جگہ جب سب مل جل کر رہیں گے تو انکی ضروریات اور خواہشات ایک سی ہونگی۔اور جب وہ سب ایک سی ہونگی تو انکا حصول کا حق بھی سب کا ہوگا۔حصول کے ذرائع الگ ہو سکتے ہیں مگر ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کسی کا حق بنتا ہو اور کسی کا نہیں۔یہاں تک کہ ایسا کرنا فطرت کے خلاف بھی ہے،کیونکہ فطرت بھی انسان کو یکساں اور ہر موقع برابر دیتی ہے۔مگر غلام داری دور میں طبقات کا جو آغاذ انسان کی اس خواہش کے تحت ہواجب کچھ لوگوں کو خوراک کے ذخیرے پر بٹھایا گیا کہ وہ اسکی دیکھ بھال کا انتظام کریں مگر وہاں سے اسے خود کو مالک اور جو لوگ خوراک اکٹھی کرتے تھے انکو غلام اور اپنا محکوم بنانے کا خیال آیا اور یوں پھر طاقت اور ذر کے نام پر انسانوں کے بیچ تقسیم کا دور شروع ہوا،جو بہت بیانک تھا،جو مختلف شکلوں میں ہوتا ہوا آج کے دور تک موجود ہے۔یہ فطرت کا قانون ہر گز نہیں ہے کہ طبقات کا وجود موجود ہو،انسانوں کے بیچ فرق ہو،کوئی طاقت ور ہو اور کوئی کمزور ہو۔کوئی امیر ہو اور کوئی غریب ہو۔
تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیا جائے تو کہیں بھی یہ فطرت کا قانون ثابت نہیں ہوتا،ہاں یہ اور بات ہے کہ اب تاریخ بھی استحصالی اور طبقاتی طبقوں کے ہاتھوں اس شکل میں موجود نہیں رہی جس میں ہونی چاہیے تھی وہ بھی ان غاصب قوتوں نے اپنے اپنے مفاد کے تحت تبدیل کر دی ہے۔جس کے پیچھے انکا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس فرق اور تفریق کو انسان فطری سمجھے۔مگر آج کے دور میں جہاں بہت سے چیزیں اور حقائق کھل کر سامنے آ رہے ہیں وہاں یہ سب سمجھنا اب مشکل نہیں رہا ہے۔اب یہ تضاد اور انتشار کھل کر سامنے آ رہا ہے۔مگر بات صرف وہی ہے کہ استحصالی اور طبقاتی قوتیں ہمیشہ سماج میں ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ لوگ کبھی بھی انکی حقیقت اور سماجی اونچ نیچ کو سمجھ ہی نہ سکیں۔اسی لے سماجی اور تاریخی ارتقا کے علم سے آشنا ہونا آج کے دور میں بہت ضروری ہے،گو کہ پسماندہ سماج میں ایسے مواقع اور علوم کو اتنا فروغ نہیں دیا جاتا،کیونکہ وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کے ایسے علوم سے دور رکھتے ہیں مگر اسکے باوجود جہاں جبر اور استحصال کا دور ہے وہی اسکے خلاف جدوجہد اور اگاہی کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے،ایسے نظاموں کو بے نقاب کرنے کا کام بھی ان نظاموں کے ساتھ ساتھ جارہی رہا ہے،بس اس کام اور علم کو عوام تک پہنچنے نہیں دیا جاتا،کیونکہ جو نظام دنیا پر حاوی ہوگا وہ قاعدے قانون بھی اپنے حساب سے بنائے گا تاکہ اپنے آپ کو پسپائی اور شکست سے بچا سکے۔جس کے لیے وہ عوام کو اصل اور معیاری تعلیم اور سرگرمیوں مہیا کرنے کی بجائے محکومی اور انحصاری کے حصار میں رکھتا ہے تاکہ وہ کبھی اس قابل ہو نہ سکیں کہ اپنے حق کو پہچان سکیں۔
یہ صرف طبقاتی اور استحصالی نظام کے قائم کردہ فرق کی وجہ ہے کہ دنیا میں بیشتر انسان سخت محنت کرنے کے باوجود اپنے لیے بنیادی ضروریات تک حاصل نہیں کر پاتے اور چند لوگ مالک اور قابض ہو کر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے خود محنت بھی نہیں کرتے۔ان چند لوگوں نے بیشر عوام کے نام پر اور انہی عوام سے کام کروا کر سرمائے اور دولت کا انبار اگٹھا کر کے اس پر قابض ہو کر بیٹھ گئے اور کام کرنے والوں کو صرف روٹی کے حصول تک محدود کر دیا،او ر صرف اس روٹی کو حاصل کرنے کے لیے بھی انہیں ساری زندگی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔سماجی اور تاریخی علوم کا فروغ پسماندہ حالات بدلنے کے لیے ضروری ہے،انہی علوم کی مدد سے انسان سماج کے ارتقا ء اور سماجی نظاموں کوسمجھنے کے قابل بن سکتا ہے،جس کو سمجھ کر طبقات کی بنیاد پر تقسیم کیے ہوئے انسانوں کے ستحصال کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔زندگی کا شعور حاصل کرنے کے لیے سماج اور اس میں انسان کے کردار کوسمجھنانا گزیر ہوتا ہے۔
سماج اور انسان کے کردار کو سمجھے بغیر انسان کا پرامن اور خوشخال زندگی گزارنا مشکل ہے کیونکہ تبھی برابری اور انصاف پر اصول اور قانون بنائے جا سکتے ہیں ورنہ ذر اور سرمائے کی بنیاد پر انسان تقسیم رہتے ہیں کیونکہ اس میں انفرادی مفاد اجتماعی مفاد پر سبقت لے جاتا ہے جس کی وجہ سے سماج انسانوں کی رہنے کا مسکن سے ایک کارخانے میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں عوام سرمایہ کمانے کا ایندھن بن جاتے ہیں اور چند لوگ محنت کیے بغیر مالک بن کر بھرپور زندگی جیتے ہیں۔اس لیے انسانوں کے بیچ اس تفریق اور سماج میں بٹے طبقوں کو سمجھنے کے لیے تاریخی اور سماجی ارتقاء کے عمل کو جاننے کی بہت ضرورت ہے،ایسے سماجی علوم کے فروغ کی ضرورت ہے جس سے علم حاصل کر کے انسان انسانوں کے ہی بنائے ہوئے اونچ نیچ کے قانون کو سمجھنے کے قابل بن سکے۔کیونکہ عوام کے اندر شعور صرف اسی صور ت میں پیدا ہوگا جب وہ دنیا کی موجودہ حالت کو تاریخی اور سماجی کے ارتقاء کے عمل کو دیکھ کر سمجھیں گے۔لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سماجی علوم اور تاریخ جو انسان کی بقاء اور ترقی کے لیے ضروری ہوتے ہیں یہ حکمران طبقہ اسے سماج میں کیوں فروغ نہیں ہونے دیتا اور کیوں اسے تبدیل کر کے اپنے حساب سے رکھتا ہے اور وہ کچھ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔لوگوں کو اب یہ سب دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ وہ ہمیشہ حکمران طبقے کے پیدا کردہ ایسے حالات کا شکار رہ کر محروم اور محکوم ہی رہتے رہیں گے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More